شاعر: اسلم شاہد
صفحات: 224، قیمت: 1500روپے
ناشر: عکس ۔
’’اسلم شاہد طبعاً نہایت سنجیدہ، متین اور کم آمیز آدمی ہیں، جب کہ کم کم شعر کہتے ہیں۔ زیرِ نظر مجموعۂ کلام اُن کی برس ہا برس کی فکری ریاضت کا ثمر ہے، جس میں اُنہوں نے ذات، سماج اور اپنے عہد کےمتنوّع پہلوؤں کےگہرے مطالعے و مشاہدے کے بعد اخذ کردہ نتائج عُمدگی کے ساتھ شعری قالب میں ڈھالے ہیں۔‘‘ ممتاز شاعر، دانش ور اور کالم نگار، عطاالحق قاسمی کی اِس رائے سے بھی اسلم شاہد کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ فلیپ پر منّو بھائی کی رائے بھی ایک سند کا درجہ رکھتی ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں 84غزلیں اور 22نظمیں شامل ہیں۔ اسلم شاہد کی شاعری میں روایت کا احترام بھی ہے اور جدید طرزِ احساس بھی، اُن کی غزل میں زندگی رواں دواں دِکھائی دیتی ہے۔ نئی ردیفوں نے بھی کتاب میں حُسن پیدا کیا ہے۔ ہر غزل میں کوئی نہ کوئی چونکا دینے والا شعر مل جائے گا۔
موصوف زبان و بیان کے معاملے میں بھی محتاط دِکھائی دیتے ہیں۔ ان کی نظمیں سماجی اور معاشرتی زندگی کا آئینہ ہیں۔ غزل کی فضا الگ ہوتی ہے اور نظم کی فضا الگ۔ اگر پہلے مرحلے میں غزلیں ہوتیں اور آخری حصّے میں نظمیں رکھی جاتیں، تو زیادہ بہتر تھا۔بہرحال، یہ پُختہ کار شاعر کا خُوب صُورت مجموعہ ہے۔