• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ صبح چھ بجے اٹھا اور اسے یک دم یوں لگا جیسے ’آج‘ بھی ’کل‘ ہے، وہ چوبیس گھنٹے پیچھے چلا گیا ہے، جیسے جیسے دن گزرنا شروع ہوتا ہے اس کا شبہ بڑھنے لگتا ہے،ہر واقعہ گزرے ہوئے ’کل‘ کی طرح پھر سے رونما ہو رہا ہے، عمل اور ردِ عمل دونوں خود کو دہرا رہے ہیں، وہ خواب دیکھ رہا ہے کہ یہ اس کا وہم ہے؟ کچھ نہیں کھلتا۔ یونہی رات ہو جاتی ہے اور وہ گھڑی پر صبح چھ بجے کا الارم لگا کر سو جاتا ہے۔ اگلی صبح جب وہ بیدار ہوتا ہے تو ریڈیو پر ’کل‘ والا گانا بج رہا ہے، اور پروگرام کا میزبان وہی پھیکی جگتیں دہرا رہا ہے۔ وہی دن دوبارہ اسے درپیش ہے، ہو بہ ہو وہی دن۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی یاداشت اس سے کوئی کھیل کھیل رہی ہے، یہ Deja vu کی کوئی صورت ہے۔ اس سے اگلی صبح بھی وہ ’کل‘ میں ہی آنکھ کھولتا ہے، اسے آہستہ آہستہ یقین آنے لگتا ہے کہ وہ کسی Time Loop میں پھنس گیا ہے۔ وہ نیورولوجسٹ کو دکھاتا ہے، سائیکالوجسٹ کے پاس جاتا ہے لیکن کسی کو اس کی کیفیت سمجھ نہیں آتی۔ شدید ڈپریشن کے عالم میں وہ آخرِ کار خود کشی کر لیتا ہے۔

جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ عالمِ بالا میں نہیں، بلکہ اپنے بستر میں ہی پایا جاتا ہے، ’کل‘ صبح کے چھ بج رہے ہیں اور ریڈیو پر وہی گانا چل رہا ہے۔یہ کہانی ہے 1993کی ایک معروف فینٹسی فلم Groundhog Day کی، جس کی نوع بہ نوع تشریحات آج تک جاری ہیں، مثلاً، مرکزی کردار کتنے سال تک ایک دن کو دہراتا رہتا ہے کیوں کہ فلم میں یہ واضع نہیں کیا گیا۔ کوئی ہم سے پوچھے تو ہم جھٹ سے کہیں گے، 76سال۔ گرائونڈ ہوگ ڈے ایک کامیڈی فلم ہے جس کا موضوع ’’وجود کا المیہ‘‘ ہے، اور ہمیں بھی سن سینتالیس سے ایک Tragicomic صورتحال کا سامنا ہے۔پاکستان کی سیاست، جمہوریت، وفاق، ادارے، سیاسی لیڈر، جج، جرنیل، سب کے سب، یوں لگتا ہے ایک ٹائم لُوپ میں پھنسے ہوئے ہیں، اپنی طرف سے تو یہ سب ’شرطیہ نیا پرنٹ‘ پیش کرتے رہتے ہیں، مگر دراصل یہ وہی پرنٹ ہے، گھسا ہوا، پِٹا ہوا، اس ملک کے عوام ہر صبح جب بیدار ہوتے ہیں تو انہیں ایک اور ’کل‘ کا سامنا ہوتا ہے، ہر روز یہی ہوتا ہے، سال ہا سال سے یہی ہو رہا ہے، سوئی اڑی ہوئی ہے، نیا دن نہیں نکلتا، ہم دہائیوں سے ایک ہی دن کو دہراتے چلے جا رہے ہیں۔

زیادہ پیچھے نہ جائیے، پچھلے دس سال پر ایک نظر ڈالیے۔ آج سے ٹھیک دس سال پہلے ملک میں ایک دھرنا ڈی چوک میں ہو رہا تھا، عمران خان کی کال پر ہو رہا تھا اور الیکشن ’دھاندلی‘ کے خلاف ہو رہا تھا۔ اور آج کیا ہو رہا ہے؟ مِن و عن وہی ہو رہا ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہم ’کل‘ میں اٹھے ہیں، ریڈیو پر وہی دھن بج رہی ہے، پروگرام کا میزبان وہی ٹھنڈی جگتیں کر رہا ہے، وہی دھاندلی، وہی کال، وہی ڈی چوک، اور وہی عمران خان۔ہم بہت سی جزیات بدل کر اس ٹائم لُوپ کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر دائرہ ٹوٹتا ہی نہیں۔ہمارے سب الیکشن گہنائے ہوئے ، ہماری سب حکومتوں کو لجیٹے میسی کا سوال درپیش رہا (ویسے آج مُڑ کر دیکھیں تو 2013ءکا الیکشن غالباً ہماری حالیہ تاریخ کا سب سے صاف ستھرا انتخاب تھا)۔ کل وفاقی حکومت کا حصہ ایک صاحب سے فارم 47کا شکوا کیا تو وہ RTS کا تذکرہ لے بیٹھے، کہنے لگے عمران ہمارا 2018ءکا مینڈیٹ واپس کر دے تو ہم بھی غور فرمائیں گے۔ ٹائم لُوپ میں پھنسنا اور کسے کہتے ہیں؟ شمال سے لشکر اترنا بھی ہمارے لیے کوئی نیا منظر نہیں ہے، ’نئی بات‘ اس مرتبہ یہ تھی کہ اس دفعہ خیبر پختون خوا سے آنے والے جتھوں کی قیادت بشریٰ صاحبہ کر رہی تھیں، جنہوں نے ہجوم سے اپنا پہلا سیاسی خطاب بھی کیا اور پٹھانوں کو ایک غیرت مند قوم قرار دیا۔ بڑے عدسے سے دیکھیں تو موروثی سیاست بھی ہمارے لیے کوئی انوکھی بات نہیں، عمران خان کو جب تک موروثی سیاست کو گالی دینے کی ضرورت تھی وہ دیتے رہے، اب پہلی دفعہ انہیں اس کی ضرورت پڑی ہے تووہ عنقریب اس کے فضائل گنواتے نظر آئیں گے۔ بہرحال پی ٹی آئی میں جانشینی کا مسئلہ تو بڑی حد تک حل ہو گیا،بہ ظاہر یہ تو طے پا گیا کہ اگر عمران خان بہ وجوہ سیاسی منظر نامے میں شامل نہیں ہو سکیں گے تو بشریٰ صاحبہ ان کی جگہ سنبھالیں گی، جلوس کی قیادت ہو یا ایوانِ اقتدار۔

اب مسئلہ کچھ یوں ہے کہ آئے دن عمران خان کام یابی سے ملکی نظام مفلوج کر دیتے ہیں، انہیں جیل میں رکھنے سے ملک میں بے چینی ہے، اگر انہیں رہا کر دیا جائے تو ملک میں بے چینی بڑھنے کا اندیشہ ہے، وہ 2014 ءسے آج تک اقتدار سے باہر ایک دن بھی نہ خود پر امن رہ پائے نہ ملک رہ سکا ، اس سارے مسئلے کا ان کے پاس ایک ہی ’’سنہرا حل‘‘ ہے، اقتدار ان کے حوالے کردیا جائے، کل پی ٹی آئی کے ایک کارکن کو ایک بینر تھامے دیکھا جس پر لکھا تھا ’’عمران خان یا مارشل لاء‘‘ (بے اختیار رافعہ صاحبہ یاد آ گئیں)۔ چلتے چلتے، گرائونڈ ہاگ ڈے کا اینڈ بھی سُن لیجیے، فلم کا مرکزی کردار آخرِ کار ٹائم لُوپ توڑنے میں کام یاب ہو جاتا ہے، اور یہ مکتی اسے فقط اس لیے ملتی ہے کہ وہ خود غرضی کا بُت توڑ دیتا ہے اور اپنی ناک سے آگے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔

تازہ ترین