• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عارف قریشی، بھکر

قائدِ اعظم محمّد علی جناح کی شخصیت اصول پرستی، استقامت، ذہانت و فطانت، حق گوئی اور ہمّت و جرأت سمیت دیگر اعلیٰ صفات کا مرقّع تھی اور اپنی انہی غیر معمولی خوبیوں کے باعث انہوں نے قیامِ پاکستان کی صُورت تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ بانیٔ پاکستان کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے زیرِ نظر مضمون میں قائدِ اعظم کی رفاقت و قُربت کا اعزاز حاصل کرنے والی مختلف شخصیات کی زبانی اُن کے تاریخی فرمودات اور ناقابلِ فراموش واقعات پیش کیے جا رہے ہیں۔

٭ ایک بار قائدِ اعظم نے مُجھے بتایا کہ ’’مَیں نے بیرسٹری کے لیے ’’لنکنز اِن‘‘ میں محض اس لیے داخلہ لیا کہ اس کے صدر دروازے پر لکھے ہوئے دُنیا کے ممتاز قانون سازوں کے ناموں میں پیغمبرِ اسلام، حضرت محمدﷺ کا اسمِ گرامی سب سے اوپر درج تھا۔‘‘ (نواب صدیق علی خان)

٭ قائدِاعظم نے اپنے قیامِ انگلستان کے واقعات سُناتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ کرسمس کے موقعے پر طلبا و طالبات میں ایک کھیل کھیلا جا رہا تھا، جس میں جیتنے والے لڑکے یا لڑکی کو دوسرے ساتھیوں کی ایک فرمائش پوری کرنا ہوتی تھی۔ 

قائدِاعظم جیتے، تو ساتھیوں نے فرمائش کی کہ ’’آپ فلاں لڑکی کا ہاتھ تھام کر رقص کریں، مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’مَیں اپنی ہونے والی شریکِ حیات کے سوا کسی لڑکی کا ہاتھ نہیں تھاموں گا‘‘۔ اور پھر وہ زندگی بَھر اپنے اسی قول پر عمل پیرا رہے۔ (لیڈی نصرت عبداللہ ہارون)

٭ ہندو اور مسلمان کانگریسی لیڈروں کا اکٹھ تھا۔ اس دوران ایک مسلمان شریکِ محفل نے قائدِاعظم کو انگریزوں کا ’’زرخرید‘‘ کہہ دیا، جس پر سروجنی نائیڈو بولیں، ’’کیا کہا تم نے… جناح انگریزوں کا زرخرید ہے؟ 

تم بِک سکتے ہو، مَیں خریدی جا سکتی ہوں، باپو (گاندھی) اور نہرو کا سودا ہو سکتا ہے، مگر جناح اَن مول ہے۔ اسے کوئی نہیں خرید سکتا۔ ہمارے نقطۂ نظر سے وہ غلط راستے پر گام زن ہیں، لیکن اُن کی دیانت ہر شک و شُبے سے بالاتر ہے۔ (رئیس احمد جعفری)

٭ قائدِاعظم ایک روز بمبئی میں مسلم لیگ کے جلسے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ راستے میں انہوں نے مُجھ سے پوچھا کہ ’’Proud ‘‘ کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔’’مغرور ۔‘‘ قائدِاعظم نے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مَیں مغرور ہوں کہ مَیں مسلمان ہوں۔‘‘ اس موقعے پر انہوں نے احتیاطاً ’’Proud‘‘ کا لفظ بھی ساتھ استعمال کیا۔ 

واپسی پر مَیں نے ان سے عرض کیا کہ ’’ اگر آپ پورے جملے کا اردو مطلب دریافت کرتے، تو مَیں آپ کو بتاتا کہ آپ کو ’’مُجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔‘‘ کہنا چاہیے تھا۔‘‘ اس پر قائد ِاعظم نے کہا، ’’مَیں اپنی تقریر یا اس کا کوئی حصّہ قبل از وقت کیسے افشا کر سکتا ہوں۔‘‘ (سیّد شریف الدّین پیرزادہ)

٭ قائدِاعظم ایک دفعہ ریل میں سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے صرف ایک برتھ ریزرو کروائی تھی اور سامنے والی برتھ خالی تھی۔ ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر گاڑی رُکی، تو ایک اینگلو انڈین لڑکی ان کے ڈبّے میں آکر دوسرے برتھ پر بیٹھ گئی۔ ٹرین چلنے لگی، تو وہ لڑکی اچانک اُٹھ کھڑی ہوئی اور بولی کہ ’’تمہارے پاس جو کچھ ہے، میرے حوالے کر دو۔ ورنہ میں زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہوں گی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرنا چاہتا ہے۔‘‘

قائدِاعظم اُس وقت کچھ کاغذات دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے سَر نہیں اُٹھایا اور نہ اُس کی بات کا کوئی جواب دیا۔ لڑکی نے اپنی بات دُہرائی، لیکن وہ پھر بھی خاموش رہے۔ آخر تنگ آکر اُس نے قائدِاعظم کا کندھا ہلایا اور تیسری مرتبہ اپنا مطالبہ پیش کیا۔ قائدِ اعظم نے اوپر دیکھا اور اشارے سے اسے سمجھایا کہ ’’مَیں بہرہ ہوں، مُجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ 

جو کچھ کہنا ہے، مُجھے لکھ کر بتائو۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے کاغذ اور قلم اس کی طرف بڑھا دیا۔ لڑکی اُن کے اس جوابی دائو کی تہہ تک نہ پہنچ سکی اور اس نے اپنا مدّعا کاغذ پر لکھ کر ان کے حوالے کر دیا۔ قائدِاعظم نے فوراً زنجیر کھینچ کر گاڑی رُکوائی اور اُس لڑکی کو اُس کی تحریر کے ساتھ ریلوے حُکّام کے سُپرد کردیا۔ تاہم، اس دن کے بعد بھی وہ اپنے لیے دو برتھس ہی ریزرو کروایا کرتے، چاہے تنہا ہی کیوں نہ ہوتے۔ (سیّد ہاشم رضا)

٭ مَیں قائدِ اعظم کے پاس ڈرائیور تھا۔ ایک دفعہ جمعے کے دن مَیں نے مس فاطمہ جناح سے کہا کہ ’’مُجھے نماز کے لیے چھٹی چاہیے‘‘، تو انہوں نے اجازت دے دی۔ تاہم، اُسی وقت ’’بے بی‘‘ (قائدِاعظم کی بیٹی) باہر آئیں اور کہنے لگیں کہ انہیں سہلیوں سے ملنے جانا ہے اور وہ مُجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتی ہیں۔ 

گرچہ مَیں بے بی کے لیے اپنے پروگرام میں تبدیلی پر آمادہ تھا، لیکن اسی دوران قائدِاعظم تشریف لے آئے اور انہوں نے بے بی کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ ’’فقیر محمّد نے جمعے کی نماز پڑھنے جانا ہے۔ تم کار نہیں لے جاسکتی۔ کسی سے کہو، وہ تمہارے لیے ٹیکسی لے آئے۔‘‘ (فقیر محمّد)

٭ 1935 ء کے ایکٹ کے تحت جب ہندوستان کو فیڈریشن بنانے کی تجویز سامنے آئی، تو برطانوی وزیرِاعظم، ولیمزے میک ڈونلڈ نے قائدِاعظم کو پیش کش کی کہ ’’آپ فیڈریشن کی مخالفت ترک کر دیں، تو ہم آپ کو لارڈ کا خطاب دے کر کسی صوبے کا گورنر بنا دیں گے۔‘‘ 

یہ سُنتے ہی قائدِاعظم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ برطانوی وزیرِاعظم نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو انہوں نے اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا۔ برطانوی وزیرِاعظم خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور اس نے پوچھا، ’’کیا وجہ ہے کہ آپ اتنے ناراض ہو گئے؟‘‘ قائدِاعظم نے جواب دیا، ’’آپ کے خیال میں مَیں کوئی بکائو مال ہوں۔‘‘ (ابراہیم اسماعیل چندریگر)

٭ قیامِ پاکستان کے موقعے پر کراچی میں انتقالِ اقتدار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر جنرل، لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستانیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی نئی مملکت میں عدل و انصاف اور رواداری کی وہ مثالیں قائم کریں، جو مُغل بادشاہ، اکبر نے قائم کی تھیں۔ قائدِ اعظم اس پر خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنی جوابی تقریر میں مائونٹ بیٹن کو دوبدو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’عدل و انصاف اور رواداری کی روایتیں ہمیں اس سے بہت پہلے نبی کریمﷺ سے ملی تھیں۔‘‘ (محمد یونس)

٭ قائدِاعظم چھریرے بدن کے مالک تھے۔ وہ گرچہ بہ ظاہر نحیف و نزار نظر آتے تھے، لیکن اُن میں بڑی طاقت اور ہمّت تھی۔ ستّر برس کی عُمر میں انہوں نے اپنے قتل کے لیے آنے والے ایک نوجوان کا ہاتھ اتنی مضبوطی سے پکڑا کہ اُسے دن میں تارے نظر آگئے۔ 

قائدِاعظم نے اپنا دُبلا پتلا ہاتھ بڑھا کر حملہ آور کی کلائی پکڑ لی اور اس وقت تک اسے نہیں چھوڑا کہ جب تک ساتھ والے کمرے سے ان کے سیکریٹری مسٹر سیّد نہ آگئے اور انہوں نے قاتل کو خنجر سمیت قابو نہ کرلیا۔ اس دوران قائداعظم کے چہرے پر کمال سکون اور اطمینان رہا اور انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی کسی خوف یا پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔ (ایم اے ایچ اصفہانی)

٭ ایک روز قائدِاعظم نے ایک خاتون کا ذکر کیا کہ جو بار بار ان کے پاس آکر کہتی تھیں کہ پنجاب سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کوئی امیدوار کام یاب نہیں ہوسکتا۔ اس پر پیر تاج الدّین نے بے تکلفی سے کہا، ’’مسٹر جناح! اس خاتون نے آپ سے بہت میل جول بڑھا لیا ہے۔ 

مُجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ اس کے ناز و غمزہ کا شکار نہ ہو جائیں؟‘‘ اس پر قائدِاعظم نے ہنستے ہوئے انگریزی میں جو جواب دیا، اس کا مفہوم اردو میں یہ شعر مِن و عن ادا کرتا ہے کہ؎ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں _… جسے غرور ہو آئے کرے شکار مُجھے۔ (عاشق حسین بٹالوی)

٭ قائداعظم کو اسٹریچر پر لٹا کر طیّارے کی طرف لے جایا جا رہا تھا کہ جہاز کے عملے نے انہیں سیلیوٹ پیش کیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب مَیں نے دیکھا کہ انہوں نے فوری طور پر ہاتھ اُٹھا کر اس کا جواب دیا، حالاں کہ وہ اس قدر کم زور ہو چُکے تھے کہ ان کے لیے کروٹ بدلنا بھی مشکل تھا۔ 

یہاں تک کہ ان میں کھانسنے کی سکت بھی نہ تھی، لیکن احساسِ فرض اور اخلاقِ عالیہ کا یہ مجسمہ آخر وقت تک اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا۔ (ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش)