اٹلانٹا، امریکا کی ریاست، جارجیا کا دارالحکومت اور بلحاظِ آبادی سب سے بڑا شہر ہے۔ شہر کی کُل حدود میں واقع آبادی 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ سیاہ فاموں کے حقوق کی تحریک کے عظیم رہنما، مارٹن لوتھرکنگ جونیئر یہیں پیدا ہوئے تھے اور اُن کے مقامِ پیدائش کو قومی تاریخی مقام کی حیثیت حاصل ہے۔
نیز، اِسی شہر میں سی این این اور کوکا کولا کے مرکزی دفاتر بھی ہیں۔ رواں برس، ستمبر کے مہینے میں ’’آن لائن نیوز ایسوسی ایشن کی 2024ء کانگریس‘‘ ( 25ویں سال گرہ) امریکا کے اِسی شہر میں منعقد ہوئی، جس میں دنیا بھر سے سیکڑوں صحافیوں نے شرکت کی اور سفرنامہ نگار نے بھی بحثیت ممبر (کہ وہ بطور سینئرمیڈیا پرسن، فلم میکر شہرت رکھنے کے ساتھ، ایک سے زائدآن لائن اخبارات و جرائد، ویب سائٹس کے مدیر ہیں، تو قومی وبین الاقوامی میڈیا کنسلٹنٹسی کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں) نہ صرف اِس چار روزہ کانفرنس میں شرکت کی، بلکہ نیویارک سے نیو جرسی تک کا بھی وزٹ کیا۔
ذیل میں قارئین کی دل چسپی اورمعلومات میں اضافے کے پیشِ نظر، پاکستان سے شروع ہونے والے سفر، کانفرنس کےاحوال کے ساتھ دورے کی چیدہ چیدہ تفصیلات، دو اقساط کی صُورت شایع کی جارہی ہیں۔
(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)
آج سے تقریباً17 سال پہلے جب امریکا جانے کا اتفاق ہوا تھا، تو اُس وقت امریکا کے لیے، سوائے پی آئی اے کے کوئی براہِ راست فلائیٹ نہیں ہوتی تھی، جب کہ قومی ائیرلائن ہمیشہ بَھری ہوئی ہی ملتی۔ لیکن اب نہ صرف قطر ائیرویز،بلکہ ایمیریٹس اور ترکش ایئرلائنز بھی ڈائریکٹ فلائیٹ کی سہولت دے رہی ہیں۔
ویسے ہیتھرو اُترنے اور پھر امریکا کے لیے جہاز پر سوار ہونےکا اپنا ہی مزہ تھا۔ بہرحال، اِس بار ہمیں17 ستمبر کوبراستہ قطر، اٹلانٹا کا سفر درپیش تھا۔ اور لاہور سے قطر تقریباً 3 گھنٹے اور پھر دوحا، قطر سے اٹلانٹا نان اسٹاپ15 گھنٹے کا سفر شدید تھکادینے والا تھا۔
لاہور ایئرپورٹ ہی سے لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں کہ ایمیریٹس اور سعودی ایئرلائن کی عُمرہ فلائیٹس کا بھی وہی وقت تھا۔ رش کی زیادتی کے سبب سامان کی کلیئرینس اوربورڈنگ پاس تک کا سفرتو جیسے تیسے طے ہوا، لیکن جوں ہی گھر کال کرنے کے لیے جیب میں فون چیک کیا، تو فون ندارد۔
فوری یاد آیا، وہ تو سیکوریٹی چیک پر ٹِرے میں رکھا تھا اور نکالنا ہی بھول گیا۔ فوراً پریشانی کے عالم میں مطلوبہ کائونٹر کی طرف دوڑ لگائی۔ وہاں پہنچا، تواے ایس ایف کا ایک ہنس مُکھ، کڑیل جوان پریشانی بھانپتے ہی بولا کہ ’’آپ اپنا موبائل فون تو نہیں ڈھونڈ رہے؟‘‘
اس کے بعد اُس نے میرے شناختی کارڈ کا اسکرین شاٹ لیا اور موبائل میرے حوالےکردیا، اُس کی اِس چُستی و مہربانی پر دل شادمان ہوگیا۔ ویٹنگ ایریا میں عُمرہ زائرین ہی اکثریت میں تھے۔ میرے ساتھ ایک بزنس مین بھی عُمرے کے لیے جا رہے تھے۔ سامنے کرسیوں پر شکر گڑھ کے نزدیکی گائوں کےایک زمین دار اپنی بیوی، بیٹے، بہو اور پوتے پوتیوں کےساتھ براجمان تھے۔ وہ پہلی دفعہ عُمرے کےلیےجارہے تھے، مَیں اُن ہی سے محوِگفتگو تھا کہ قطر فلائیٹ کی انائونسمینٹ ہوگئی۔
جہاز میں داخل ہوا، تو پتا چلا کہ میری سِیٹ جہاز کی سیکنڈ لاسٹ لائن میں ہے۔ کیبن میں سامان رکھنے کے بعد مُڑا، تو پتاچلا کہ ویسے تو میری کھڑکی والی سِیٹ تھی، لیکن اب اُس پراوراُس کے ساتھ والی سِیٹ پرایک ماں، بیٹا براجمان ہوچُکے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا، ISLE سِیٹ ہی پرقناعت کی۔ جہاز مکمل طور پربَھراہوا تھا، صرف ایئرہوسٹس والی سیٹ ہی خالی دکھائی دی۔ فلائیٹ میں خاصی turbulence تھی، لہذا چائے بھی آرڈر نہ کی جا سکی۔
میری تقریباً20سال بعد قطر ایئرپورٹ آمد ہوئی تھی۔ بڑی زبردست تبدیلیاں دکھائی دیں۔ بالکل دبئی ایئرپورٹ جیسا ہی لگا، لیکن رونق دبئی والی نہیں تھی۔ اگلی فلائیٹ قطر سے اٹلانٹا کی تھی، جس کی طوالت 15 گھنٹے سے زیادہ کی تھی، اور مجھے درخواست کے بعد سیٹ ایگزٹ دروازے کے پاس ملی، جو کسی نعمت سے کم نہیں تھی کہ جتنی مرضی ٹانگیں پھیلا لوں، لیکن جب جب دروازے کُھلتے، ساتھ ہی آنکھ بھی کُھل جاتی۔
میرے برابر بیٹھے موصوف نے15گھنٹے کی فلائیٹ میں15 ڈرنکس تو لیے اور شاید30 بار واش روم گئے۔ 10بار واش روم کا دروازہ لاک کرنا بھول گئے اور پانچ دفعہ میرے پائوں سےٹکرائے۔ نیز، تقریباً تمام فضائی عملے سے پوچھا کہ کس کا تعلق کس مُلک سے ہے۔
اُنھوں نےکافی رونق لگائے رکھی، اِس کے باوجود مَیںنےایک مووی دیکھی، تو درجن بھر گانے بھی سُن لیے۔ قطرایئرویز کےعملے کو داد دینی پڑتی ہے کہ وہ15گھنٹے ایسے بھانت بھانت کے نمونوں کو برداشت کرتے ہیں۔ ایک لمبی نیند لی، تو پتا چلا کہ اگلے30منٹ میں ہم لینڈ کر رہے ہیں۔ جیسے ہی جہاز لینڈ کیا، پائلٹ نے بڑی شائستگی سے کہا کہ ’’جب تک جہاز رُک نہیں جاتا، انجن بند نہیں ہوجاتے، کوئی اپنی سیٹ سے نہ اُٹھے۔‘‘
لیکن جیسے ہی جہاز کی اسپیڈ کم ہوئی، انجن ابھی چل ہی رہے تھے کہ ایسا لگا، جیسے کسی پاکستانی شادی میں ’’روٹی کُھل گئی جے‘‘ کی آواز لگی ہو۔ یک دَم ایک طوفانِ بدتمیزی شروع ہوگیا، لوگوں نے دھڑا دھڑ کیبنز سے سامان نکالنا شروع کردیا اور پھر بحث مباحثہ الگ، کسی کا بیگ آگے، تو کسی کا پیچھے، کسی کو کندھا لگا، توکسی کودھکّا۔ جب تک بزنس کلاس والےجہاز سے نکل نہیں جاتے، اکانومی والے مستقلاً فرسٹریشن کےعالم میں کھڑے رہتے ہیں، نہ جانے کیوں؟ بہرکیف، اٹلانٹا ایئرپورٹ پر استقبال اچھا ہوا۔
ایئرپورٹ سے باہرنکلا، تو وائی فائی بند ہوچُکا تھا اور اب مشکل یہ تھی کہ پہلے سے بُک ٹیکسی ڈرائیور سے رابطہ کیسے ہو؟ دو آپشن تھےیا تو سارا سامان لے کر ایئرپورٹ کے اندر جائوں یا پھر کسی فیلوپیسنجر سے واٹس ایپ کال کی درخواست کرلوں۔ ایک ماسک پہنے ایشین سےدرخواست کی، تو اُس نےکال ملائی۔ دوسری طرف ڈرائیوراحمد تھا۔ کہنے لگا۔ ’’آپ کی تصویر دیکھ چُکا ہوں، پانچ منٹ میں پہنچتا ہوں۔‘‘
تھوڑی ہی دیر میں ایک 35 سالہ شخص ایک چھوٹی SUV میں برآمد ہوا اور کہا کہ ’’عمران بھائی! پلیز بیٹھیں۔‘‘ ہم پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے اگلی ہی پر براجمان ہوگئے، کیوں کہ بھائی نے استقبال ہی ایسا کیا تھا۔ اُس نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ افغانستان سے ہے اور پاکستان سے ویزا لگوا کر امریکا آیا ہے۔ ہوٹل پہنچا، تواِس قدر تھکا دینے والے سفر کے بعد ایک اورامتحان شروع ہوگیا۔ کراؤن پلازا ہوٹل کی فرنٹ ڈیسک پر موجود شخص کہنے لگا کہ ’’کمرے کی ایڈوانس بکنگ تو ہے، لیکن refundable تین سو ڈالرز بذریعہ کریڈٹ کارڈ جمع کروائیں گے، تو ہی آپ کمرے میں جا سکتے ہیں۔‘‘
اپنےتمام کارڈز چیک کرلیے، کسی سے ٹرانزیکشن نہ ہو سکی۔ مَیں نے کہا۔ ’’مَیں تقریباً20 گھنٹے سے سفر میں ہوں اور نیند کے شدید غلبے میں بھی، رحم کی اپیل ہے، خدارا! کیش لےلیں۔‘‘ لیکن وہ نہ مانا۔ کہا، ’’کسی سینئر مینیجر سے ملوا دیں۔‘‘ تو ایک کمرے میں موجود خاتون سُپروائزر کے پاس لے گیا،جن کا قد تقریباً ساڑھے چھے فٹ اوروزن دو سو کلو گرام ہوگا۔ چُھوٹتے ہی غصّےسے بولیں۔ ’’مَیں ہوٹل پالیسی violate نہیں کرسکتی۔‘‘
پاکستان میں موجود ٹریول ایجنٹ کو فون کیا، تو وہ بھی رات کے پچھلے پہرخوابِ خرگوش کے مزےلے رہا تھا۔ تھک ہار کر سامان سمیت لابی میں بیٹھ گیا، اور پھر پاکستانی ذہن کام کرنے لگا کہ ’’کوئی جگاڑ لگائی جائے۔‘‘ فرنٹ ڈیسک والا نوجوان میکسیکن تھا۔ اُسے لابی میں بُلایا اور کہا کہ ’’ایک رات کے ایڈوانس 75 ڈالرز چارج کرو اور یہ لو80 ڈالرز۔‘‘ وہ آفر ٹھکرا نہ سکا اور پھرنیند نے قریباً دس گھنٹےکا پھیرا لگایا۔ امریکا کے صبح چار بجے آنکھ کُھلی، تو پھر تین گھنٹے بعد کا الارم لگا کر سوگیا-
کانفرنس کےپہلے دن، حیات ریجینسی ہوٹل کے تقریباً چار فلورز ’’آن لائن نیوز‘‘ پر سیشنز کے لیے مقررتھے اور مَیں اپنے ایکریڈیشن کارڈ، میڈیا کِٹ کے ساتھ، میڈیا انفارمیشن کے سمندر میں غوطے لگانے کو تیار تھا۔ پہلا سیشن اے آئی (آرٹی فیشل انٹیل جینس) کے ذریعے اپنی رپورٹنگ کو بہتر و موثر بنانے سے متعلق تھا، جب کہ سب سے بڑا سیشن تقریباً چاربجے، امریکی الیکشن، میڈیا کی ذمّےداریاں اور الیکشن مسائل کےموضوع پرمنعقد ہوا، جس میں تقریباً 2 ہزار افراد نے شرکت کی۔ بہت کُھل کر بات چیت ہوئی اور آخر میں دس سوالات کےلیے دس لوگوں کو چُنا گیا، جن میں ناچیز کا نام بھی آگیا۔ میرا ساتواں نمبرتھا۔
مَیں نے پوچھا ’’پاکستان میں امریکی الیکشن پراگرسی این این کی ٹرانس میشن دیکھیں، تو ڈیموکریٹس جیت رہے ہوتے ہیں، اور اگر Fox دیکھیں تو ری پبلکن، تو کون سا چینل un biased رپورٹنگ کرتا ہے؟ اور کیا امریکی الیکشن میں بھی دوسرے مُلکوں کی طرح اسٹیبلشمینٹ، اُمیدواروں کی ہار، جیت میں اپنا رول پلےکرتی ہے؟‘‘ سوال سےپہلے تعارف بھی ضروری تھا۔ جب مَیں نے بطور پاکستانی خُود کو متعارف کروایا، تو پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور جب میرا سوال مکمل ہوا، تو ایک بار پھر ہال تالیوں سے گونجنے لگا۔
پینل میں موجود این پی آر اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹرز نے بھرپور جواب دیا،لیکن اسٹیبلشمینٹ والا سوال گول کر دیا، شاید وہ سمجھے کہ مَیں میڈیا اسٹیبلشمینٹ کی بات کررہا ہوں۔ سوال و جواب کے بعد ایک دوسرے ہال میں موسیقی کا اہتمام تھا۔ اٹلانٹا کے لوکل ڈھول بینڈ نےماحول کافی گرمایا۔
مَیں سیشن کے بعد جیسے ہی ہال سے نکلا، تو پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک تقریباً ساٹھ سالہ اسمارٹ سا شخص میرے قریب آیا اور تعارف کروایا کہ وہ اے پی کا سینئر جرنلسٹ ہے اور پاکستان میں اُس کی ویب سائیٹ ہے، جس سے الیکشن کی تفصیلات بھی لی جا سکتی ہیں۔
پھر بولا۔ ’’یہ اسٹیبلشمینٹ والا سوال ذرا لوڈڈ تھا، زیادہ تر لوگ ایسےسوال avoid کرتےہیں، آئندہ احتیاط کرنا۔‘‘ اور مَیں کنٹری بینڈ کی موسیقی، بوفے ڈنر کے دوران یہی سوچ رہا تھا کہ اسٹیبلشمینٹ، اسٹیبلشمینٹ ہی ہوتی ہے، چاہے وہ کسی جنوب مشرقی ایشیائی مُلک کی ہو یا امریکا کی۔
پہلےدن حیات ریجینسی، اٹلانٹا کے تینوں فلورز پر بھرپور رونق رہی۔ میرا ہوٹل کانفرنس ہوٹل سے0.6 میل کے فاصلے پر تھا، تقریباً 6 بجے کانفرنس سےتھک ہارکے ہوٹل واپسی کے لیے ٹیکسی پر جانا چاہا، پھر سوچا، آج پیدل ہی چلتے ہیں، چوں کہ وائی فائی ہوٹل کی حدود کے باہر کام نہیں کرتا، لہذابس اندازے ہی سے ہوٹل کی طرف چل پڑا۔
صُبح آتے ہوئے جو لیفٹ ٹرن تھے، وہ واپسی پررائٹ ٹرن ہونے چاہیے تھے، لیکن وہ لیفٹ ہی رہے اور بندۂ ناچیز ہوٹل کی طرف جانے کی بجائے ہوٹل سے دُور ڈاؤن ٹاؤن کے اُس علاقے کی طرف نکل پڑا، جو ہوم لیس کالوں کا گڑھ ہے، حالاں کہ مجھے ٹیکسی ڈرائیور نے سختی سے منع کیا تھا کہ بُھول کر بھی اُس علاقے کی طرف نہیں جانا۔ رات کا پہر دن کو لپیٹ رہا تھا اور مَیں سنسان سڑک پر چلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ’’کام خراب ہوگیا ہے۔‘‘ آگے ایک چرچ کے باہر کوئی پندرہ بیس ہوم لیس فٹ پاتھ پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔ مَیں اُن کی طرف بڑھا ہی تھا کہ دو افراد اپنے ناتواں جسم کےساتھ کھڑے ہوئےاور ابھی میری طرف لپکنا ہی چاہ رہے تھے کہ مَیں فوراً بھاگ کر سڑک کی دوسری طرف چلا گیا۔
اشارے پر گاڑیاں رُکی ہوئی تھیں، تو مجھے موقع مل گیا اور مَیں بھاگتا ہوا اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ قریب ہی ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ نظر آیا،توسوچا، وائی فائی آن کرکےگوگل سے ہوٹل کاراستہ تلاش کرتاہوں۔ لیکن یہاں چھے بجے کےبعد ریسٹورینٹس بند ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں جب سے اوبرایپ ڈیلیٹ کی تھی، دوبارہ اِن سٹال ہی نہ کی، اور دوسری غلطی یہ ہوئی کہ فون رومنگ پر نہیں کروایا۔ اب تھکاوٹ سے چُور، پسینے میں شرابور اور پشیمانی ایسی کہ اللہ کی پناہ۔ کچھ ہی فاصلے پرچمکتا دمکتا جارجیا اسٹیٹ یونی ورسٹی کا کیمپس نظر آیا، جہاں اسٹوڈنٹس کی چہل پہل تھی، لوگ آ جا رہے تھے، تو وہیں ایک طرف فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔
ایک تقریباً 60 سالہ شخص، غالباً جِم کے لیے نکلا تھا کہ اُس سے مودبانہ درخواست کی کہ ’’ہوٹل پہنچنا ہے، پیسے بھی ہیں (امریکا میں کسی اجنبی کو یہ بتانا بہت ضروری ہوتا ہے، ورنہ وہ بھکاری سمجھ کردھتکاردیتے ہیں) لیکن راستہ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘وہ وینزویلا کا باسی تھا۔
کہنے لگا، ایک سال پہلے مَیں بھی اس اذیت سے گزرچُکاہوں، پھراُس نے میرے ہوٹل فون کیااورکہا کہ آپ کا مہمان رستہ بھول چُکا ہے۔ جارجیا یونی ورسٹی کیمپس کے فلاں گیٹ پر موجود ہے، آکرلےجائیں۔‘‘ جواب ملا۔ ’’ہمارے پاس ایسی کوئی سروس نہیں۔‘‘ اور فون بند۔ گوگل سے چیک کیا، تو کوئی ڈھائی میل کا سفرتھا، جو پیدل تو قطعاً طے نہیں ہو سکتا تھا۔ اس ساری کشمکش میں وینزویلا کے بھائی کو بھی پسینہ آگیا۔
مَیں نے بیگ میں پڑی پانی کی بوتل آفر کی، فوراً آدھی بوتل پینے کے بعد مجھے واپس کی اور پھر حل یہ نکلا کہ خوش قسمتی سے میرے پاس افغان ٹیکسی ڈرائیور کا نمبر محفوظ تھا، سو اُسے کال ملائی گئی۔ پہلے اُس نے انکارکیا اورپھر70ڈالرز پر مان گیا۔ اُس نے30 منٹ تک پہنچنے کا کہا، تو وینزولن بھائی نے کہا۔ ’’اب مَیں جم جا رہا ہوں،45 منٹ تک یہیں سے گزروں گا، اللہ کرے، تب تک ٹیکسی والا آ جائے اور اگر وہ مجھ سے پہلے آگیا، تو پانی کی باقی آدھی بوتل یہیں فٹ پاتھ پررکھ جانا۔‘‘
افغان بھائی نے30 منٹ دُور کا صرف70 ڈالرز بنانے کے لیے کہاتھا، وگرنہ وہ دس منٹ ہی میں آگیا اور ہم اگلے دس منٹ میں ہوٹل پہ تھے۔ مَیں نے اطمینان کا سانس لیا، اورخُود سے پکا عہد کیا کہ اب ایسا کوئی ایڈونچر نہیں کرنا۔ پیدل چلنے کے لیے ہوٹل کے چار فلورز ہی کافی ہیں۔
پہلے دن، جہاں امریکا کی50 ریاستوں سے آئے جرنلسٹس سےعلیک سلیک ہوئی، وہیں ہرات، افغانستان کے فیصل کریمی بھی ملے، جیو کی سابقہ نیوزاینکر ناجیہ اشعر سےتعارف ہوا، جو فیملی کےساتھ ہیوسٹن شفٹ ہوچُکی ہیں۔ آئی سی ایف جے، انڈیا کے سربراہ، نصر الہادی سے بھی پُرجوش تعارف ہوا۔ نیپال کے کشور سے،جو نیویارک ہی میں سیٹلڈہیں، اچھی ملاقات رہی۔ اٹلانٹا میں چوں کہ ریسٹورینٹس وغیرہ چھے بجے بند ہوجاتے ہیں، تو شام اُترتے ہی ہر طرف ایک ہُو کا عالم ہوتا ہے۔ کانفرنس کے دوسرےدن زیادہ ترسیشنز اے آئی اور رپورٹنگ ہی سےمتعلقہ تھے۔
امریکی جرنلسٹس کسی بھی کانفرنس میں بھرپور تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ رائٹنگ پیڈ، لیپ ٹاپ ساتھ ہوتے ہیں اور سوال پوچھنے کی تڑپ ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ بعض سیشنز میں تو گروپ ڈسکشن سے زیادہ وقت سوال و جواب میں صرف ہوا، لیکن تحمّل و برداشت ابھی بھی اس خطّے کا خاصّہ ہے۔ پاکستانی میڈیا کانفرنسز میں ایسا ماحول نہیں ملتا۔ عموماً جرنلسٹ زیادہ تیاری کر کے نہیں آتے۔
سوال پوچھنے سے کترانا اوربوفے پر ٹوٹ پڑنا ہی اُن کا محبوب مشغلہ ہے۔ دوسرے دن کا ایک اہم سیشن ’’ڈیزاسٹر رپورٹنگ‘‘ کا بھی تھا کہ قدرتی و ناگہانی آفات کی صورتِ حال میں کیسے رپورٹنگ کی جائے۔ جب کہ سیشن کے آخر میں تین جدید واکی ٹاکیز بھی انعام میں نکلنےتھے، اور ہم لکی ٹھہرے کہ پچاس لوگوں کے درمیان سے ایک واکی ٹاکی لےاُڑے۔ قرعہ اندازی میں نام اناؤنس ہوا، تو یقین ہی نہیں آیا۔ میری میز پر بیٹھے پانچ جرنلسٹ خواتین و حضرات نے کھڑے ہو کر تالیاں اور ٹیبل ایسے بجائے، جیسے میں نے آسکرز جیت لیا ہو۔
پوری کانفرنس کے دوران میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ واش روم کا تھا۔ اس کے لیے منرل واٹر کی دو بوتلیں بیگ میں رکھنی پڑتی تھیں کہ دیارِ غیرجا کر مسلم شاور کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، خیر۔ کانفرنسز کے دوران کوریڈورز میں ایک سے دو گھنٹے کے واک وے سیشنز بھی بڑےمفید رہےکہ اِن میں مختلف میڈیا پرسنز سے نیٹ ورکنگ کرنی ہوتی ہے۔ برازیل، ایکواڈور اور ناروے کے صحافیوں کو بہت ذمّےدار اور محنتی پایا۔
فرینڈلی بھی رَج کے تھے۔ برازیلین کام کےبعد پارٹی کرنا، کام کا حصّہ ہی سمجھتے ہیں، بلکہ کام ختم کرنے سے پہلے ہی پلان کرلیتے ہیں کہ آج کھانا کیا ہے…!! دیارِغیر میں اگر آپ کا کوئی دوست وقت نکال کرآپ سے ملنے آئے، خصوصاً امریکا جیسے مُلک میں کہیں کھانے پرلےجائے، تو وہ حقیقی معنوں میں آپ کا دوست ہے۔
ہمارے جنگ گروپ کے ایک دوست کا لختِ جگر، انس اٹلانٹا میں بزنس کرتا ہے، بہترین انٹرپرینور، لاجواب نوجوان ہے۔ اُس کی کال آئی کہ ’’آج آپ نے ڈنر میرے ساتھ کرنا ہے۔‘‘ مَیں ویسے بھی اپنے ہوٹل کے کھانوں سے سخت اُکتایا ہوا تھا۔ شام آٹھ بجے کا وقت طے ہوا۔
انس نے مقررہ وقت پر ہوٹل سے پِک کیا اور تقریباً 45 منٹ کی ڈرائیو پر اٹلانٹا کے suburb میں ایک معروف Mediterranean ریسٹورنٹ لےگیا۔ انتہائی مزے دار قسم کا کھانا کھایا۔ نوجوان سے خُوب گپ شپ ہوئی اور پھراُسی نے واپس ہوٹل ڈراپ بھی کیا۔ انس کے لیے دل سے دُعا نکلی اوراُس کے جانےکےبعد ایک انتہائی خُوب صُورت، خوش گوار یاد کے ساتھ سونے کے لیے بستر پر دراز ہوگیا۔
کانفرنس کا تیسرا دن سب سے اہم تھا۔ اُس روز سب سے زیادہ سیشنز، ایوارڈز کی تقریب اور پھر گرانڈ لنچ کا پروگرام تھا۔ ہوٹل سے ٹیکسی لی، ڈرائیور کینیا کا تھا اور بڑا ہی بھرم باز۔ یوں بھاشن دےرہا تھا، جیسے اٹلانٹا میں ٹیکسی بزنس کا باراُسی کے نازک کاندھوں پر ہے۔ 12ڈالرز کرایہ بنا، مَیں نے پندرہ ڈالرز دیئے، تو یہ کہتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا کہ ’’چینج نہیں ہے۔‘‘ مجھے لگا تھا، شاید تھوڑا بدتمیز ہے، مگروہ بدتمیز ہی نہیں، بے ایمان بھی تھا۔
دو سیشنز اٹینڈ کیے۔ اُس کےبعدایوارڈزکی تقریب ایک بڑےہال میں تھی، ساتھ وہیں اسپیشل لنچ بھی تھا۔ مَیں صُبح سے انڈین، نیپالی اور افغانی دوستوں کے ساتھ تھا، مگر ہم جیسے ہی ہال میں داخل ہونے لگے، تو گیٹ پر موجود اسٹاف نےمجھے تو اندر جانے دیا، مگر باقی لوگوں سے کہا کہ ’’آپ نہیں جا سکتے۔ آپ کی رجسٹریشن نہیں ہے۔‘‘ ایک جھٹکا سا لگا کہ تمام ساتھی باہر اور مَیں اندر۔
کشور نے کہا۔ ’’عمران بھائی!آپ اٹینڈ کریں، ہم فوڈ کورٹ سے لنچ کرلیں گے،اُس کے بعد شہر کا دورہ اکٹھے کرتے ہیں۔‘‘مجھےہال میں جس میز پرجگہ ملی، وہاں ہوائی، ایریزونا کےصحافیوں کے ساتھ اے پی کی سینئرصحافی شیری بھی موجود تھیں۔
محترمہ نے مجھےدیکھتے ہی پوچھا۔ ’’آپ وہی ہیں ناں، جس نے پہلے دن امریکن اسٹیبلشمینٹ پر سوال کیا تھا؟‘‘مَیں نے کہا۔ ’’جی جی، وہی ہوں۔‘‘ تو کہنے لگیں کہ ’’لنچ اور ایوارڈ تقریب کے بعد آپ کو امریکن الیکشن سے متعلق کچھ باتیں بتاؤں گی۔‘‘ ایوارڈز کی تقریب شروع ہوئی، توشیری اور ایریزونا کے جرنلسٹ بھی ایوارڈز کی کسی نہ کسی کیٹیگری کےلیےنام زد تھے۔ ساتھ لنچ بھی شروع ہوگیا۔
سب سے پہلے پلیٹ بَھری سلاد آئی، جس میں ’’سبزہ‘‘ کچھ زیادہ ہی تھا، لیکن امریکن کلچر کے مطابق چوں کہ پلیٹ میں ایک تنکا بھی نہیں چھوڑنا ہوتا، تومجبوراً مجھے بھی اپنی پوری پلیٹ صاف کرنی پڑی۔ مین کورس میں زعفرانی چکن اور چاول تھے، ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر کھانا شروع کیا، لاجواب کھانا تھا۔
شیری اپنے ویگن فوڈ کاانتظار کر رہی تھیں، اور ہر پانچ منٹ بعد ویٹر معذرت کر رہا تھا کہ ’’بس، آرہا ہے۔‘‘ ہماری میز پر موجود، جو لوگ ایوارڈز کے لیے نام زد تھے، اُن میں سے کوئی بھی نہ جیت سکا، تو افسردگی سی ہوئی، لیکن جیتنے والے آکر ان کی ہمّت بندھاتے رہے۔ ویسے ہر ایوارڈ کی اناؤنسمینٹ کے بعد اتنی تالیاں بجتیں کہ کان پڑی آواز سُنائی نہ دیتی۔ ایوارڈز تقریب کے بعد شیری نے امریکا کی مختلف ریاستوں کےالیکشن ٹرینڈز اور ٹرمپ کے جیت کے بعد مختلف پلانز پر کُھل کے بات کی۔ ہال سے باہر آیا، تو نیپالی دوست انتظار میں تھے کہ ہمارا آج اکٹھے شہر گھومنے کا پروگرام تھا۔ (جاری ہے)