ہم کچھ عرصہ قبل کراچی کے علاقے ملیر میں رہتے تھے۔چوں کہ ہمارا گھر مرکزی شاہ راہ سے خاصا اندر جاکر تھا، تو وہاں جانے کے لیے ملیر پندرہ سے چنگ چی میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ ایک روز حسبِ معمول چنگ چی میں بیٹھے، تو اگلی سیٹ پر میاں، بیوی اور اُن کی دو بچّے براجمان تھے۔ کہیں سے ایک بوڑھی بھکارن بھی اُس طرف نکل آئی اور آتے ہی اُس جوڑے کے سامنے بھیک کے لیے ہاتھ پھیلا دئیے۔ شوہر نے جیب سے دس روپے نکالے اور شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بیٹے سے کہا’’حمّاد! اپنی نانی کو یہ پیسے دے دو۔‘‘
یہ سُنتے ہی خاتون قدرے اونچی آواز میں بولیں’’حمّاد بیٹے! اِس کی شکل تمہاری دادی سے ملتی ہے ناں…دے دو بے چاری کو، نانی کو تو اللہ نے بہت دیا ہوا ہے۔‘‘پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہم لوگ ہنس پڑے، تو وہ جوڑا کچھ شرمندہ سا ہوگیا۔ میاں، بیوی کے درمیان اِس طرح کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور شاید یہ اِس رشتے کا حُسن بھی ہے، البتہ کبھی فریقین کے مزاج کے مطابق، اِس طرح کی باتیں یا معاملات، کچھ اور شکل بھی اختیار کرلیتے ہیں، جس سے رشتے کا یہ حُسن گہنا جاتا ہے۔
باہمی تعلقات میں اِسی اونچ نیچ کی بنیاد پر شادی بیاہ، میاں بیوی اور ساس، داماد کے رشتوں سے متعلق ایسے ایسے لطائف سُننے، پڑھنے کو ملتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے’’ مَیں چَھڑا ہی مر جاواں تے چنگا اے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں تخلیق کردہ لطائف یا مزاحیہ ادب کا ایک بڑا حصّہ بیویوں، ساسوں ہی سے متعلقہ ہے، جن میں عموماً اِنہیں’’زنانہ چنگیز خان‘‘ یا’’جیمز بانڈ 007‘‘ کے رُوپ میں پیش کیا جاتا ہے۔
گویا، اُن کا کام صرف شوہر، داماد کی جاسوسی کرنا اور اُسے ہر صُورت دَبا کر رکھنا ہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات مزاحیہ ٹی وی پروگرامز، اسٹیج شوز، خاکوں، شاعری اور ادب کی دیگر اصناف میں لطائف کا یہ سلسلہ پَھکڑ پن کی حد تک چلا جاتا ہے، جو ہرگز قابلِ تعریف امر نہیں۔
شادی…توبہ!!
ایک ہال میں’’ صحت بخش اور مفید غذاؤں‘‘ کے عنوان پر لیکچر کا اہتمام تھا اور شرکاء کے ہجوم کے سبب تِل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔مہمان مقرّر نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔’’ہماری صحت کا دار ومدار اُن غذاؤں پر ہے، جو ہم استعمال کرتے ہیں کہ اُن میں مفید اور مضر دونوں طرح کی ہوتی ہیں۔ کچھ غذائیں تو ایسی بھی ہیں، جن کے مضر اثرات دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔ جیسے کہ…‘‘ ڈاکٹر صاحب کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی ہال میں آوازیں گونجیں۔ ’’شادی کی بریانی۔‘‘
ایک تقریب میں کسی نے سوال پوچھا۔’’لمبی عُمر کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘تو ماہرِ نفسیات نے جواب دیا۔’’شادی۔‘‘اُن سے پھر پوچھا گیا۔ ’’کیا اِس طرح زندگی طویل ہو جاتی ہے؟‘‘جواب ملا۔’’نہیں، لیکن زندگی لمبی لگنے لگتی ہے۔‘‘ایک رکشے کے پیچھے لکھا ہوا تھا۔’’ کچھ سزائیں صرف لڑکوں ہی کے حصّے میں آتی ہیں، جیسے مرغا یا دُلہا بننا۔‘‘
یہاں شوکت تھانوی کے مضمون کا ایک پیراگراف بھی پڑھتے جائیے:’’شادی کے بعد سے اِس بات پر غور کرنے کی کچھ عادت سی ہوگئی ہے کہ شادی کرنا کوئی دانش مندانہ فعل ہے یا حماقت! یعنی اگر یہ دانش مندی ہے، تو پھر بعض اوقات اپنے بے وقوف ہونے کا بے ساختہ احساس کیوں ہونے لگتا ہے اور اگر یہ حماقت ہے، تو اِس حماقت میں دنیا کیوں مبتلا نظر آتی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ کوئی غور کرنے کی بات تھی، تو شادی سے پہلے غور کیا ہوتا۔ مگر میرا خیال یہ ہے کہ غور کرنے کا شعور عام طور پر شادی کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ ورنہ اس دنیا سے شادی کی رسم کب کی فنا ہوچُکی ہوتی۔‘‘ گویا کہ شادی کوئی ایسی خطرناک چیز یا وبا ہے، جس سے میلوں دُور رہنے ہی میں عافیت ہے۔
پانی پت کا میدان، سی سی ٹی وی کیمرا
میاں، بیوی سے متعلق یہ تاثرعام ہے، جیسے یہ سارا دن آپس میں لڑتے ہی رہتے ہیں۔ اِس بات میں اِس حد تک تو صداقت ہے کہ گھروں میں تلخی، ناراضی اور لڑائی جھگڑے چلتے رہتے ہیں، مگر اب ایسا بھی نہیں کہ میاں، بیوی ہر وقت ایک دوسرے پر تلواریں سونتے رکھتے ہوں۔
لڑائی جھگڑے کے تناظر میں ایک جگہ لکھا ہوا تھا۔’’میاں، بیوی کا رشتہ کشمیر کی مانند ہے، دیکھنے میں بہت خُوب صُورت، مگر ہر وقت لڑائی کا خطرہ۔‘‘اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ بیویاں اپنے شوہروں کی کڑی نگرانی کرتی ہیں اور اِس معاملے میں وہ دنیا کی صفِ اوّل کی’’ انٹیلی جینس ایجینسی‘‘ ہیں۔
لیکن شاید اِس’’ کڑی نگرانی‘‘ میں مَردوں کے اُس مزاج یا عادات کا زیادہ عمل دخل ہے، جن کے زیرِ اثر اُن کا دِل کسی پنڈولم کی طرح ہر وقت اِدھر اُدھر لُڑھکنے کو تیار رہتا ہے۔اِسی لیے بیویاں، شوہروں کی ذہنی و اخلاقی حالت کو وقتاً فوقتاً چیک کرنا اپنا حق ہی نہیں، ڈیوٹی بھی سمجھتی ہیں۔ ایک خاتون نے اپنے شوہر کو فون کیا، تو شوہر نے بڑی بے دِلی سے ہاں، ہوں کے بعد کہا۔’’بھئی، مَیں اِس وقت سخت مصروف ہوں، فارغ ہوکر تمھیں کال کرتا ہوں۔‘‘ شوہر نے فون بند کیا ہی تھا کہ موبائل پر ایک اور خاتون کی کال آگئی، جس نے ہیلو کے جواب میں پوچھا۔
’’ آپ مصروف تو نہیں ہیں؟‘‘اس شخص نے فوراً کہا۔’’ نہیں، نہیں، آپ حکم کیجیے، مَیں بالکل فارغ ہوں۔‘‘خاتون بولیں۔’’مَیں آپ کی ہم سائی بات کر رہی ہوں، دراصل آپ کی بیگم آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ اور فون اُن کی بیگم کو دے دیا۔ اور پھر بیگم نے صاحب سے صرف اِتنا کہا۔’’ شام کو ذرا جلدی گھر آجائیے گا اور ساتھ آئیو ڈیکس یا وینٹو جینو ضرور لیتے آئیے گا۔‘‘
اِسی طرح ایک بیوی نے اپنے شوہر کی’’چوری‘‘اِس طرح پکڑی کہ ایک روز اُس سے کہا۔’’کیا تم میرے لیے ببّر شیر مار سکتے ہو؟‘‘ شوہر نے منمناتے ہوئے کہا۔’’ بیگم! تم کچھ زیادہ ہی مانگ رہی ہو۔کچھ اور مانگ لو۔‘‘بیوی نے ایک شانِ بے نیازی سے کہا۔’’اچھا تو پھر تم اپنے واٹس ایپ میسیجز دِکھا دو۔‘‘
شوہر نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔’’ارے تم یہ بتاؤ، کون سے جنگل کا شیر چاہیے۔‘‘ اِسی لیے کہتے ہیں کہ اگر بیوی کسی معاملے مَیں شوہر سے’’ تفتیش‘‘ کر رہی ہو، تو اِس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُسے اصل بات کا علم ہوچُکا ہے، بس شوہر سے سچ اگلوانا چاہتی ہے۔
ظالم و مظلوم کے قصّے
ہمارے ہاں عموماً بیوی کے کردار کو ایک ایسے ظالم، ڈکٹیٹر، جھگڑالو یا ترش رُو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو شوہر کو چُوں بھی نہیں کرنے دیتی۔ ہر معاملے میں اُسی کی مرضی چلتی ہے، جب کہ دوسری طرف شوہر کو دھرتی کی مظلوم ترین مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہندوستان میں مغل حُکم رانی کے بانی، ظہیر الدّین بابر بہت بارُعب شخصیت کے حامل تھے، جنگوں میں ہمیشہ اگلی صفوں میں شامل ہوکر لڑتے، مگر وہی بابر ایک بار اپنے بیمار بیٹے، ہمایوں کو دیکھنے کے لیے گھر آئے، تو’’ہمایوں نامہ‘‘ کی روایت کے مطابق، اِس موقعے پر بیوی نے اُنھیں ٹھیک ٹھاک سُنادیں کہ’’ تم تو بادشاہ بنے پِھرتے ہو، تمہیں ہماری فکر کہاں۔‘‘اِس میں باقی مَردوں کے لیے تسلّی، حوصلے اور صبر کی بات یہ ہے کہ شوہر بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، بیوی کی جِھڑکیاں بہرحال سُننی پڑتی ہیں۔
بیویوں کی حُکم چلانے کی عادت کے ضمن میں ایک مظلوم کی یہ رُوداد بھی سُن لیں۔ بیوی نے شوہر کو کہا۔’’اُٹھیں، ذرا چائے تو بنادیں۔‘‘وہ اُٹھا اور جوتے پہن کر باہر جانے لگا۔ بیوی نے پیچھے سے آواز دی۔’’ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ وہ بولا۔’’بس بہت ہوگئی، تم سے چھٹکارا پانے کے لیے وکیل کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد وہ گھر واپس آیا اور چُپ چاپ چائے بنانے لگا۔ بیوی نے یہ دیکھ کر کہا۔’’کیا ہوا،وکیل نہیں ملا؟‘‘شوہر بولا’’ ملا تھا، مگر وہ گھر پر برتن دھو رہا تھا۔‘‘
اِسی طرح کسی نے ایک شادی شدہ شخص سے پوچھا’’ آپ شادی سے پہلے کیا کرتے تھے؟‘‘ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور ایک آہ کے ساتھ بولا۔’’ جو میرا دِل کرتا تھا۔‘‘ایک لطیفہ گو نے بیویوں کی’’سفّاکیت‘‘ سے متعلق یہ کہانی گھڑی کہ ’’ایک خاتون ڈرائیونگ لائسنس کے لیے تیسری بار ٹیسٹ دینے گئی۔ افسر نے پوچھا۔’’اگر ایک طرف آپ کا شوہر اور دوسری طرف آپ کا بھائی ہو، تو آپ کِسے ماریں گی؟‘‘
خاتون نے جواب دیا۔’’ شوہر کو۔‘‘اِس پر افسر نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا۔ ’’میڈم! آپ کو تیسری بار بتا رہا ہوں کہ آپ بریک ماریں گی۔‘‘دوسرے لطیفہ گو نے کچھ حساب برابر کرنے کی کوشش تو کی، مگر مظلوم اس میں بھی مَرد ہی کو دِکھایا گیا ہے۔
آدھی رات کو گلی میں شور سُن کر شوہر کی آنکھ کُھل گی۔ اُس نے باہر نکل کر محلّے والوں سے پوچھا کہ اِتنا شور کیوں ہو رہا ہے؟‘‘ اُسے بتایا گیا کہ’’ محلّے کو سپلائی کیے جانے والے پانی میں زہر آگیا ہے، گھر والوں کو مت پینے دینا۔‘‘ جب یہ سُن کر وہ گھر واپس آیا، تو بیوی نے پوچھا’’باہر شور کیوں ہو رہا ہے؟‘‘
اِس پر وہ بولا’’کچھ نہیں ہوا، سب خیر ہے، تم پانی پیو اور سو جاؤ۔‘‘ایک اور نے بیویوں کی ترش رُوئی کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے۔ایک دن شوہر نے اپنی شوگر کی مریضہ بیوی کو کہا۔’’بیگم! سیلف کنٹرول تو کوئی تم سے سیکھے۔‘‘ بیوی نے خوش ہو کر پوچھا۔’’وہ کیسے؟‘‘شوہر نے جواب دیا۔ ’’تمہارے جسم میں اِتنی شوگر ہے، مگر مجال ہے، جو زبان پر ذرا بھی آتی ہو۔‘‘ایک جگہ لکھا تھا۔’’بیوی کی اکثر باتیں ایسی ہوتی ہیں، جیسے کسی ویب سائٹ پر Terms / Conditions کا پیج ہوتا ہے، جس کی کبھی سمجھ نہیں آتی، مگر ’’Agree‘‘ کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ اِسی طرح ایک دِل جلے نے یہ لطیفہ گھڑا۔ بیوی نے شوہر سے کہا۔’’دو گھنٹے ہوگئے، گوشت پَک کے ہی نہیں دے رہا۔‘‘
شوہر نے مریل سی آواز میں کہا۔’’تم ایسا کرو،15منٹ گوشت سے باتیں کرو، پھر دیکھنا کتنی جَلدی پَک جائے گا۔‘‘ شوہر جِم سے ایکسرسائز کرکے گھر آیا اور کچن میں کھڑی بیگم سے جوش میں بولا’’بیگم!! یہ دیکھو میرے ایبز (abs)۔‘‘ پیاز کاٹتی بیگم شوہر کی طرف دیکھے بغیر بولی۔’’مجھے تو شروع دن سے تمھارے اندر عیب ہی عیب نظرآ رہے ہیں۔ شُکر ہے، آج تمھیں بھی نظر آ گئے۔‘‘اب ذرا اِس معاملے میں تو آپ ہی بتائیں کہ میاں، بیوی میں کون قصور وار ہے۔
بیوی نے شوہر سے کہا۔ ’’تم میرے لیے بہت محترم ہو، جہاں بیٹھو گے، مَیں اُس سے نچلے مقام پر بیٹھوں گی۔‘‘’’اگر مَیں بیڈ پر بیٹھوں تو؟‘‘،’’مَیں اسٹول پر بیٹھوں گی‘‘،’’اگر مَیں اسٹول پر بیٹھوں تو؟‘‘،’’مَیں پیڑھی پر بیٹھوں گی‘‘،’’اگر مَیں پیڑھی پر بیٹھوں تو؟‘‘،’’مَیں زمین پر بیٹھوں گی‘‘،’’اگر مَیں زمین پر بیٹھوں تو؟‘‘،’’مَیں گڑھا کھود کر بیٹھوں گی۔‘‘اِس پر شوہر نے کہا’’ اگر مَیں گڑھے میں بیٹھوں تو؟‘‘بیوی نے تنک کر جواب دیا۔’’مَیں تیرے تے مٹّی پوا دیاں گی۔
تینوں عزّت راس نئیں آندی۔‘‘بیویوں سے متعلق یہ بھی مشہور ہے(مشہور کیا ہے، سب ہی بُھگت رہے ہیں)، وہ کبھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتیں۔شوہر نے بات کی، بیگم نے اختلاف کیا۔ شوہر نے دلیل دی، بیگم نے بحث شروع کردی۔ شوہر نے دھیمی آواز میں سمجھانے کی کوشش کی، بیگم نے چیخنا شروع کردیا۔ شوہر تنگ آکر خاموش ہوگیا، بیگم نے ردّ ِعمل نہ دیکھ کے رونا شروع کردیا۔ شوہر نے معافی مانگ لی اور سب ٹھیک ہوگیا۔
اِسی طرح ایک جوڑے میں لڑائی ہوگئی۔ آدھا دن چُپ چاپ گزارنے کے بعد بیوی اپنے میاں کے پاس آئی اور بولی۔’’تھوڑا آپ سمجھوتا کریں اور تھوڑا مَیں سمجھوتا کرتی ہوں۔‘‘میاں نے کہا۔’’ ٹھیک ہے، بتائیں، کس طرح سمجھوتا کرنا ہے۔‘‘ بیوی بولی’’ آپ معافی مانگ لیں، مَیں معاف کردوں گی۔‘‘
سسرال کی دہائیاں
سسرال بھی مزاح نگاروں، شاعروں اور لطیفہ گوؤں کی’’ ہِٹ لسٹ‘‘ پر ہے اور وہ اِسے نشانہ بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ایک شخص نے اپنی فیصل آبادی ساس کو خوشی خوشی فون کرکے کہا۔’’آج پورے بیس سال ہوگئے، آپ کی بیٹی سے شادی ہوئے۔‘‘ ساس نے ایسا جواب دیا، جس سے داماد جی کی ساری شوخی ہوا ہوگئی۔’’تے پتّر! ہون تیری پینشن لادیے؟‘‘سسرالیوں کو ظالم ثابت کرنے کی ایک کوشش اِس طرح بھی کی گئی۔
ایک آدمی اپنے سسرال گیا، تو اُس کی ساس نے پہلے دن اُسے میتھی، دوسرے دن پالک اور تیسرے دن ساگ کھلایا۔ چوتھے دن ساس نے کہا۔’’ بیٹا! آج کیا کھاؤ گے؟‘‘ داماد بولا’’ امّاں جی!مجھے بس کھیت کا رستہ بتادیں، مَیں خود چَر کے آجاؤں گا۔‘‘یہ لطیفہ بھی سُنتے جائیں، جس میں سسرال کو’’پیمنٹ‘‘ پوری کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
داماد پہلی بار اپنے سسرال گیا، جب وہ بیوی کو لے کر واپس جانے لگا، تو ساس نے اُسے100 روپے بطور خرچی دئیے۔ وہاں تو وہ خاموش رہا، مگر گھر آتے ہی بیوی سے لڑائی شروع کردی کہ ’’تیری ماں نے میری بے عزّتی کی ہے۔
مَیں150روپے کے کیلے لے کر گیا اور ساس نے صرف سو روپے مجھے پکڑا دئیے۔‘‘بیوی نے ایک، دو بار تو اُس کی بات سُنی، پھر تیز نظروں سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔’’ تم مجھے لینے گئے تھے یا کیلے سیل کرنے۔‘‘ ساس کے کردار کو اِس قدر ڈراؤنا بنا دیا گیا ہے کہ مَرد تو جیسے تیسے گزارہ کرلیتے ہیں، مگر لڑکیاں تو شادی سے پہلے اِتنی تحقیق ہونے والے شوہر سے متعلق نہیں کرتیں، جتنی پوچھ گچھ، جانچ پڑتال ساس کے بارے میں کرتی ہیں۔
اِسی تناظر میں کہا جاتا ہے کہ’’رشتے کے لیے ساس کی پانچ ڈیمانڈز ہیں، لڑکی خُوب صُورت، خُوب سیرت، پڑھی لکھی، کم عُمر اور مال دار گھرانے کی ہو۔جب کہ لڑکیوں کی صرف ایک ہی ڈیمانڈ ہے، ساس ہی نہ ہو۔‘‘
’’شُکر ہے، لطائف کے بہانے ہی سہی، عورت کو’’ طاقت وَر‘‘ تو تسلیم کیا جا رہا ہے‘‘
سارہ اسامہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں اور ایک چار سالہ بیٹی کی ماں ہیں۔ بیویوں سے متعلق لطائف کے ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’ہم بھی اِن لطائف کو انجوائے کرتے ہیں کہ چلو اِس بہانے ہی سہی، ہمیں طاقت وَر تو تسلیم کیا جا رہا ہے، مگر بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے، بلکہ بہت سے لطائف توہین آمیز بھی قرار دئیے جاسکتے ہیں، جن کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
بیویوں پر تنقید تو ہوتی ہے، مگر اُن کے مسائل کو پوری طرح اجاگر نہیں کیا جاتا۔ اگر شوہر اچھا مل جائے، تو زندگی خُوب صورت ہوجاتی ہے، دوسری صُورت میں ساری عُمر کمپرومائز کرتے ہی گزر جاتی ہے۔ مَیں تو یہی سمجھتی ہوں کہ آج کے دَور میں عورت کو کم ازکم اِس قابل ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اپنا خرچہ خود اُٹھا سکے۔‘‘
’’ بیوی اپنے شوہر اور بچّوں کو اپنی ملکیت تصوّر کرتی ہے‘‘
نمرہ یونی ورسٹی کی طالبہ ہیں اور ڈیڑھ برس قبل رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی ہیں۔اُن کا کہنا ہے۔’’ مَرد، خواتین سے متعلق جس قدر دِل چاہے، لطائف گھڑ لیں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور اِس کا سبب ہماری ہٹ دھرمی نہیں، بلکہ مَردوں کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ایک الگ ہی نفسیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
جن باتوں کو بیویوں کی خامی یا ظلم قرار دے کر لطائف میں اُچھالا جاتا ہے، وہی باتیں تو اُن کا فخر ہیں۔ اگر وہ اپنے شوہر پر نظر رکھتی ہیں، اُس کے آگے، پیچھے گھومتی رہتی ہیں، اُس کی ایک ایک چیز کا خیال رکھتی ہیں، خواہ وہ اُنھیں جاسوسی، نگرانی، دباؤ یا کوئی بھی نام دیں، مگر حقیقت میں اِن سب باتوں سے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ بیوی اپنے شوہر اور بچّوں کو اپنی ملکیت تصوّر کرتی ہے اور ایک مالک کے طور پر ان کی حفاظت کرتی ہے اور یہ دنیا کے ہر خطّے کی بیویوں کے مزاج میں شامل ہے۔‘‘
’’بیٹی نہیں، اپنی زندگی دوسروں کے حوالے کی ہے‘‘
آسیہ خاتون( فرضی نام)کی عُمر70 سال ہے اور وہ دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ہیں۔ تمام بچّوں کی شادیاں ہوچُکی ہیں اور سب اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرّم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم نے مختلف لطائف کا حوالہ دیتے ہوئے اُن سے پوچھا۔’’یہ بتائیے! ساس بیٹیوں کے گھروں میں مداخلت کیوں کرتی ہیں اور داماد کو بھی دَبائے رکھتی ہیں؟‘‘
اِس پر اُنھوں نے کہا۔’’بیٹا! جب کوئی ماں اپنی بیٹی گھر سے رخصت کرتی ہے، تو گویا اپنی زندگی دوسروں کی جُھولی میں ڈال دیتی ہے، تو کیا اُسے اِتنا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی لختِ جگر کی خیر خیریت ہی پوچھ سکے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ ایسی خبر گری کرنا، والدین کا صرف حق ہی نہیں، بلکہ یہ اُن پر فرض ہے۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لاوارثوں کی طرح تو نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘مگر مداخلت کی باتیں؟’’بیٹی کو فون کرنا، اُس کا حال احوال پوچھنا، کسی معاملے پر مشورہ دینا، یہ تو اچھی مداخلت ہے کہ اپنے بچّوں کی رہنمائی تو کرنی چاہیے۔
ہاں، اگر کسی معاملے میں کوئی گڑبڑ محسوس ہو، تو اپنی بچیوں کو سمجھانا چاہیے اور اگر اِس کے برعکس، داماد یا اُس کے گھر والوں کی طرف سے کوئی معاملہ ہے، تو اُسے بھی اچھے طریقے سے ہینڈل کرنا چاہیے، کیوں کہ بہت سے معاملات میں صرف صبر کافی نہیں ہوتا، بلکہ’’ دوا‘‘ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور دوا یہی ہے کہ مسئلہ اچھے طریقے سے حل کیا جائے۔
کوئی بے وقوف عورت ہی ہوگی، جو اپنی بیٹی کو بسنے نہ دے اور ایسی ساسیں کم ہی ہوتی ہیں۔ جہاں تک داماد سے سلوک کی بات ہے، تو اِس معاملے میں ہر گھر کا اپنا مزاج اور روایات ہیں، مگر اِن تمام روایات میں داماد کے لیے محبّت و احترام ہی پایا جاتا ہے۔
سسرال والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے داماد کے ساتھ اچھا رویّہ اختیار کریں گے، تو دوسرے گھر میں اُن کی بیٹی کی عزّت میں بھی اضافہ ہوگا۔ باقی کمی بیشی تو ہرجگہ ہے کہ ہر گھر اور خاندان کے حالات یک ساں نہیں ہوتے۔‘‘
’’ بیویاں گھر، بچّے سنبھالنے میں خود کو کھپا دیتی ہیں‘‘
غلام رسول کی شادی کو32برس ہوچُکے ہیں، بیویوں سے متعلق لطائف پر اُن کا کہنا ہے کہ’’ ایسے لطیفے ہم بھی سُنتے، سُناتے رہتے ہیں، مگر اِس کا مقصد ہلکی پُھلکی تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ کھٹ پَٹ تو ہر گھر ہی میں رہتی ہے، مگر سچّی بات یہ ہے کہ والدین اور میاں، بیوی سے بڑھ کر شاید ہی کوئی اور خُوب صُورت رشتہ ہو۔
اگر بیویوں کی طرف سے کچھ سختی محسوس ہو، تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ ہمارا گھر اور بچّے سنبھالنے کے لیے خُود کو کس طرح کھپاتی ہیں۔‘‘
’’شیطان کی چالیں ناکام بنادیں‘‘،مولانا طاہر عقیل اعوان
مولانا طاہر عقیل اعوان ممتاز عالمِ دین اور پنجاب قرآن بورڈ کے رُکن ہیں۔خواتین سے متعلق گھڑے جانے والے لطائف کے ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ ’’شادی ایک خُوب صُورت بندھن ہے اور اِس سے وابستہ تمام ہی رشتے نہایت قابلِ احترام ہیں۔ شیطان اِن رشتوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتا ہے اور احادیثِ مبارکہؐ کے مطابق وہ میاں، بیوی میں تفریق کو اپنا بڑا کارنامہ گردانتا ہے۔
کسی مہم یا کسی کی باتوں سے متاثر ہوکر شادی جیسے اہم فریضے سے فرار درست نہیں، کیوں کہ شادی نبی کریم ﷺ کی سُنّت ہے، جس پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔باقی دنیا کے دیگر معاملات کی طرح اِن رشتوں میں بھی بسا اوقات مسائل درپیش ہوتے ہیں، جنھیں اچھی حکمتِ عملی سے حل کیا جاسکتا ہے اور اِس ضمن میں شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔
نبی کریمﷺ کا اپنی ازواجِ مطہرات سے محبّت و احترام کا رشتہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، جس کی پیروی سے ہم اپنے گھروں کو جنّت نُما بناسکتے ہیں۔ اِسی طرح خواتین کو بھی اپنے فرائض کی ادائی میں کوتاہی سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ گھر اور خاندان مضبوط سے مضبوط تر ہوجائیں اور وہ کسی سازش کا نشانہ نہ بن سکیں۔ جہاں تک لطائف کی بات ہے، تو اِن میں بیویوں کی مخصوص نفسیات کی عکّاسی کی جاتی ہے، مگر یہ احتیاط لازم ہے کہ اِن کا مقصد کسی کی توہین، دل آزاری یا شادی جیسی مقدّس سُنّت سے متنفّر کرنا نہ ہو۔‘‘
کچھ حقیقتیں، سچّائیاں
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ لطیفہ گوئی میں میاں، بیوی اور ساس، داماد جیسے خُوب صورت و باوقار رشتوں کی درست عکّاسی نہیں کی جاتی، وہاں یہ بھی سچ ہے کہ سارے لطائف یک سَر غلط بھی نہیں۔میاں، بیوی کے درمیان اونچ نیچ سے کون انکاری ہوسکتا ہے، اِسی طرح سسرال یا داماد کی طرف سے بھی ہمیشہ’’ سب اچھا‘‘ نہیں ہوتا۔ کمی بیشی ہر طرف ہے۔ کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ’’شادی بجلی کے تاروں کی طرح ہوتی ہے…صحیح جُڑ جائے تو زندگی روشن…اور اگر غلط جُڑ جائے، تو زندگی بَھر جھٹکے۔‘‘
اِس ضمن میں جہاں ایک دوسرے کو سمجھنے، صبر و تحمّل، برداشت، معاملہ فہمی اور عفو و درگزر جیسے امور کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، وہیں رشتہ طے کرتے وقت معاملات کی اچھی طرح چھان پھٹک اور بچّوں کے رجحان کو اہمیت دینا بھی ازحد ضروری ہے۔ مشتاق یوسفی نے اِس معاملے کو اپنے مخصوص انداز میں یوں بیان کیا ہے۔’’ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں سے اُن کی مَرضی پُوچھی جاتی ہے۔
ہاں کریں، تو شادی کر دی جاتی ہے اور اگر وہ نہ کریں، تو بھی کردی جاتی ہے۔‘‘اِسی طرح لطائف کی آڑ میں خواتین کی توہین کو بھی کسی صُورت پسندیدہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ اِسے تفریح کا نام دیا جائے یا کچھ اور… اگر کسی پلیٹ فارم پر ہنسی مذاق کے نام پر پھکّڑ پن ہو، بھدّے، بھونڈے اور کراہت آمیز انداز میں عورت کو نشانہ بنایا جا رہا ہو، تو اُس پر قہقہے بلند کرنے کی بجائے مذّمتی آوازیں سُنائی دینی چاہئیں کہ کسی مہذّب معاشرے سے اِسی کی توقّع کی جاتی ہے۔