پاکستان کی مشکلات سے دوچار معیشت کو استحکام کی راہ پر ڈالنے کیلئے موجودہ وفاقی حکومت کی سب سے زیادہ توجہ اندرون ملک سرمایہ کاری کے تمام تر مواقع بروئے کار لانے اور بین الاقوامی اداروں اور ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھانے پر مرکوز ہے اس ضمن میں اسے بلاشبہ کامیابیاں ملی ہیں اور ملکی معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ حکومت کے ان مثبت معاشی اقدامات میں دوسرے دوست ممالک کے علاوہ وسط ایشیا کی ریاستوں سے تجارتی تعاون کے مواقع بڑھانا سب سے اہم پیش رفت ہے۔ وسط ایشیا کے قدرتی وسائل سے مالا مال یہ ممالک ماضی میں سوویت یونین کے اشتراکی نظام کے تابع تھے۔ اب جبکہ انہیں اپنے وسائل سے خود فائدہ اٹھانے کی آزادی ملی ہے تو وہ انہیں پوری توجہ اور محنت سے بروئے کار لا رہے ہیں۔ بیلا روس ان ممالک میں سے سب سے نمایاں ہے جو پاکستان سے دوستی اور تعاون کے مضبوط رشتوں میں منسلک ہے۔ اس تعاون کو مزید مستحکم بنانے کیلئے بیلا روس کے صدر الیگزنڈر لوکا شینکو پیر کی شام پاکستان پہنچے تو وزیراعظم میاں شہباز شریف نے نور خان ایئر بیس پر خود ان کا استقبال کیا۔ مہمان صدر کی پاکستان سے مذاکرات میں معاونت کیلئے 68 رکنی وفدایک روز پہلے اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔ اس وفد میں نصف درجن وزرا کے علاوہ ممتاز تاجروں کی کافی بڑی تعداد بھی شامل ہے اسی روز وفد میں شامل وزرا نے باہمی تجارت سمیت آٹھ مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کئے۔ مزید سمجھوتوں پر منگل کو حتمی شکل دی گئی۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعاون کے جو معاہدے طے پائے گئے ان میں توانائی انفراسٹرکچر ، ٹیلی کمیونیکیشن ، مینو فیکچرنگ ،معدنیات ، آئی سی ٹی اور زراعت سمیت تمام اقتصادی شعبوں میں مدد اور سرمایہ کاری کے 16 عہد نامے شامل ہیں۔ شاہراہ قراقرم کی طرز پر پاکستان اور بیلا روس کے درمیان ریل اور روڈ کی تجارتی راہ داری کی تشکیل بھی معاہدوں میں شامل ہے اس کے علاوہ منی لانڈرنگ کی روک تھام ، پیشہ ورانہ تعلیم کے فروغ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی مہارت کے تبادلے میں بھی دونوں ملک ایک دوسرے کی مدد کرینگے۔ فارما سیوٹیکل کمپنیوں میں پانچ سالہ تعاون کیلئے بھی معاہدہ کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک میں دو سالہ روڈ میپ پر بھی اتفاق ہوا ہے جس کا مقصد تجارتی راہ داری کو فروغ دینا ہے۔ حلال تجارت کا فروغ اس کے علاوہ ہے۔ ان معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں کی بدولت بیلا روس کیلئے پاکستان کی صنعتی و زرعی مصنوعات اور کئی دیگر اشیا کی برآمد میں اضافہ ہو گا اور بیلا روس سے ضرورت کی اشیا درآمد کی جا سکیں گی۔ نیز ان معاہدوں کی رو سے دونوں ملکوں میں تجارتی رکاوٹیں دور اور ایک دوسرے کی مارکیٹ تک رسائی آسان ہو جائے گی۔ مہمان صدر اور وزیراعظم پاکستان کے درمیان مذاکرات میں باہمی دوستی اور تعاون بڑھانے کی کئی تجاویز زیر غور آئیں جبکہ بیلا روس کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب اسحاق ڈار سے بھی باہمی دلچسپی کے معاملات بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر تبادلہ خیال ہوا۔ وسط ایشیا کی دوسری ریاستوں سے پہلے ہی پاکستان کے دوستانہ رشتے استوار ہیں ۔ بیلا روس سے تعلقات مستحکم ہونے سے پاکستان کیلئے زراعت ، صنعت ،موسمیاتی تبدیلیوں ،ڈیری فارمنگ ، سیاحت ، پانی کی بچت ، سبز ٹیکنالوجی کی منتقلی ، حیاتیاتی تحفظ اور کئی دوسرے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے مواقع بھی ملیں گے جن کی اس وقت اسے شدید ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے صدر لوکاشینکو اور ان کے وفد کا دورہ پاکستان کی معیشت کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام کی جو کیفیت پائی جاتی ہے حکومت اور سیاسی پارٹیاں قومی مفاد میں اس پر بھی قابو پا لیں اور تعمیر و ترقی کیلئے حالات سازگار بنائیں۔