پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں کے لوگ وافر اناج پیدا کرتے ہیں لیکن حکومتیں اناج کی خریداری اور ذخیرہ کرنے کے امور تسلی بخش انداز میں انجام دینے میں ناکام رہتی ہیں۔ فصل کی پیداوار ، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، موسم کی خرابی اور صوبوں کے درمیان قیمتوں کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے خریداری مہم ہموار طریقے سے ہو نہیں پاتی اور کسانوں کو لاگت کی مناسبت سے معاوضہ نہ ملنے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گندم کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر اس کی پیداوار میں کمی اور غذائی بحران کے خدشات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کسان اگلے ربیع سیزن میں گندم اگانے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے دو سال میں کھاد، پانی، ڈیزل، بجلی، بیج ، ٹرانسپورٹیشن اور ادویات کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ کسانوں کے مظاہرے بھی ہوئے۔ انہیں یہ شکایت تھی کہ سرکار نے جو گندم کے نرخ مقرر کئے تھے وہ مل نہیں پائے۔ پاکستان ایگریکلچرا سٹوریج اینڈ سپلائز کارپوریشن (پاسکو) جو قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے گندم کے ذخائر برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اس کے حالات بھی دگرگوں ہیں۔ نگراں دور حکومت میں وافر مقدار کے باوجود نجی شعبے کو غیر ضروری طور پر لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی جس سے قومی خزانے کو کم از کم تین سو ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس کی تحقیقات کیلئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ تو شاید ابھی سامنے نہیں آئی لیکن سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے سینیٹر ایمل ولی خان کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی قائم کر دی۔ اس قسم کے اسکینڈل پچھلے کئی عشروں سے منظر عام پر آتے رہے ہیں لیکن کسی دور میں اس کے اصل ذمہ دار بے نقاب ہو ئے نہ ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں آسکی۔