• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ایک سال سے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام ہورہا ہے مگر اس کے خلاف مسلم دنیا سے اجتماعی طور پر کوئی ردعمل اب تک سامنے نہیں آیا، قتل عام کے علاوہ بڑے پیمانے پر فلسطینیوں پر حملہ کرکے شدید زخمی کردیا گیا ہے‘ یہ بات بھی کم افسوسناک نہیں ہے کہ شہید اور شدید زخمی ہونے والے ان سینکڑوں اور ہزاروں فلسطینیوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے مگر یہ دیکھ کر شدید افسوس ہوتا ہے کہ مسلم دنیا سوئی ہوئی ہے اور ان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا ہے۔ یہ دیکھ کرمجھے ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب اسرائیل نے شام پر بڑا حملہ کیا تھا گولان کی پہاڑیوں پر قبضےکیلئے تو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے‘ بھٹو نے اس صورتحال پر خاموش رہنا مناسب نہیں سمجھا‘ انہوں نے پاکستان سے جنگی جہازوں کا ایک گروپ شام پہنچایا اور وہاں انہوں نے حملہ آوراسرائیلی جنگی جہازوں پر حملہ کیا اور ان کو مجبور کیا کہ وہ نہ فقط گولان کے پہاڑ مگر سارے ملک شام سے باہر نکل جائیں اور ایسا ہی ہوا‘ اس کے نتیجے میں شام کے اس وقت کے صدر حافظ الاسد بھٹو کے مداحوں میں شامل ہوگئے‘ نہ فقط حافظ الاسد مگر بھٹو کے اس کارنامے کی وجہ سے لیبیا کے سربراہ کرنل قذافی بھی بھٹو کے مداحوں میں شامل ہوگئے۔ کرنل قذافی کا ذکر نکلا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ کرنل قذافی نے وقت آنے پر پاکستان کی کیا مدد کی؟ شاید کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان نے جو ایٹم بم بنایا اس میں کرنل قذافی نے پاکستان کی بڑی مالی مدد کی۔ اسی مرحلے پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا اس کانفرنس میں اکثر اسلامی ملکوں کے سربراہ شاہ فیصل،لیبیا کے کرنل قذافی سمیت دیگر سربراہان نے شرکت کی۔ کانفرنس میں بنگلہ دیش سے مدعو کئے گئے شیخ مجیب الرحمان نے بھی شرکت کی،اس مرحلے پر ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ملکوں کے سربراہوں سے ایک اہم فیصلہ کرایا حالانکہ اس وقت اکثر سمندری علاقوں کے تیل کے ذخائر تھے مگر اس کے ریٹس امریکہ مقرر کر تا تھا۔اس کانفرنس میں بھٹو نے یہ مسئلہ اٹھاتے ہوئے تجویز دی کہ تیل کے ذخائر اسلامی ملکوں کے سمندروں میں ہیں لہٰذ ان سمندری علاقوں میں تیل کے ریٹس اسلامی ملک خود مقرر کریں ، بعد میں اس فیصلے پر عمل کیا گیا۔

امریکہ پہلے ہی پاکستان کی طرف سے ایٹم بم بنانے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا مگر اس فیصلے کے بعد امریکہ بھٹو کے اور خلاف ہوگیا۔یہ بھی ایک انتہائی اہم واقعہ ہے کہ سب سے پہلے سعودی عرب کے شاہ فیصل کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور پھر جلد جنرل ضیاء کی حکومت کے احکامات کے تحت بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔اس سلسلے میں کئی اہم قومی اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ شاہ فیصل کا قتل اور بھٹو کو دی گئی پھانسی امریکہ کے احکامات کے تحت تھی۔ کرنل قذافی اور ہندوستان کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حوالے سے یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک بار ہندوستان کے کچھ صحافی کراچی آئے تو وہ کراچی پریس کلب بھی آئے اس وقت کلب کے صدر عبدالحمید چھاپرا تھے انہوں نے ان صحافیوں کی چائے سے آ?ئوبھگت کی اور پریس کلب کی طرف سے رات کے ڈنر کی دعوت دی ۔ رات کو ان صحافیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب کے عہدیداروں کے علاوہ کئی سینئر صحافی بھی شریک تھے‘ میں بھی اس ڈنر میں تھا۔ڈنر سے پہلے کراچی اور ہندوستان کےصحافیوں کے درمیان کچہری شروع ہوئی‘ گپ شپ کے دوران پاکستان کے اس وقت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اور کرنل قذافی کے تعلقات کے حوالے سے بات نکلی تو ہندوستان کے ایک صحافی نے کہا کہ میں آپ کو کرنل قذافی اور بھٹو کے حوالے سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمان ملکوں کے کچھ سربراہوں سے میرے کافی تعلقات تھے، ایک بارمیں لیبیا گیا تو کرنل قذافی نے گاڑی بھیج کر مجھے اپنی رہائش گاہ پر بلایا جہاں میں ان کے بنگلے پر ان کا ذاتی مہمان تھا۔ رات کو ڈنر سے پہلے تبادلہ خیال کے دوران میں نے ذوالفقار علی بھٹو کاذکر کیاتو کرنل قذافی نے کہاکہ ’’میں آپ کو اہم معلومات دیتاہوں‘ ‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں گئے اوراپنی الماری سے ایک فائل نکالی اور کمرے میں آکر وہ فائل میرے حوالے کی اورکہا کہ اس فائل میں ہندوستان کی وزیراعظم اندراگاندھی کاایک لیٹر ہے جو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں مسلم ملکوں کے سربراہوں کو لکھاتھا۔ ہندوستانی صحافی نے یہ لیٹر پڑھاجس میں اندراگاندھی صاحبہ نے مسلم ممالک کے سربراہوں سے گزارش کی تھی کہ جنرل ضیاء بھٹو کو پھانسی دیناچاہتے ہیں جبکہ بھٹو فقط مسلم دنیا نہیں بلکہ ساری تیسری دنیا کے ہیرو ہیں۔ ان کی جان بچانا ہم سب کافرض ہے۔

اس خط میں محترمہ اندراگاندھی نے مسلم ممالک کے سربراہوں سے کہا کہ وہ سب جنرل ضیا پر دبائو ڈالیں کہ بھٹو کوپھانسی نہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ کچھ نہیں کرسکتیں کیونکہ اگر میرابیان بھی جاری ہوا تو جنرل ضیاء شاید اسی وقت بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیں گے۔ قصہ مختصر کہ میں یہ بات فی الحال یہاں ختم کرنے سے پہلے پاکستان کی موجودہ حکومت سے گزارش کروں گا کہ فلسطینیوں پر مظالم ختم کرانے کے لئے ان کو وہی کردارادا کرناپڑےگا جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا تاریخی کردار اداکیاتھا۔ میں پاکستان کے موجودہ حکمرانوں سے اپیل کرتاہوں کہ وہ آگے آئیں اور فوری طورپر پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرکے اسلامی ملکوںکی طرف سے اجتماعی کارروائی کرکے اسرائیل کے حملے بند کروائیں۔

تازہ ترین