• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر عمران خان کی فائنل کال اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ پی ٹی آئی نے ڈی چوک میں دھرنا دئیے بغیر احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ڈی چوک کی طرف بڑھنے والے جلوس کو ریاستی قوت سے منتشر کر دیا گیا لیکن ’’آپریشن کلین اپ‘‘ میں ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں افواہیں گردش کرتی رہیں لیکن پی ٹی آئی ثبوت کے طور ایک ’’لاش‘‘ بھی پیش نہ کر سکی البتہ یکطرفہ پروپیگنڈے نے حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ۔ فائنل کال کی ناکامی کا پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان یہ ہوا کہ پارٹی کی وکلاء قیادت سے استعفے طلب کر لئے گئے پارٹی کی غیرعلانیہ قائد بشریٰ بی بی نے گھروں سے باہر نہ نکلنے والے ارکان اسمبلی کی جو’’ عزت افزائی‘‘ کی، اس کا سیاسی حلقوں میںبڑا چرچا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کے پی کے میں گورنرراج نفاذ کے آپشن پر غور کیا گیا اور سیاسی مصلحت کے پیش نظر کچھ دنوں کیلئے اس لئے موخر کر دیا گیا کہ گورنر راج کا نفاذ پارٹی کو پھر متحد کر دے گا۔وفاقی حکومت نے کسی بڑے المیہ سے بچنے کیلئےکے پی کے سے آنے والے ایک بڑے’’ سیاسی لشکر ‘‘ کو کسی مزاحمت کے بغیر کلثوم ہسپتال تک آنے دیا حتیٰ کہ دو اڑھائی سو کارکن ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے پولیس رینجرز اور فوج سمیت تمام فورسز ڈی چوک پر نصب کنٹینرز سے پیچھے ہٹ گئیںبظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ حکومت نے مظاہرین کے سامنے ہتھیا رڈال دئیے ہیں بشریٰ بی بی کی قیادت میں ’’سیاسی لشکر‘‘ ڈی چوک کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اوپر سے حکم آگیا کہ جوانوںکی تدفین سے قبل بلیو ایریا کلیئرکرا لیا جائے اس دوران علی امین گنڈاپور ، عمر ایوب اور بشریٰ بی بی کو آپریشن شروع ہونے کا پیغام گیا اور وہ فوری طور اپنی گاڑیوں سے نکل کر دوسری گاڑیوں میں مانسہرہ چلے گئے ۔ اس کے بعدریاستی طاقت استعمال کرکے دو گھنٹہ سے بھی کم وقت میں جناح ایونیو خالی کرا لیا گیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی آپریشن کے دوران پولیس فورس کے ساتھ رہے،آپریشن کے دوران 25،30افراد کے زخمی ہو نے کی اطلاعات ملی ہیںلیکن لاشوں کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ملی۔ سر دست رینجرز اور پولیس کے اہلکار جاں بحق تو ہوئے ہیں ان کے جنازے بھی پڑھے گئے ہیں اگرچہ پی ٹی آئی کی طرف سے ہلاکتوں کا دعویٰ تو کیا گیا ہے تاہم اس کی طرف سے ابھی تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت خوں ریزی سے بچنے کیلئے تین روز سے کوشش کرتی رہی ،بیرسٹر گوہر کی دو بار اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرائی گئی اور پی ٹی آئی کی قیادت کو سنگ جانی میں پڑائو ڈالنے کی بھی پیشکش کی گئی جس سے عمران خان سمیت پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے بھی اتفاق کیا لیکن بشریٰ بی بی آڑے آگئیں اور ڈی چوک جانےکی ضد کی ، پی ٹی آئی کی پوری قیادت بشریٰ بی بی کے سامنے بے بس نظر آئی انہوں نے سب کو ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کا حکم جاری کیا پی ٹی آئی میں پہلی بار ’’سپر لیڈر شپ‘‘ منظر عام پر آئی۔ مظاہرین کے کسی مزاحمت کے بغیر بلیو ایریا پہنچنے پر وزیر داخلہ محسن نقوی کی پوزیشن بھی کمپرومائز ہوئی ہے لیکن جب انہوں نے آہنی ہاتھ سے سیاسی لشکر کو منتشر کر دیا تو داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگے شہباز شریف حکومت نے مظاہرین کو ڈی چوک میں دھرنا نہ دینے دیا جیسا کہ 2014 میں ہوا تھا اورعمران خان اور طاہر القادری کسی مزاحمت کے بغیر ریڈ زون میں 126دن بیٹھے رہے تھے۔میں ان ہی دنوں نواز شریف کے ہمراہ سیلاب زدگان کے امدادی کاموں کا معائنہ کرنے کیلئے ان کے ہمراہ حافظ آباد گیا تو عمران خان کے دھرنا کو روکنے کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ہم ماڈل ٹائون کا واقعہ دہرانا نہیں چاہتے تھے ‘‘کچھ ایسی صورت حال’’ فائنل کال ‘‘ کے روز تھی وفاقی حکومت نے آپریشن’’ کلین اپ‘‘ میں ممکنہ جانی نقصان سے بچنے کیلئے سنگجانی میں پڑائو کی بار بار پیشکش کی لیکن بشری بی بی کی ناں نے نہ صرف پارٹی کو فیس سیونگ سے محروم کر دیا بلکہ ’’دم دبا کر بھاگنے‘‘ کا طعنہ بھی سننا پڑا ۔فائنل کال میں عمران خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی ،قانو ن کی حکمرانی اور چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی تک ڈی چوک نہ چھوڑنے کا بلند بانگ دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ریاستی قوت حرکت میں آنے پرقیادت سمیت ہزاروں کارکنوںنےوہیں اپنی گاڑیاں چھوڑ کر پشاور کی طرف دوڑ لگا دی۔ پی ٹی

آئی کا پاور شو صرف کے پی کے کارکنوں پر مشتمل تھا ناکہ بندی کی وجہ سے پنجاب ، سندھ اور بلوچستان سے ’’سیاسی لشکر‘‘ شریک نہ ہو سکے حتیٰ کہ راولپنڈی اور اسلام آبادسے پی ٹی آئی کے کسی کارکن کو ڈی چوک تک نہ پہنچنے دیا گیا۔عمران خان کی کال اس حد تک ضرورکامیاب تھی کہ اسے ناکام بنانے کیلئے حکومت کو پورے ملک کو لاک ڈائون کرنا پڑا۔ اس لاک ڈائون سے روزانہ ملک کو 190ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ البتہ سیاسی لحاظ سے پی ٹی آئی کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار کارکنوں کو باہر نکلنے کی کال دینے سے کارکن تھک گئے ہیں فیصلہ کن کال کے نتیجہ میںعمران خان کی رہائی نہ ہو نے سے کارکنوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔فائنل کال کی ناکامی سے ان کو باور کرا دیا گیا ہے عمران خان کی پارٹی پر گرفت کمزور ہو گئی ہے پارٹی پہلے ہی دو تین گروپوں میں منقسم ہے اب بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کی پارٹی میں ’’انٹری ‘‘ نے پارٹی کو مزیدمنقسم کر دیا ہے۔آئے روز کے دھرنوں اور ایجی ٹیشن سےحکومت گراناممکن نہیں،عمران خان کورہائی کیلئےمفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ 

تازہ ترین