کسی بھی ملک کی ایئر لائن، اُس ملک کی پہچان ہوتی ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک کی اپنی قومی ایئر لائنز ہیں جو اُس ملک کی شناخت سمجھی جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب قومی ایئر لائن پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا اور دنیا کی بڑی بڑی شخصیات پی آئی اے کے ذریعے فضائی سفر کو اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پی آئی اے دنیا کے کئی ممالک کی فضائی کمپنیوں کی تشکیل اور عملے کی تربیت کا فریضہ سرانجام دیتی تھی جس کی زندہ مثال معروف ایمریٹس ایئر لائن ہے جس کا شمار دنیا کی صف اول ایئر لائنز میں ہوتاہے۔ اس کے علاوہ مراکو کی رائل مراکو ایئر لائن اور مالٹا ایئر بس کی تشکیل میں بھی پی آئی اے کا اہم کردار رہا مگر ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ کی حامل قومی ایئرلائن آج کل زبوں حالی اور مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دنوں پی آئی اے کی نجکاری کے موقع پر ایک نجی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر نے قومی ایئر لائن کے 60فیصد حصص کی صرف 10ارب روپے کی بولی لگاکر مجھ سمیت ہر شخص کو حیرت زدہ کردیا حالانکہ نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کی کم از کم بولی 85ارب روپے مقرر کی تھی۔ قومی ایئر لائن کی نجکاری کیلئے حکومت نے ابتدائی طور پر6 بولی دہندگان ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ، پاک ایتھنول پرائیویٹ لمیٹڈ اور بلیو ورلڈ سٹی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کو قومی ایئر لائنز میں اکثریتی حصص کیلئے شارٹ لسٹ کیا تھا لیکن ان 6 بولی دہندگان میں سے صرف رئیل اسٹیٹ ڈویلپرنے اپنی بولی جمع کروائی جبکہ 5 کمپنیاں اس عمل سے دور رہیں۔ واضح رہے کہ پی آئی اے کے پاس اس وقت 33 طیارے ہیں اور مجموعی اثاثوں کی مالیت تقریباً 165ارب روپے ہے جبکہ 60فیصد شیئر کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے تاہم حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کیلئے قومی ایئر لائن کی بولی 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔
پی آئی اے گزشتہ کئی برسوں سے شدید مالی خسارے سے دوچار ہے اور حکومت کو ہر سال 75ارب روپے ادارے کو چلانے کیلئے جھونکنا پڑرہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت پی آئی اے کو اب تک 200 ارب روپے سے زائد فراہم کرچکی ہے۔ خسارے کی ایک وجہ پی آئی اے کے 7ہزار سے زائد ملازمین ہیں اور مجموعی 33طیاروں کے حساب سے فی طیارہ ملازمین کی تعداد دوسرے ممالک کی ایئر لائنز کے مقابلے میں دگنا ہے۔ اس طرح قومی ایئر لائن کو خریدنے والی کمپنی کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ملازمین ہیں جنہیں نجکاری معاہدے کے تحت فوری فارغ نہیں کیا جاسکتا۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے گزشتہ ادوار میں قومی ایئر لائن کی بہتری کیلئے تمام تر کوششیں ناکام رہیں اور موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے حالیہ معاہدے کے وقت یہ یقین دہائی کرائی کہ رواں سال پی آئی اے کی نجکاری کردی جائے گی مگر نجکاری کے حالیہ اقدام میں ناکامی کے بعد حکومت کی دو سال سے جاری کوششیں رائیگاں گئیں اور نجکاری کا عمل دوبارہ وہیں آن کھڑا ہوا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔ نجی اسٹیٹ ڈویلپر کی جانب سے قومی ایئر لائن کی بولی صرف 10ارب روپے لگانا حکومتی بولی 85ارب روپے سے بہت کم ہے جسے نجکاری کمیشن مسترد کردے گا مگر اس سے ادارے کی نجکاری متاثر ہوگی۔ موجودہ صورتحال میں اب صوبائی حکومتیں قومی ایئر لائن کی خریداری میں دلچسپی رکھتی ہیں جس کی شروعات خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کی جو حیران کن ہے کیونکہ وہ صوبہ جس کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے فنڈز نہیں، وہ کس طرح اربوں مالیت کی ایئر لائن خرید سکتا ہے۔ ویسے بھی صوبائی حکومت کا کام کاروبار چلانا نہیں۔ دوسری طرف حکومت پنجاب کے حوالے سے بھی کچھ اسی طرح کی خبریں گردش کرتی رہیں مگر بعد ازاں پنجاب حکومت نے ان خبروں کی تردید کی۔
پی آئی اے کی تباہی میں عمران خان دور حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اہم کردار ادا کیا جن کے قومی اسمبلی میں پی آئی اے کے پائلٹس کے بارے میں دیئے گئے متنازع بیان نے ادارے کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا اور کئی یورپی ممالک نے پاکستانی پائلٹس اور پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کردی جبکہ حال ہی میں پی آئی اے کے ساتھ دوسرا مذاق اس وقت ہوا جب ایک پرائیویٹ ڈویلپر نے قومی ایئر لائن کو کوڑیوں کے دام خریدنے کی بولی لگائی جس سے پرائیویٹ ڈویلپر نے میڈیا پر بے پناہ شہرت حاصل کی مگر ساتھ ہی اُسے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن دوسری طرف پی آئی اے کی نجکاری کے عمل اور ساکھ کو نقصان پہنچا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں شاہراہ فیصل پر واقع ریجنٹ پلازہ ہوٹل کو 14.5ارب روپے میں فروخت کیا گیا جسے SIUT نے خرید کر اسپتال بنادیا مگر ایک نجی رئیل اسٹیٹ ڈویلپرنے پاکستان کی شناخت پی آئی اے کی قیمت صرف 10 ارب روپے لگاکر قومی پرچم کی حامل ایئر لائن کی نہ صرف توہین کی بلکہ ایک بھونڈا مذاق کیا جو لمحہ فکریہ ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کی کوششوں میں ناکامی کے بعد وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان کا کہنا ہے کہ حکومت قومی ایئر لائن پر 200 ارب روپے کے واجبات ختم کرنے اور نجی خریدار کو ’’صاف پی آئی اے‘‘ فروخت کرنے کا فریم ورک وضع کرسکتی ہے۔ میرے خیال میں پی آئی اے میں اب بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس طرح ہمارا قومی سرمایہ نہ صرف فروخت ہونے سے بچ سکتا ہے بلکہ اسے دوبارہ منافع بخش ادارہ بناکر اس کا کھویا ہوا وقار بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔