مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
ہمارے پیارے تاعُمر ہمارے ساتھ نہیں رہتے، لیکن جو وقت بھی ساتھ گزرتا ہے، پھر اس کی لامتناہی یادیں ساتھ رہ جاتی ہیں۔ اُن کی باتیں، یادیں رہ رہ کے تڑپاتی ہیں۔ کبھی وہ مسکراہٹ بن کر لبوں پہ دوڑتی ہیں، تو کبھی آنکھوں کی نمی کی صورت چھلک جاتی ہیں۔ 28؍ دسمبر 2023ء کا دن میرے حافظے سے کبھی محو نہیں ہوسکتا کہ اُس دن میری بھابی، کلثوم نسیم اوسا والا اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں۔
اُن کے اس طرح اچانک چلے جانے پر مجھے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بہت وقت لگا۔ قبل ازیں میری اس طرح کی کیفیت اُس وقت بھی ہوئی تھی، جب میری پیاری باجی، عابدہ عبدالغفار کٹیا اچانک داغِ مفارقت دے گئی تھیں۔
میری باجی عابدہ نے نہ صرف ہماری والدہ کی زندگی میں، بلکہ اُن کے بعد بھی ایک ماں کی طرح پورے گھر کی ذمّے داریاں نبھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ہم تمام بہنوں کی بہترین پرورش، دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے بعد سب بہنوں کی شادیاں بھی کیں، اور یہ سب کچھ وہ ماتھے پر بَل لائے بغیر کرتی رہیں، حتیٰ کہ امّی، ابّو کے خاندان میں رشتے داری کے معاملات نبھانے کے ساتھ اپنے بچّوں کی بہترین پرورش کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دیا۔
آج اُن کی محنت، لگن اور سلیقہ شعاری یاد آتی ہے، تو احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے جس طرح پورے گھر بلکہ خاندان کو سنبھالا ہوا تھا، وہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ بلاشبہ، وہ بہت خاص تھیں، انہوں نے بڑی نیکیاں کمائیں اور سب کے دل جیتے اور ان سب کاموں میں اُن کے شوہر، عبدالغفار کٹیا کا بھی بھرپور تعاون اور ساتھ شامل رہا۔ انہوں نے ہم سب بہن، بھائیوں کو ہمیشہ جوڑے رکھا۔ ماں بن کر قدم قدم پر رہنمائی کی،مگر پھر ایک دن اللہ پاک نے اچانک انہیں اپنی رحمت کےسائے میں لے لیا۔
اسی طرح میری بھابی، کلثوم نسیم اوسا والا بھی اُن ہی جیسی خوبیوں کی حامل تھیں، جب تک وہ ہمارے ساتھ تھیں، ہمیں کسی بات کی کوئی فکرہی نہیں تھی، حتیٰ کہ ان کی وفات کے بعد یہ احساس ہوا کہ وہ ہمارے لیے کس قدر اہم تھیں۔ شادی کے بعداپنے گھر سے رخصت ہوکر جب ہمارے گھر آئیں، تو بہت کم عُمر تھیں۔
مَیں نے جب ہوش سنبھالا تو بھابی کو ایک مکمل گھریلو خاتون پایا، جواپنے شوہر اور بچّوں کی ذمّے داریاں بہت اچھی طرح نبھاتیں۔ قدم قدم پر ہم سب کے ساتھ کھڑی رہتیں۔ ہمارے گھر کی ہر ذمّے داری میں ہمارا ساتھ نبھایا اور اپنے بچّوں کی بھی اسلامی اقدار اور دنیاوی علوم کے اعتبار سے بہترین پرورش کی۔
ہم نے اُنھیں ہمیشہ صابر و شاکر پایا۔ خصوصاً جب اپنی فیملی لائف شروع کی، تو سمجھ آیا کہ رشتے نبھانا اوراُنھیں ساتھ لے کر چلنا اتنا آسان نہیں ہوتا،یہ تو بس کچھ خاص لوگوں پراللہ کا خاص کرم ہوتاہے، جو بھابی اور باجی جیسے لوگوں پر رہا۔
بلاشبہ، ہمارے خاندان کی یہ دونوں ہستیاں خلوص و محبّت کا پیکر اور باعثِ فخرو انبساط تھیں۔ باجی اور بھابی ہماری دعاؤں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اللہ ان دونوں کی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے،آمین، ثم آمین۔ (سلمہ عابد، گلشن ِاقبال، کراچی)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭گھروندا کیسے ٹوٹا، شجرِ نازک (صبا احمد)٭حج کی سعادت (راشدہ فصیح، فیڈرل بی ایریا، کراچی)٭موت کا دن (خواجہ محمد ارشدہجیرہ، پونچھ، آزاد کشمیر)٭ قدرت کا انتقام (ڈاکٹر افشاں طاہر، گلشنِ اقبال، کراچی)٭ ایک ورکنگ وومن کی کہانی (سعید اقبال، کراچی)٭ سرخالد زندہ ہیں (لجپت رائے متلانی)٭انوکھی واردات (شکیلہ ملک، اسلام آباد)٭اور مَیں نےٹکڑے ٹکڑے کردیئے (جمیل احمد اعوان ، ملتان روڈ، لاہور)٭بادشاہ سلامت سے ملاقات (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، باغ بان پورہ، لاہور)۔
برائے صفحہ’’ متفرق‘‘
٭مَیں جنگ کیوں پڑھتا ہوں (پروفیسر ڈاکٹر سیّد وسیم الدین، کراچی)۔٭ قائدِ اعظم ریذیڈینسی، زیارت+میرا شہر، سوہدرہ، ایک تاریخی سرزمین (حکیم راحت نسیم سوہدروی)۔٭یومِ شہادت سیدنا عثمان غنیؓ (مولانا محمد عمر قاسمی)۔
برائے صفحہ’’ اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘
٭جب زندگی کی بازی اُلٹ گئی (آسیہ پَری وش، حیدر آباد) ٭پیاری بچّی صفیہ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)٭نصیر احمد شہید (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)۔