کل خواب میں اک پری ملی تھی
اک بوسے کے بعد اڑ گئی تھی
میں اس کے لیے دھنک بنا تھا
وہ اور ہی رنگ ڈھونڈتی تھی
دیوی تھی جسے میں پوجتا تھا
وہ اور کسی کو سوچتی تھی
میں راہ گناہ پر چلا تھا
اس راہ میں کیسی تیرگی تھی
چھ راستے واں سے نکل رہے تھے
اک سمت ذرا سی روشنی تھی
آخر میں دعا میں ڈھل چکا تھا
دنیا مجھے آکے دیکھتی تھی۔
(احمد عطا)
برصغیر کے عظیم رہنما موہن داس کرم چند گاندھی جنہیں سب سے پہلے مہاتما کا خطاب مہاکوی رابیندر ناتھ ٹیگور نے دیا تھا کے درمیان بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ اگرچہ ان دونوں عظیم شخصیات کے بیچ خیالات کی بہت خلیج بھی حائل تھی۔ لیکن محبت اور دوستی بھی مثالی تھی۔ ایک موقع پر گاندھی جی نے ہندوستان کے حالات پر ٹیگور کے رویوں سے زچ ہوکر کہا تھا:"گر دیو جی، گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور تم چڑیوں کا گانا سن رہے ہو۔"
اس پر مجھے حبیب جالب یاد آتے ہيں جنہوں نے ایک دفعہ بلوچستان کے حالات پر کہا تھا:
’’اٹھو پنجاب کے لوگو، بلوچستان جلتا ہے ،
بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے‘‘
لیکن جلنے دو بلوچستان کو، جلنے دو پاکستان کو، ہمیں چڑیوں کا گانا سننا ہے، اور شاعری صرف چڑیوں گا گانا بھی نہیں۔
خو ہم سنی ہیں، مرد ہیں، پنجابی ہیں، ہمیں کوئی نہیں ماررہا ، ہمیں کوئی نہیں اٹھا کر غائب کر رہا، ہماری کوئی لاشیں مسخ کر کےایدھی سینٹر کی حدود اربع میں نہیں پھینک رہا، ہمیں کوئی کچھ نہیں کہتا، ہم کوئی اوکاڑہ کی انجمن مزارعین پنجاب کے ملٹری فارمس کے مزارع تھوڑی ہی ہیں ہم اتحاد برائے ترقی علوم اردو ہیں، پاکستان اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہیں، وہی سچ ہے جو پاکستانی سفارتخانہ کہتا ہے۔ لاکھوں ڈالر ترقی علوم اردو پر امریکہ بہادر خرچ کرر ہا ہے ۔ہم بھی ترقی کر رہے ہیں۔ ہنوز دہلی دور است۔ میرے دوست حسن درس نے احمد فراز کے سامان پھینکے جانے پر کہا تھا:
پیارے پٹھان شاعر اردو عجیب ہے یہ
پشتو میں کہہ پنڈی سے دلی قریب ہے یہ
لیکن احمد عطا کی شاعری چڑیوں کا گانا ہی سہی، کیونکہ ان میں اور مجھ میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ہم دونوں کی کتاب ہمارے دوست امجد سلیم نے اپنے اشاعت گھر سے چھاپی ہیں اور دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ وہ بھی میرے بہت ہی عزیز دوست اور شاعر ذی شان ساحل کے دوست ہیں جن کی بھی ایک کتاب کا نام چڑیوں کا شور تھا- چڑیوں کا شور جو کہ شام ہوتے ہی ہماری یادوں کی دھند میں لپٹے ہوئے اس انتہائی پرانے برگد سے جاتا ہی نہیں جو کہ ہمارے اندر میں ہمیشہ رہتا ہے۔
احمد عطا کی شاعری پورے ملک کو تو نہیں لیکن اس کمرے کو معنوی نہیں بلکہ اصطلاح کہتا ہوں کہ آگ لگا سکتی ہے۔
کمرے میں آگ لگ گئی تھی
دل کسی دھیان میں لگا تھا
آگے کے مصرے ہیں:
دل اتنا کیوں دھڑک رہا ہے
میں کس کی نظر میں آ گيا تھا
کیونکہ وہ دل کی مسند پر بیٹھ کر عشق کیا کرتے ہیں، اور عشق کی ہی عطا یہ شاعری ہے۔
ویسا ہی خراب شخص ہوں میں
جیسا کوئی چھوڑ کر گیا تھا
دل کی مسند پہ بیٹھ کر عشق
مجھ ایسے کو سنوارتا تھا
یہ عاشقی ہے جو مجھ پر طلسم کھولتی ہے
یہ عاشقی ہے دکھاتی ہے مجھ کو رستے بھی
جیسے امرتا پریتم نے کہا تھا:’’اندر وچ بلدے بھانبھن دا پرچھاواں نہیں ہوندا‘‘ کہ اندر میںجلتی آگ کی پرچھائی نہیں ہوتی۔ امید کہ ان کا اشارہ ساحر کی پرچھائیاں کی طرف نہیں تھا۔ امرتا نے یہ بھی کہا تھا کہ مایوسی کے جال میں خوبصوتی پکڑنے کا نام شاعری ہے۔ عطا نے یہ کام اپنے دائیں ہاتھ کے کمال احسن سےدکھلایا ہے۔
کہیں ناصر کاظمی کی جھلک تو کہیں صغیر ملال کا رنگ تو کہیں رئیس فروغ کا تغزل تو کہیں محمود کنور کی وال کینو پر کھلتے گلاب کی کئی رنگ اس غزل کے شاعر میں ملتے ہیں جس غزل کا میں ناکام شاعر ہوں۔ چھینی ہوئی تاریخ کے شاعر اور جدید اردو نظم کے پیمبر صفت شاعر افضال احمد سید کے نام اپنی ایک غزل میں احمدعطا کہتے ہیں:
رنگ بدن ہے نور سا نور کا مس تباہ کن
کھا گئی رنگ کی ہوس رنگ ہوس تباہ کن
ناوک تیز رو ہے چشم، خنجر آب دار دل
چشم کسے تباہ کن، اور دل کس تباہ کن
اس کا بدن ہے راگ سا، راگ بھی ایک آگ سا
آگ کا مس تباہ کن، راگ کا رس تباہ کن
حال تباہ می کنم، حال تباہ می کند
ایسے تباہ حال میں، حال ہے بس تباہ کن
واقعی تباہ کن غزل ہے، دل کیلئے تباہ کن:
آہ نہیں بھری گئی شعر نہیں کہا گیا
آہ کہ بس تباہ کن شعر کہ پس تباہ کن
تباہ کن نظموں کے شاعر کے لئے تباہ کن غزل۔ یہ واقعی برف میں آگ لگانے والا کام ہے، یہ غزل ہے کہ افضال احمد سید کی تصویر۔
آئینہ دیکھ کے آج کھلا ہے مجھ پر
میر صاحب کے شعر کی تصویر ہے کیا
حبیب جالب پھر یاد آتے ہیں:
بات جوبھی کرو اپنے انداز میں
میر کا شعر تو میر کا شعر ہے
لیکن یہ احمد عطا تو شعر میں اپنے گھر سے کھاتے ہیں:
کڑکتا دن بھی ہوں میں جام انگبیں بھی ہوں
شراب تلخ ہوں میں شام سرمگيں بھی ہوں
پھسل گیا تھا کسی شاہ کی انگوٹھی سے
کہوں میں کیسے کوئی قیمتی نگیں ہوں میں
یہاں اس جگہ اس کتاب میں بس لگتا ہے آنکھ بھر تماشا ہے وہ بھی بس تین شعروں کی ایک غزل۔غزل کیا ہے خیال و خواب کا ایک رنگ محل:
کبوتروں کے بہت غول اڑ رہے ہیں یہاں
پروں میں ان کی کوئی یاد سرسراتی ہے
یہ بوڑھی رات جسے موت بھی نہیں آنی
یہ بوڑھی رات مجھے داستاں سناتی ہے
یہ دیکھئے میں ہوائوں میں اڑتا پھرتا ہوں
وہ مہربان ہنسی میں مجھے اڑاتی ہے
اور یہاں تو حافظ کا عکس ہے:
یہ تیرا حسن کچھ ایسا نہیں پوجیں جس کو
لیکن اے یار تیرے گال کا جو تل ہے نا
اور اسی اک ترک شیرازی کے گال کے تل پر حافظ سمرقند و بخارا قربان کرنا چاہتا تھا اگر آج ایسا کوئی کہے تو عالمی جنگ کی سی صورتحال پیدا ہوجائے۔ لیکن پھر بھی میں ایسی شاعری پھر وہ حافظ کی ہو کہ حسن درس کی سندھ دیس قربان کرنا چاہوں گا ۔ دیس تو پھر بن جاتے ہیں شاعری پھر نہیں تخلیق ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسی گولی ایجاد نہیں ہوئی جو حافظ کی غزل کو مار سکے کہ شاعری اور شاعر کے خواب بلٹ پروف ہوتے ہیں۔ یہی طالبان کیلئے میں نے کہا تھا:
لختئیوں سے، ٹپوں گیتوں سے،
کبھی بدھ سے کبھی رحمان بابا کی غزل سے یہ الجھتے ہیں
رات مسجد میں اندھیرا تو بہت تھا لیکن
یاد بھولی سی کوئی راہ عبادت تھی مجھے
اے میری جاں وہی غالب کی سی حالت تھی میری
تیرے جانے کی گھڑی تھی کہ قیامت تھی مجھے
بس آخری بات
کہ پیش لفظ اگر ’’آنکھ بھر تماشا ہے‘‘ کا شمس الرحمان فاروقی نہیں بھی لکھتے تب بھی احمد عطا بڑےشاعر صاحب تھے۔ اس جئے شاعروں کو اب برصغیر میں اردو ادب کے پوسٹ ماسٹر جنرلوں سے اپنی شاعری و تخلیقات پر مہر ثبت لگوانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن کے نزدیک نہ فیض بڑا شاعر ہے اور نہ قرۃ العین حیدر بڑی مصنفہ کیا وہ مصنفہ ماننے کو بھی تیار نہیں۔
تمہارے شہر سے چلئے کہ تنگدستی نے
تمارے شہر کی گلیاں بھی تنگ کردی ہیں
احمد عطا کی شاعری کی اس کتاب کا انتساب ’’مٹی کے نام جس نے کبھی میرے کسی استاد کے پائوں چومے ‘‘ لیکن اب یہ مٹی ان استادوں کا ہمارے آشنائوں کا وفائوں کا خون جذب کر رہی ہے (کل اس مٹی میں میرے دوست ظفر لنڈ کا خون ناحق رزق خا ک ہوا۔ بس احمد فراز یاد آتا ہے:
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
اب یہ لہو کبھی سارتر اور کامیو کے دیس میں بہایا جارہا ہے تو کبھی بلھے شاہ ، فریدن، بھٹائی سچل، رحمان بابا اور غنی خان اور گل خان نصیر اور مست توکلی کے دیس میں۔