• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کے حوالے سے مختلف نوعیت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں جانب سے مذاکرات کی خواہش کے اظہار کے باوجود ابھی تک فریقین میں مذاکرات کا باقاعدہ آغاز نہیں ہو سکا۔ اس سلسلے میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کبھی سول نافرمانی اور کبھی مذاکرات کی بات کرتی ہے۔ جو ماحول پی ٹی آئی نے بنادیا ہے اس میں کوئی مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے۔ بانی پی ٹی آئی کے جیل سے کچھ بیان آتے ہیں، بہنوں کے لاہور سے کچھ اور خیبر پختونخوا سے بشریٰ بی بی کے کچھ اور بیانات آتے ہیں، ان کے بیانات میں کوئی ہم آہنگی نہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باہمی اعتماد کی کمی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ دونوں فریق بات چیت کے اصولی موقف پر قائم ہیں۔ گزشتہ دنوں پارلیمان کے اجلاس میں فریقین کی جانب سے مذاکرات کی راہ اپنانے کی بات کی گئی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت اور اپوزیشن مذاکرات نہیں کریں گے یہ سسٹم نہیں چل سکتا جبکہ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی طریقے ہی سے تلاش کرنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ جب دونوں فریق مذاکرات کو مسائل کے حل کی راہ قرار دیتے ہیں تو اس حوالے سے پیشرفت میں کیا رکاوٹ ہے؟ اب تک مذاکراتی کمیٹی کی بیٹھک کا انعقاد کیوں نہیں ہو سکا؟ بلکہ حکومت کی جانب سے تو ابھی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان بھی نہیں ہوا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعد المشرقین کی موجودہ کیفیت میں بات ایک دم آگے نہیں بڑھ سکتی‘مگر ملکی حالات کا فوری تقاضا ہے کہ بحرانوں پر قابو پا کر آگے بڑھنے کیلئے غیر یقینی کیفیت کو ختم کیا جائے۔ اس لئے مذاکرات نہ صرف ناگزیر ہیں بلکہ فریقین خود بھی یہ جان چکے ہیں کہ اس کے بغیر کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اس درجے کی کشیدگی میں یکایک سب اچھا ہو جانے کی توقع نہیں کی جا سکتی مگر ایسی مثالیں موجود ہیں کہ باہمی تلخیوں کو قومی مفاد پر حاوی نہیں ہونے دیا گیا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو اپنے اکابرین سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل کے مراحل کے دوران حکمران پیپلز پارٹی کے مدمقابل خان عبد الولی خان،مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی اور چوہدری ظہور الٰہی جیسے سیاستدان تھے جبکہ سیاسی تقسیم اور تنائو کا ماحول آج جیسا ہی تھا۔ اسی دوران فروری 1973ء میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ صوبہ سرحد میں اپوزیشن رہنما مفتی محمود نے احتجاجاً اسمبلی تحلیل کر دی۔ 2 صوبوں میں منتخب حکومتوں کے بغیر نظام چل رہا تھا مگر آئین سازی کا عمل رکا نہیں اور محض 2 ماہ بعد متفقہ آئین کی منظوری عمل میں آئی۔ وجہ محض یہ تھی کہ نہ تو حکومت نے طاقت کے زعم میں اپوزیشن سے مذاکراتی عمل معطل کر کے عددی اکثریت کی بنا پر آئین منظور کرانے کی کوشش کی اور نہ ہی اپوزیشن نے مذاکرات کا دروازہ بند کیا۔ آج ہمیں بھی اپنے سیاسی اکابرین کا جذبہ بروئے کار لانا اور مذاکرات کیلئے درگزر اور لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ایسے وقت میں،جب ملک عزیز کو معاشی عدم استحکام اور دہشت گردی جیسے خطرات کا سامنا ہے،یہ ضرورت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے کہ سیاسی فریقین سمیت تمام اربابِ اختیار مل بیٹھ کر ملک کے وسیع تر مفادات کا سوچیں اور ایسے میثاق پر اتفاقِ رائے پیدا کریں جس سے ملک کے سیاسی،معاشی،عدالتی اور سماجی نظام کی اصلاح و ترقی کی راہ ہموار ہو۔ باہمی اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کیلئے دیگر سیاسی فریقوں کو بھی اس عمل میں شریک کرنا چاہیے۔دنیا بھر میں ارکان اسمبلی عوام کے نمائندے اور غم خوار ہوتے ہیں ،لیکن پاکستان میں معاملہ الٹ ہے کہ یہاں عوام مہنگائی ، بیروزگاری اور قوت خرید کے عذاب سے گزررہے ہیں اور ارکان اسمبلی اپنی تنخواہوں میں شاہانہ اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ اس طرح کے فیصلے سن کر شرم آتی ہے ،ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’’میری تنخواہ ایک مزدور کے برابر مقرر کی جائے ‘‘ گزارہ کیسے ہوگا کی بات آئی تو آپ نےفرمایا ’’اگر میرا گزارہ نہیںہو گا تو مزدور کا معاوضہ بڑھا دوں گاــ‘‘۔پنجاب اسمبلی میں ایک ایم پی اے کی تنخواہ 76ہزار سے بڑھاکر 4لاکھ ،وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھاکر 9لاکھ 60ہزار ،اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے 9لاکھ 50ہزار اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار روپے سے بڑھا کر 7لاکھ 75ہزار روپے اور پارلیمانی سیکریٹری کی تنخواہ 83ہزار روپے سے بڑھا کر 4لاکھ 51ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے ایڈوائزر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6لاکھ 65ہزار روپے کر دی گئی ،وزیر اعلیٰ کے اسپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6لاکھ 65ہزار روپے کر دی گئی ۔عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظرثانی پنجاب 2024کا بل وزیر برائے پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پیش کیا،تنخواہوں میں اضافہ کے بل پر اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے اعتراض اٹھا یا تو اسپیکر اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ یہ بل موجودہ قوانین کے مطابق بالکل درست اور حکومت کا اچھا اقدام ہے ۔ یہ ہیں ہمارے نمائندے جوغریب کی پنشنوں میں تو کٹوتی کر رہے ہیں اور اپنی تنخواہوں میں کئی سو فیصد اضافہ کرتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسمبلی کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ دوسری جانب گورنر پنجاب کوبھی چاہئے کہ وہ اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر کے ایک عوام دوست حکمران ہونے کا ثبوت دیں ۔

تازہ ترین