پانچ دریاؤں کی سرزمین، صوبۂ پنجاب گزشتہ کئی برس سے’’اسموگ‘‘ کی زد میں ہے اور حالیہ دِنوں میں تو اِس کے اثرات دیکھ کر لگتا ہے کہ پانی سَر سے بہت اونچا ہوچُکا ہے۔ تاہم، یاد رہے کہ یہ سب ہماری برسوں پر محیط لاپروائی، غفلت کا شاخسانہ، نیز، نام نہاد صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی گلوبل وارمنگ ہی کا نتیجہ ہے۔
اسموگ کے سبب بار بار معاشی و معاشرتی سرگرمیاں محدود کرنے، حتیٰ کہ تعلیمی ادارےبھی بند کرنے کے اعلانات کیےجارہے ہیں، جب کہ تادمِ تحریر مختلف اسپتالوں میں اسموگ سے متاثرہ 19لاکھ سے زائد مریض علاج کے لیے لائے جا چُکے ہیں، جویقیناً لمحۂ فکریہ ہے۔
ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والےاعداد وشمار کے مطابق نومبر کے ابتدائی دو ہفتوں میں صرف سانس کی تکلیف میں مبتلا کم و بیش 7لاکھ افراد مختلف اسپتالوں میں داخل کیے گئے، جب کہ وفاقی محکمۂ صحت کےمطابق اسموگ سے متاثرہ زیادہ تر مریضوں میں آشوبِ چشم، شدید کھانسی، دَمہ، منہ پکنے، سانس لینے میں دشواری جیسی تکالیف، امراضِ قلب، فالج اور پھیپھڑوں کی مختلف بیماریاں دیکھی جارہی ہیں۔
گرچہ ان میں سے بعض امراض کے اثرات ابھی معمولی نوعیت کے ہیں۔ تاہم، 2028ء تک یہ سنگین صورتِ حال اختیار کر کے مُہلک بھی ثابت ہو سکتےہیں۔ یہی وجہ ہےکہ اربابِ اختیار مختلف شہروں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد اب پنجاب بَھرمیں مکمل لاک ڈاؤن لگانے پر بھی بہت سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔
اس تمام تر صورتِ حال میں ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ یہ اسموگ آخر ہے کیا اور اِس نے پنجاب کو اپنی گرفت میں کیسے لیا؟ درحقیقت، یہ اسموگ نامی عفریت ہماری اپنی گُم راہی اور کوتاہ بینی ہی کا نتیجہ ہے۔ جب ہم قناعت پسندی اور صبر و شُکر کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے، تو سارے موسم ہی ہمیں بھلے لگتے تھے، مگر ترقّی یافتہ کہلانے کے شوق میں مبتلا ہو کر ہم نے خُود اپنی تباہی کو دعوت دے ڈالی ہے۔
نتیجتاً، آج وہ دُھند یا کُہر، جو سردیوں کے آغاز میں ہمیں کچھ دیر کے لیے تروتازہ کردیا کرتی تھی، ’’زہریلے اسموگ‘‘ جیسے عذاب کی صُورت اختیار کر چُکی ہے۔ واضح رہے کہ اسموگ، اسموک (دھویں) اور فوگ (دُھند) کا مجموعہ ہے۔ درجۂ حرارت کم ہونے پر فضا میں موجود آبی بخارات عملِ تکثیف (Condensation) سے دُھند کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور درجۂ حرارت بڑھنے پر یہ دُھند خود بہ خود غائب ہو جاتی ہے، جب کہ دھویں سے مُراد وہ ہلکے ترین ذرّات ہیں کہ جوکوئی شے جلانے پر فضا میں شامل ہوجاتے ہیں۔
اِن میں مختلف اقسام کی زہریلی گیسز اورمٹی کے ذرّات بھی شامل ہو سکتے ہیں اور جب دھواں اور دھند آپس میں ملتے ہیں، تو اسموگ جنم لیتی ہے۔ نام نہاد ترقّی کےنام پرہونے والی انڈسٹریلائزیشن نے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں کی سرزمین، پنجاب کے ماحول کو خطرناک حد تک آلودہ کردیا ہے۔
صوبے کی فضا میں آلودگی کی شرح 200 مائکرو گرام کیوبک میٹر ہے، جس میں کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر اور نائٹروجن کے زہریلے ذرّات بڑی مقدار میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کی فضا میں 300 سے 400 فٹ تک آکسیجن کی بھی شدید کمی ہے۔
پنجاب کی فضا میں پائی جانے والی آلودگی کا اندازہ اِس ماہرانہ رائے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص روزانہ50 سگریٹ پیتا ہے، تو وہ بھی اُس کے پھیپھڑوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے، جتنا کہ ایک دن پنجاب بالخصوص لاہور اور لاہور میں بھی گلبرگ میں رہنے سے پہنچ سکتا ہے۔‘‘
پنجاب میں اسموگ کا بڑا سبب فیکٹریاں اور کارخانے ہیں، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اِسی طرح لاہور کے گردونواح میں لگائے گئے پاور پلانٹس سے نکلنے والا زہریلا دھواں بھی مستقلاً فضا کو آلودہ کررہا ہے۔ نیز، گاڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ اور اُن کے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والا غیرمعیاری پیٹرول بھی آلودگی بڑھانے کا سبب ہے۔
دوسری جانب ہمارے پڑوسی مُلک، بھارت کے شہر، ہریانہ میں کاشت کی جانے والی چاول کی فصل بھی ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی اہم وجہ ہے، جس کی کاشت میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی کاشت کار اکتوبر کے آخرمیں اپنی فصل کی باقیات کو نذرِ آتش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں سرحد کے قریب واقع دونوں ممالک کے شہروں میں کثیف دھواں پھیل جاتاہے۔
اسی طرح ہمارے ہاں پنجاب کے کچھ شہروں میں بھی دھان، مونجی اور ٹائر جلا کر تار اور تیل حاصل کیا جاتا ہے، تو اس عمل سے بھی فضا زہرآلود ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں، شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اوراِن کےاردگرد موجود کھیتوں، باغات، جنگلات اور دیہات کو ختم کر کے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر بھی اسموگ میں اضافے کابالواسطہ سبب ہے۔
بہرکیف، ہماری اپنی کوتاہ بینی اور عاقبت نا اندیشی سے ماحول کو جو نقصان پہنچنا تھا، وہ تو اب پہنچ ہی چُکا ہے۔ تاہم، مستقبل میں مزید تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہمیں بہت سنجیدگی سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اقدامات کرنےہوں گےاور اِس ضمن میں حکومت اور عوام دونوں ہی کو ہنگامی بنیادوں پر کوششیں کرنی چاہئیں۔
اربابِ اختیار کو ماہرینِ ماحولیات کی مدد سے اسموگ کی وجوہ اور اثرات کا درست تجزیہ کر کے اِس سے نجات کے لیے طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبے بنانے چاہئیں۔ نیز، دھویں کے اخراج کے عوامل پر مکمل پابندی عاید کردینی چاہیے۔ موسمِ سرما میں ماحول کو گرم رکھنے کے لیے عوام کو سستے متبادل ماحول دوست ذرائع مہیا کیے جانے چاہئیں۔
دوسری جانب اندرونِ شہر قائم کارخانوں کوآبادی سے دُور منتقل کیا جائے اور اس سلسلے میں صنعت کاروں کو مفت یا انتہائی کم قیمت پر شہر سے باہر زمینیں مہیا کی جائیں۔ نیز، اُنہیں صنعتوں کی منتقلی کے لیے بلاسود قرضے بھی فراہم کیے جائیں۔ بجلی کی پیداوارکےلیےپاورپلانٹس شہر سےدُور جنگلات میں نصب کیے جائیں۔
درخت کاٹنے اور زرعی اراضی پر تعمیرات پہ پابندی عاید کی جائے۔ شہروں میں گرین بیلٹس، باغات اور پارکس وغیرہ بنائے جائیں اور شجرکاری کو فروغ دیا جائے۔ سفر کے لیے پبلک ٹرانس پورٹ کو فروغ دے کرنجی گاڑیوں کے استعمال میں کمی لائی جائے۔ گاڑیوں میں ناقص و غیر معیاری ایندھن کے استعمال کو جُرم قرار دیا جائے۔ نیز، بچّوں کو ابتدا ہی سے اُن کے تعلیمی نصاب میں شجرکاری کی اہمیت سے متعلق بتایا جائے اور پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پرایک منظّم مُہم کے ذریعے عوام کو شجرکاری کی ترغیب دی جائے۔
اگر مندرجہ بالا تجاویز پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے، تو ہم ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ بہ صورتِ دیگر رفتہ رفتہ پورا پاکستان بھی گلوبل وارمنگ کےاثرات کی زد میں آسکتا ہے۔ جیسا کہ لاہور کے بعد ملتان، کراچی وغیرہ کے نام سامنے آئے ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل وشعور عطا کرے اور ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے، آمین۔ (مضمون نگار، وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ جیالوجی کی سابق چیئرپرسن ہیں۔)