• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈ پارک۔۔۔۔۔ وجاہت علی خان
(گزشتہ سے پیوستہ) 
غزہ کے ساتھ ساتھ اب لبنان میں بھی تواتر سے راکٹ حملے اور بمباری جاری ہے، سارے لبنان سمیت خصوصا بیروت کے سرحدی علاقے براہ راست اسرائیل کی زد میں ہیں۔ لبنان اسرائیل تنازع یوں تو 1948سے جاری ہے لیکن گزشتہ کوئی 20سال میں تواتر کʼ ساتھ مختلف علاقوں پر بمباری معمول ہے چند ہفتے قبل سے تو اس جنگ میں تیزی آچکی ہے اور پے در پے حزب اللہ کی ٹاپ لیڈر شپ کی ہلاکت کے بعد ہماری بیروت میں موجودگی تک تقریباً تین ہزار لبنانی شہری جان سے گزر چکے تھے جن میں بڑی تعداد بچوں کی بھی تھی یوں تو لبنان میں روز مرہ کی مصروفیات جاری ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ سکول، کالجز اور یونیورسٹیز بند ہیں اور یہی وہ جگہیں ہیں جہاں بے گھر ہونے والے افراد بڑے ناگفتہ بہ حالات میں مقیم ہیں ان کے پاس نہ کوئی ملازمت ہے نہ کوئی کاروبار، یہ باوقار فیملیز ہیں جنہیں اب دو وقت کی روٹی اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء کے حصول کےلئے لائنوں میں کھڑے ہونا پڑتا ہے یہاں ضرورتیں بیشمار لیکن وسائل کی شدید کمی ہے، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ برطانیہ سے وہ واحد چیئرٹی تنظیم ہے جو ان نامخدوش اور خطرناک ترین حالات میں بھی اپنے چیئرمین عبدالرزاق ساجد اور ٹیم کے ہمراہ بیروت پہنچی اور حتی الامکان کوشش کی کہ ان بے گھر مجبور و بے کسی میں گھرے لوگوں تک ہر ممکن مدد پہنچائی جائے اور کم از کم دو وقت کے کھانے کا مربوط بندوبست کیا جائے جس کیلئے بیروت کے ایک نواحی علاقے صیدا کے پاس ایک کچن بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ اس جنگ میں’’تنظیم تعاون اسلامی‘‘ (OIC) اور اقوام متحدہ کا کردار بھی صفر نظر آتا ہے، ذہن میں رکھیں کہ یہ ایک ایسی بین‌الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکہ کے 57مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی دنیا بھر کے تقریباً دو ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا اور یہی حال یونائیٹڈ نیشن کا بھی ہے جو اپنی ایک بھی قرارداد پر اسرائیل سے عملدرآمد کرانے میں بری طرح ناکام ہے جبکہ اسرائیل نے پوری سفاکیت سے لبنان کے شہر نبطیہ پر ابھی تک ایک سو سے زائد فضائی حملے کیے۔ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی ٹیم کی وہاں موجودگی میں لبنان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اسرائیل کی فوج نے آدھے گھنٹے تک جنگی جہازوں کے ذریعے اندھا دھند بم برسائے اور معصوم شہری اس کا نشانہ بنے۔ الجبل، عیترون، حولہ، طیبہ، مرکبا، بنی حیان، جبل الریحان، اقلیم التفاح الطیری کے پہاڑی علاقوں، بنت جبیل، حنین، زوطر اور جنوبی لبنان میں نبطیہ کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جنوبی لبنان میں فضائی حملوں سے قبل لوگوں کو موبائل فون پر پیغامات موصول ہوئے جس میں انہیں خبردار کیا گیا کہ وہ ان رہائشی علاقوں سے دور رہیں جنہیں حزب اللہ ہتھیار چھپانے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اسرائیل حزب اللہ تنازع پورے خطے کے امن کو تباہ کرسکتا ہے۔ بھڑکتی اور برستی ہوئی یہ آگ ابھی نہ جانے کتنی اور زندگیوں کو جلا کر خاکستر کرے گی لیکن چیئرمین ’’المصطفیٰ‘‘ عبدالرزاق ساجد کی طرف سے انسانیت کا اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے مصمم ارادہ ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے تمام تر وسائل اور اپنے ڈونرز کے تعاون سے انسانیت کا یہ سفر جاری رکھیں گے اور لبنان و غزہ کے بے گھر ہونے والے لوگوں کے دکھوں کا مداوا بننے کی کوشش کریں گے۔ بیروت کے گرد و نواح میں قیام کے دوران ہم نے میزائلوں اور بمباری سے ہوتی ہوئی تباہی بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی وہ عمارتیں بھی جو ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں اور بموں کے اُن بھاری شیلز کو اپنے ہاتھوں میں اُٹھا کر بھی دیکھا جنہوں نے چشم زدن میں ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل کر دیئے تھے ہم نے زمین بوس ہو چکی ان ملٹی سٹوری بلڈنگز کو بھی دیکھا جن کے ملبے میں ابھی تک انگنت لوگوں کے اجسام بے سکت پڑے اپنے جنازوں کے منتظر ہیں لیکن صد حیف کہ جدید دُنیا جو اخلاقی و جمہوری قدروں اور انسانی حقوق کی بظاہر داعی ہے لیکن اب جبکہ اسرائیلی افواج نے لبنان میں زمینی اور فضائی کارروائیاں تیز کر دی ہیں جس سے مبصرین کی نظر میں اسرائیل کو وقتی طور پر کچھ فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر مشرق وسطیٰ کے اہم ملک میں تباہی سے امریکہ اور خطے کے ممالک کو پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ان حالات میں بھی عالمی ضمیر مجرمانہ طور پر خاموش تماشائی ہے۔ غزہ جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعد سے ماہرین اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ پہلے ہی اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرات منڈ لا رہے ہیں جبکہ محصور فلسطینی پٹی پر انسانی بحران کے خاتمے اور ہلاکتوں کی تعداد رکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف اسرائیل کے عوام بھی اپنے آپ کو مسلسل حالت جنگ میں تصور کرتے ہیں۔ اس وقت عالمی حالات یہ ہیں کہ مبصرین امریکہ میں پانچ نومبر کو ہونے والے انتخابات کے وقت کو کئی حوالوں سے اہم قرار دیتے ہیں جبکہ واشنگٹن، روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ سے نظریں نہیں ہٹا سکتا اور چین سے مسابقت میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ماہرین نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے دو ہمسایہ ملک، غزہ سے متصل اور اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھنے والا مصر اور نصف سے زیادہ فلسطینی آبادی والا اُردن اس وقت سلامتی کے نئے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جہاں دونوں ملکوں کو اقتصادی، سیاسی اور امن و امان کے خطرات کا سامنا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ نے لبنان پر اسرائیلی حملوں کے شروع ہونے کے بعد سے ہزاروں ہلاکتوں اور 12لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے کے بعد خبر دار کیا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ میں شدت آنے سے لبنان دوسرا غزہ بن سکتا ہے۔ عالمی ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ لبنان میں اتنی بڑی متاثرہ آبادی کو انسانی امداد فراہم کرنا انتہائی کٹھن ہو گا۔لبنان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے قائمقام نمائندے ڈاکٹر عبدالناصر ابوبکر نے کہا ہے کہ جنگ کے باعث جنوبی لبنان سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں لوگوں کو ہیضے سے تحفظ حاصل نہیں ہے جو کہ آلودہ پانی اور صحت و صفائی کے ناقص انتظام کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ جنوبی لبنان اور بیروت سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں نے تین دہائیوں سے ہیضے کی ویکسین نہیں لگوائی جس کی وجہ سے یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔
یورپ سے سے مزید