• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گمشدہ افراد کے والدین، بیوی بچوں کا کرب کون دور کرے گا؟

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس علی شاہ کو اغوا کے تقریباً ایک ماہ کے بعد فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کی کوششوں سے بازیاب کرالیا گیا ہے۔ ماشااللہ وہ خیریت سے گھر پہنچ گئے۔ بازیابی کے بعد اویس شاہ گھر پہنچا تو ماں باپ سے گلے ملنے کی تصاویر میڈیا کو دکھائی گئیں جو اُس خوشی کا اظہار تھا جس کا کوئی دوسرااندازہ نہیں لگا سکتا۔ اغوا کے دوران جن سختیوں اور تکالیف کا اویس علی شاہ کو سامنا کرنا پڑا ہو گا وہ اپنی جگہ اور اُن کو شاید لفظوں میں بیان بھی کیا جا سکتا ہو لیکن اُس شدید کرب،دکھ اور تکلیف کا شائد کوئی اظہار ممکن نہیں جس سے اویس شاہ کے خاندان کو گزرنا پڑا ۔ اس عرصہ میں ماں باپ پر کیا گزری ہو گی، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کا کیا حال ہو گا اس کا کوئی دوسرا احساس نہیں کر سکتا۔ اللہ کا شکرہے کہ اویس علی شاہ کی بازیابی چند ہفتوں کے دوران ہی ہو گئی۔ ورنہ شہباز تاثیر اور علی حیدر گیلانی کی بازیابی کو تو سالوں لگ گئے۔ وہ بھی خوش قسمت تھے خیر و عافیت سے اپنی خاندانوں کو واپس آ ملے اور شدیددرد اور تکلیف کا وہ دور ختم ہوا جس کا یہ دونوں خاندان اس دوران شکار رہے۔ گزشتہ روز جیسے ہی اویس علی شاہ کی بازیابی کی خبریں سامنے آئیں تو سوشل میڈیا پر مبارکبادوں کا سلسلہ چل نکلا جس کے جواب میں کچھ لوگوں نے ایسے سوال اٹھائے جن میں بہت درد چھپا تھا۔ یعنی ایک صاحب کا کہنا تھا چلیں شکر ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کا بیٹا بازیاب ہوگیا، سابق وزیر اعظم اور سابق گورنر پنجاب کے بیٹے بھی اپنوں سے آ ملے لیکن یہ بتائیں کہ بہت سے غریبوں کے بچے گزشتہ کئی سالوں کے دوران اغوا ہوئے، وہ غائب ہیں وہ کب واپس گھر لوٹیں گے۔ ایک اور شخص نے سوال اٹھایا کہ یہ بات بھی سمجھا دیں تو نوازش ہو گی کہ بڑے لوگوں کے بچے برآمدگی کے بعد کھل کر اپنی روداد سناتے ہیں کہ اُن پر کیا گزری مگر عام افراد کی واپسی پر اُن کی زبانوں پر تالے کیوں لگ جاتے ہیں۔ شہباز تاثیر اور علی حیدر گیلانی کی واپسی پر بھی کچھ افراد نے ایسے ہی سوال اٹھائے۔ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ اُس کے شوہر کی واپسی کب ہو گی۔ کوئی اپنے بیٹے کو تلاش کر رہا ہے، کوئی شوہر کو ،کوئی باپ کو اور کوئی بھائی کو۔ ایسے افراد کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ان تمام کیسوں کا تعلق missing persons سے ہے، یعنی ایسے گمشدہ افراد جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں مبینہ طور پر ریاست کی ہی ایجنسیوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ 9/11 کے بعد گمشدہ افراد کا المیہ سامنے آیا اور اب تک نجانے کتنے افراد ایسے ہیں جو مبینہ طور پر ایجنسیوں کے پاس ہیں، کتنوں کے متعلق الزامات سامنے آئے کہ انہیں ماردیا گیا، کتنوں کی لاشیں ورثاکو ملیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جو سالوں سے غائب ہیں اور اُن کا ابھی تک کوئی اتا پتا نہیں۔ ایجنسیوں کے لوگوں سے بات کریں تو on the record تو وہ ایسے کسی بھی گمشدہ فرد کا اپنے پاس موجودگی سے صاف انکاری ہوتے ہیں لیکن off the record مانا جاتا ہے کہ ملک میں دہشتگردی میں شامل افراد کو تفتیش کے لیے پکڑا جاتا ہے تاکہ دہشتگروں کے نیٹ ورک کو ختم کیا جا سکے۔ گزشتہ چند سالوں میں کوششیں ہوئی کہ گمشدہ افراد کے مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے دہشتگردی کے قانون کو مزید سخت کیا جائے، ایجنسیوں کو اختیار دیا جائے تا کہ وہ لمبے عرصہ تک دہشتگردی کے ملزموں کو اپنے تحویل میں رکھ سکیں، فوجی عدالتیں قائم کی جائیں تا کہ بغیر ڈر اور خوف کے فوری سزائیں دی جائیں۔ لیکن اس سب کے باوجود آئے دن ہم میڈیا والوں سے ایسے افراد رابطہ کرتے ہیں جن کا رونا ہوتا ہے کہ اُن کے بھائی، شوہریا بیٹے کو ایجنسیوں نے کتنے عرصہ سے اٹھایا ہوا ہے لیکن نہ گرفتاری ظاہر کیا جاتا ہے اور نہ ہی گمشدہ فرد کا گھر والوں سے رابطہ کرایا جاتا ہے۔ چند سال پہلے ایک خاتون اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لیے میرے دفتر آئی کہ اُس کے شوہر کو ایجنسیوں نے اٹھا لیا مدد کریں۔ وہ بچہ شائد اب چار پانچ سال کا ہو چکا ہو گا لیکن اُس خاتون کا کچھ عرصہ پہلے مجھے ٹویٹر پر ایک پیغام ملا کہ اُس کا شوہر کب واپس ملے گا۔ کبھی کبھارکسی شادی میں یا وفات کے موقع پر کوئی نہ کوئی ایسا شخص مجھے آ ملتا ہے جوکہتا ہے کہ میرا بیٹا یا بھائی گمشدہ ہے اُسے مبینہ طور پر ایجنسیوں نے اٹھایا ہوا ہے لیکن نہ ہی ہمیں ملنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اُس سے بات ممکن ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص دوبارہ مل جائے تو میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہوں کہ اُن کی جائز مدد بھی کیسے ممکن ہے۔ اس مسئلہ میں تو مجھے بڑے بڑے بے بس نظر آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ گمشدہ افراد کے متعلق ایجنسیوں کے پاس سنگین شکایتیں ہوں لیکن وہ ثبوت نہ ہوں جو ایسے افراد کو عدالتوں میں سزا دلوا سکیں تو اس لیے اُن کو گمشدہ ہی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس میں ایسے گمشدہ افراد کے والدین، بیوی بچوں اور بھائی بہنوں کا کیا قصور۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ ایسے گمشدہ افراد کی اپنے گھر والوں سے ایک دوماہ میں ایک فون پر بات ہی کروا دی جائے اور اگر ممکن ہو کبھی کبھار ملوا بھی دیا جائے۔ اس سلسلے میں اگر کسی قانون سازی کی ضرورت ہے توہ وہ بھی کر لیں لیکن ریاست کو اُن والدین، بیوی بچوں وغیرہ کے کرب اور دکھ درد کا ضرور خیال رکھنا چاہیے جن کے اپنے گمشدہ ہیں اور سالوں سے کوئی خبر نہیں وہ کہاں ہیں، کس حالت میں ہیں، زندہ بھی ہیں کہ مر کھپ چکے۔
تازہ ترین