• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی کا پاکستان کی توانائی اصلاحات کیلئے حمایت کا اعادہ

اسلام آباد (اسرار خان) جرمنی کا پاکستان کی توانائی اصلاحات کیلئے حمایت کا اعادہ، پاکستان کی 2034 تک 88 فیصد قابل تجدید توانائی پر نظر؛ جرمن سرمایہ کاروں کو دعوت۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گراناس نے پاکستان کی توانائی کے شعبے میں جاری اصلاحات کی کوششوں کے لیے جرمنی کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا جس کا مقصد توانائی کی لاگت کو کم کرنا اور افادیت کو بڑھانا ہے۔ گراناس نے اسلام آباد میں وزیر بجلی سردار اویس احمد خان لغاری سے ملاقات کے دوران کہا کہ انرجی انٹیلی جنس اور بیٹری اسٹوریج ٹیکنالوجی ہر گزرتے دن کے ساتھ بجلی کو مزید سستی بنا رہی ہیں، جرمنی اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔ جرمنی پاکستان کے توانائی کے شعبے میں ایک دیرینہ شراکت دار رہا ہے، جو پائیدار ترقی، قابل تجدید توانائی کو اپنانے، اور کارکردگی میں اضافہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ حالیہ تعاون میں سمارٹ گرڈ سلوشنز، قابل تجدید پروجیکٹس اور بیٹری اسٹوریجز کا انضمام شامل ہے۔ سفیر نے نجی شعبے کی شراکت داری کے ذریعے جرمنی کے تعاون پر روشنی ڈالی جس نے پاکستان کی توانائی کی منتقلی میں پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے ملک کے پاور سیکٹر کو جدید بنانے اور توانائی کی استطاعت کو بڑھانے کے لیے مستقل تعاون کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جرمن نجی شعبہ ایک متحرک کردار ادا کر رہا ہے اور متعدد اقدامات پر تعاون جاری رکھے گا۔ وزیر بجلی اویس لغاری کا کہنا تھا کہ جرمنی قابل تجدید توانائی میں عالمی رہنما ہے، پاکستان پائیداری اور استطاعت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے انرجی مکس کو نئی شکل دینے کے لیے پرعزم ہے۔ لغاری نے پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے عزائم کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 2034 تک پاکستان کا مقصد 88فیصد قابل تجدید توانائی کو اپنے توانائی کے مرکب میں شامل کرنا ہے۔ انہوں نے تجارتی مواقع کو بڑھانے کے لیے بجلی کی مسابقتی مارکیٹ متعارف کرانے کی کوششوں پر بھی زور دیا۔ لغاری نے ترقی کے اہم مواقع کا حوالہ دیتے ہوئے جرمن سرمایہ کاروں کو پاکستان کے بجلی کے شعبے کو تلاش کرنے کی دعوت دی۔ لغاری نے کہا کہ پاکستان کے پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں جن سے جرمن سرمایہ کار بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) تعلقات کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔

اہم خبریں سے مزید