یکم اکتوبر کو اسرائیل پر ایران کے بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ اسرائیل ان حملوں کے ردعمل میں ایران پر کسی وقت بھی جوابی حملہ کرسکتا ہے۔ بالآخر کئی ہفتوں کی تیاریوں کے بعد گزشتہ دنوں اسرائیلی فضائیہ نے امریکہ کی پیشگی منظوری اور اعانت سے ایران کے دارالحکومت تہران سمیت کئی شہروں میں 20فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ حملے انٹیلی جنس بنیادوں پر کئے اور اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایران کی میزائل تنصیبات اور لانچنگ سائٹس کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں 100 سے زائد اسرائیلی جنگی طیاروں نے حصہ لیا جنہوں نے عراق میں واقع امریکی فوجی بیس سے پرواز کی۔ حملوں کے بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل نے اپنا آپریشن مکمل کرلیا ہے لیکن اگر ایران نے ردعمل میں جوابی حملے کئے تو اُسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ بعد ازاں ایران کی وزارت خارجہ نے ایک مبہم بیان جاری کیا کہ وہ علاقائی امن چاہتا ہے اور ایران کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ خطے میں بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر امریکہ اور برطانیہ نے ایران سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی سے گریز کرے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایران پر ہونے والا حالیہ اسرائیلی حملہ محدود نوعیت کا تھا جس میں اسرائیل کے جنگی طیاروں نے ایران میں نہ کسی آئل تنصیبات کو نشانہ بنایا اور نہ ہی جوہری تنصیبات کو ہدف بنایا گیا کیونکہ اسرائیل نے یہ حملہ امریکہ کی پیشگی منظوری اور اعانت سے کیا تھا۔ یاد رہے کہ ایران نے امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادیوں پر پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ اگر ایران کی آئل تنصیبات پر حملہ کیا گیا تو خطے سے دنیا بھر کو ہونے والی 60 فیصد آئل کی سپلائی کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ساتھ ہی ایران نے امریکہ کو یہ پیغام بھی بھجوایا تھا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا جائے گا اور خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ امریکہ، اسرائیل کو ایران کے خلاف انٹیلی جنس معلومات، دفاعی ساز و سامان اور انہیں آپریٹ کرنے کیلئے فوجی اہلکار فراہم کررہا ہے۔ ایران کی یہ ایک اچھی حکمت عملی ثابت ہوئی اور اسرائیل نے ایرانی آئل اور جوہری تنصیبات کو نشانہ نہ بنانے کے امریکی مشورے پر عمل کیا جو ایران کی کامیاب حکمت عملی کا مظہر ہے جس کا ذکر میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی کیا تھا۔ اگر اسرائیل، ایران کی آئل ریفائنریز اور جوہری تنصیبات پر حملہ کرتا تو اس کے پورے خطے پر ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔ اگرچہ امریکہ یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ امریکہ اور اسکی افواج نے ایران پر اسرائیلی حملوں میں کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ گزشتہ کئی ہفتوں سے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی کو تقویت دے رہا تھا اور ایران کے اسرائیل پر میزائل حملوں کے چند روز بعد امریکہ نے THAAD اینٹی میزائل بیٹریاں اور انہیں آپریٹ کرنے کیلئے اپنے فوجی اہلکار اسرائیل بھیجنا شروع کردیئے تھے۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے اسرائیل کو فراہم کردہ جدید ترین ہتھیاروں، جنگی طیاروں، دفاعی ساز و سامان، انٹیلی جنس معلومات اور آپریشنل صلاحیتوں نے بھی ایران پر اسرائیلی حملے میں اہم کردار ادا کیا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے ایران کو سپلائی کی گئی روسی میزائل بیٹریوں کو اس وقت بے اثر کرنے میں مدد کی، جب اسرائیلی جنگی طیارے ایران پر حملہ آور ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران پر حملہ کرنے والے 100سے زائد اسرائیلی جنگی طیاروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے دیگر اتحادیوں نے ایران پر حالیہ حملے کو یہ کہہ کر درست قرار دیا ہے کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔ اگر مغربی طاقتوں کی اس منطق کو مان لیا جائے تو ایران، لبنان، فلسطین، شام اور یمن کو بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے جبکہ 40 ہزار سے زائد بے گناہ شہید فلسطینیوں کو بھی جینے کا حق حاصل تھا۔ موجودہ حالات میں یہ بات خارج از امکان نہیں کہ ایران ردعمل میں اسرائیل پر دوبارہ بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کرے جسکے بارے میں وہ اسرائیل کو پہلے ہی متنبہ کرچکا ہے لیکن ایران کا یہ اقدام ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے جو موجودہ صورتحال میں ایران کے حق میں نہیں ہوگا جس سے ایران کی اسلامی حکومت کی بقا اور نیوکلیئر پروگرام خطرے میں پڑسکتا ہے۔ ایران کو چاہئے کہ وہ آئل اور جوہری تنصیبات کو نشانہ نہ بنانے کے اسرائیلی فیصلے کے سبب تحمل مزاجی، برداشت اور لچک کا مظاہرہ کرے، جوابی حملے سے گریز کرے اور معاملے کے حل کیلئے اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے سفارتکاری کا راستہ اختیار کرے جو وقت کا تقاضہ ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ اور او آئی سی مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کے تدارک کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مشرق ِوسطیٰ ،جو جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، کو بڑی تباہی سے بچایا جاسکے۔