• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’صدر اے، جامع اے، بولٹن اے، ٹاور اے، ٹاور اے…‘‘ ایک تو بس کا ہارن، اوپر سے کنڈکٹر کی تیز آواز میں مسلسل تکرار…اُس نے بس سے اُترتے ہوئے چادر کے پلو سے چہرہ پونچھا۔ اُس کے اُترتے ہی عورتوں کا ایک غول بس میں سوار ہوا تھا اور اسٹاپ سے رش ختم ہو گیا تھا۔ اُسے سڑک کی دوسری طرف جا کر اب دوسری بس لینی تھی۔ سڑک کراس کرنے والے پُل کی سیڑھیاں چڑھتے، وہ نیچے گزرتی ہوئی ٹریفک دیکھ کرمُسکرا دی۔ 

’’واہ سوہنیا ربّا!تیری قدرت، کسی کو اتنی لمبی لمبی گاڑیاں دے دیتا ہے اور کسی کو کہتا ہے، پُل کراس کر اور اپنی بس پکڑ۔‘‘ پُل پر سناٹا چھایا ہوا تھا اور ہوا بہت پیاری تھی۔ آج وہ جلدی گھر سے نکلی تھی ، تو ابھی وقت بھی بہت تھا۔ سو، مُوڈ خوش گوار ہو گیا۔ خنک ہوا کا لُطف اُٹھاتی، اپنے رب سے باتیں کرتی کرتی وہ نیچے اُترنے والی سیڑھیوں کی جانب بڑھتی رہی۔ پُل پرحسبِ معمول ایک بھکارن اپنے دو بچّے لیے بیٹھی تھی۔ 

بچّے نے اُس کا دامن پکڑ کر خیرات مانگی۔ ’’اوئے چھڈ دے، اے کُو نہ منگ، اے کُج نہیں دیندی‘‘(اوئے چھوڑدو، اِس سے نہ مانگو، یہ کچھ نہیں دیتی) بچّے کی ماں نے اُسے روکا، تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ اُس نے پرس سے پورا سو کا نوٹ نکالا اور بچّے کی پھیلی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ 

بچّہ خوشی سے جُھوم کرماں کی طرف بڑھا اور ماں کا منہ حیرت سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔ نوٹ تھما کر وہ بہت سُکون و اطمینان سے سیڑھیاں اُترنے لگی۔ پشت سے بھکارن ماں کی پُر سوزو پُراثر دُعائیں، اُس کی رُوح تک سیراب کرتی چلی گئیں۔

آج شاید صدقہ دے کر دن کا آغاز کیا تھا کہ دن بہت ہی اچھا گزر رہا تھا۔ پورے دن کے معمولات ٹھیک رہے۔ آفس ورک جاری تھا، کی بورڈ پر چلتی اُس کی انگلیاں ابھی تھکنے بھی نہ پائی تھیں کہ اُس کے کانوں میں ایک شناسا آواز گونجی۔ ’’ہیلو! ایوری وَن…‘‘ساتھ ہی پورے آفس میں خوشبو کے جھونکے پھیل گئے۔ ’’اوہ ماہی تم، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!!‘‘ اُس کے پاس آکر شرارت سے سلام کرنے والی وہ شوخ و چنچل حسینہ یقیناً مہک ہی تھی۔ ’’وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ومغفرۃ جنت المقام و دوزخ الحرام۔‘‘

اُس نے بھی بڑی خوش مزاجی کے ساتھ اپنی نشست سے اُٹھ کراُسے گلے لگایا۔ ’’آج یہ چاند کہاں سے نکلا؟‘‘ ماہین نے مہک کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’بس یار!آج کل کینیڈا سے آئی ہوئی ہوں، شرجیل کے لیے لڑکیاں ڈھونڈنے، تو بابا نے بتایا کہ انہوں نے میری جگری سہیلی کو بطور انچارج کمپیوٹرسیکشن اپوئنٹ کیا ہوا ہے۔ سرپرائز دینا ہے، تو دے دو۔ 

سو، مَیں نے دے دیا۔‘‘ ’’جی جناب! انکل آج کل میرے باس ہوا کرتے ہیں۔‘‘ ماہین نے فرضی کالر کھڑے کیے، تو مہک کھلکھلا کر ہنس دی۔ ’’جی جناب! اور مزید کیا کیا ہو سکتے ہیں، بس دیکھتی جاؤ۔‘‘ ’’کیا مطلب… ؟‘‘ ’’مطلب وطلب چھوڑو، آف ٹائم ہوچکا ہے۔ گھر، وَر جانے کا ارادہ نہیں ہے تمہارا؟‘‘

’’بالکل ہے، بس یہ تھوڑا سا کام باقی رہ گیا ہے، وائنڈ اَپ کرلوں۔‘‘ ’’جی نہیں، آف ٹائم کا مطلب، آف ٹائم۔ خُود بھی اضافی وقت دیتی ہو، بغیراضافی تن خواہ کے، اور پھر دوسرے ملازمین بھی بے چارے تمہاری مروت میں بیٹھے رہتے ہیں۔ چلو اُٹھو، مَیں تمہیں گھر ڈراپ کردوں گی۔‘‘ مہک نے اپنی ازلی ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اُس کی چیزیں سمیٹیں اور اُسے لےکر باہر نکل آئی۔

’’ارے رُکو، سُنو…‘‘ کہتے کہتے بھی اُسے مہک کی BRV میں بیٹھنا پڑ گیا۔ ٹھنڈے آفس سے نکل کر ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھنا بہت اچھا لگا۔ فٹ پاتھ پر بس کے انتظار والی قطار کے بجائے آج وہ لمبی ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر ہنس دی۔ ’’ایک دن کی حکومت۔‘‘ اُسے پڑوسی ملک کی عرصہ پہلے دیکھی فلم یاد آ گئی۔ جس میں کوئی ایک دو دن کے لیے سی۔ ایم بنتا ہے۔ 

اِسی طرح اُسے بھی ایک دن کے لیے بسوں کے دھکے کھانے کے بجائے اے سی کی ٹھنڈک نصیب ہوئی تھی، صرف ایک دن کے لیے۔ ’’اللہ تیرا شکر ہے، ایک دن ہی سہی، مِلا تو، کتنوں کو تو یہ بھی میسّر نہیں۔‘‘ اُس نے طمانیت سے سوچا۔ اُدھر مہک اُس سے نہ جانے کون کون سے قصّے شئیر کررہی تھی۔ وہ تو بس اُس ایک دن کو انجوائے کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ 

’’یہ کیا، مَیں بول بول کر تھک گئی اور تم ہو کہ منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی ہو۔‘‘مہک نے اپنے پسندیدہ چائنیز ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روک کر اُسے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ ’’ارے گھر…‘‘ ماہین کو اس طرح ہوٹلنگ کی عادت کہاں تھی، وہ ہچکچائی۔ ’’مَیں گھر بتا کر بھی نہیں آئی تھی۔‘‘ ’’چلو اُترو، پہلے کچھ کھاتے پیتے ہیں، پھر تمہارے گھر چلیں گے۔ 

ویسے بھی بس پر جاتے ہوئے تمہیں اِس سے زیادہ دیر ہوتی ہوگی، تب تک ہم پہنچ ہی جائیں گے، پریشان نہ ہو، زیادہ مسئلہ ہے تو گھر فون کر لو۔‘‘ مہک کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا۔ ’’نہیں، مسئلہ تو نہیں ہے، لیکن اچھا نہیں لگتا۔ تم چلو ناں میرے گھر، تمہیں وہاں کھانا کھلاؤں گی، امّی کے ہاتھ کا بنا ہوا۔‘‘ ’’آنٹی کے ہاتھ کا کھانا اب کھاتے ہی رہنا ہے، چلو ابھی تو یونی ورسٹی کیفے کے سینگا پورین رائس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔‘‘ 

مہک کے انداز، باتوں میں کافی شرارت سی تھی۔ وہ الجھ سی رہی تھی، کچھ سمجھ نہ پا رہی تھی۔ اور پھر… کھانے کے بعد وہ اُسے، اُس کے گھر ڈراپ کر کے اندر جانے کے بجائے کل دوبارہ آنے کے وعدے کے ساتھ واپس چلی گئی۔

اصل میں اُسے ماہین کے گھر کا ایڈریس معلوم نہ تھا۔ ماہین اس کے یونی ورسٹی کے زمانے کی سہیلی تھی اور آج کل مہک کے بابا کی فرم کے کمپیوٹر سیکشن کی انچارج تھی۔ مہک جو شادی ہو کر کینیڈا سدھار چُکی تھی، اب اپنی امّی کے پیرالائز ہونے کے بعد، اپنے اکلوتے بھائی شرجیل کے لیے دلہن کی تلاش میں تھی۔ 

لیکن عام بہنوں کی طرح کوئی ماورائی مخلوق تلاش کرنے کے بجائے حقیقت کی دنیا میں رہتے ہوئے ایک سلجھی ہوئی باکردار لڑکی کی تلاش میں تھی۔ جب بابا نے اُسے بتایا کہ اُنہوں نے اُس کی دیرینہ سہیلی ماہین کو فرم میں اپوائنٹ کر لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ اب بھی پہلے کی طرح پنکچوئیل اور ویسی ہی امانت و دیانت کی پیکر ہے، جیسے کبھی پہلے ہوا کرتی تھی، تو اُسے شرجیل کےلیےاُس سے بہتر کوئی نہ لگا۔

اور آج… ماہین ایک کنال پر بنے اُس گھر کے انتہائی خوب صورت بیڈ روم میں دلہن بن بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ اُس دن صبح اُس نے پہلی بار ایک لیکچر میں شُکر ادا کرنے کی فضیلت سے متعلق سُنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق شُکر ادا کرنے سے نعمتوں کو دوام ملتا ہے۔ اور اُسی دن اُس نے پہلی مرتبہ بہت صدقِ دل سے صدقہ دیا تھا، یہ سوچ کر کہ بلائیں بھی ٹلیں گی اور رب العالمین دُگنا بھی کردے گا۔ 

’’دُگنا یا کئی ہزار گُنا…‘‘بے اختیار ہی اُس کی آنکھیں چھلک اُٹھیں۔ وہ تو اعلان کرچُکا۔ اُس نے تو اپنی آخری کتاب میں تسخیرِ کائنات کے سارے گُر رقم کرکے بھیج دئیے۔ اب جو ان پر عمل کر لے تو ’’اسم ِاعظم‘‘ کام یابی کی کنجی سے ہر دروزاہ کُھلتا چلا جائے اور جو عمل نہ کرے، تو پھر اُس کی ساری زندگی ہی اکارت۔