• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصباح طیّب، سرگودھا

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ ہر مَردو زن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے۔ تاہم، بہ حیثیتِ مسلمان ہمیں قرآن پاک کی تعلیم کو اوّلیت دینی چاہیے اور دُنیاوی علم کو ثانوی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، لیکن ہم نے عصری علوم حاصل کرنے کی کوشش میں اسلامی تعلیمات کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکل چُکا ہے۔ 

ہم نے ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر مخلوط نظامِ تعلیم کو پروان چڑھانا شروع کر دیا ہے، حالاں کہ مَردوزن کا اختلاط آگ اور پیٹرول کا ملاپ ہے، جس کے نتائج سے ہم بہ خوبی واقف ہیں۔ تاہم، اس کے برعکس ہمارے ہاں اسکولز، کالجز اور جامعات سے لے کر مختلف اداروں میں بھی مَرد اور خواتین اکٹّھے کام کر رہے ہیں، تو ایسی صُورت میں معاشرے کا تارو پود بکھرنا ہی ہے۔

ہمارے پیارے مذہبِ اسلام میں عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے اور اسے غیر محرم سے سخت آواز میں بات کرنے کا حُکم دیا گیا ہے۔ یاد رہے، عورت کے لفظی معنی ہی ’’پردہ‘‘ کے ہیں، جب کہ آج کی مسلمان عورت اشتہارات، دفاتر اور سوشل میڈیا وغیرہ کی زینت بننے میں فخر محسوس کرتی ہے۔

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو گھر کی زینت اور مَرد کو قوّام قرار دیا ہے کہ عورت اپنی محدود دُنیا میں مستورہ رہ کر آنے والی نسل کی تربیت کرے، مگر آج کی عورت کو تو ہر شعبے میں مَردوں کی برابری کی فکر لاحق ہو گئی ہے اور وہ خود ساختہ طور پر ہی ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی علم بردار بن گئی ہے۔ یاد رہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے برتر قرار دیا ہے، وہ بہرکیف برتر ہے۔ اسی لیے مَردو زن کے لیے عمل کے میدان بھی الگ الگ ہیں۔ 

مَرد گھر سے باہر کی ذمّے داریاں نبھانے کا ذمّے دار ہے، جب کہ عورت پر گھریلو امور انجام دینے کی ذمّے داری عاید ہوتی ہے اور اگر عورت کو کسی مجبوری کے تحت گھر سے نکلنا بھی پڑے، تو اُسے پردے کی پابندی کرنی چاہیے۔ تاہم، بدقسمتی سے اب صورتِ حال تبدیل ہو چُکی ہے۔ 

بہ قول اکبر الٰہ آبادی؎ عورت کا پردہ مَرد کی عقل پر پڑ گیا۔ یاد رہے کہ مَرد اپنی خواتین کے نگہبان ہیں اور اگر وہ انہیں بے پردگی سے منع نہ کریں، تو اُن کے لیے وعید ہے اور ایسے مَردوں کے لیے ہمارے مذہب میں ’’دیوث‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

ہمارا اثاثہ خاتم النبیّین حضرت محمدﷺ کی سیرتِ طیّبہ اور تعلیمات ہیں۔ کیا ان سے ہمیں مخلوط تعلیم کا درس ملتا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے، تو ہم کیوں وقتی و عارضی فائدے کے لیے اپنی نئی نسل کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔ ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہماری عزّت و حُرمت ہیں۔ اگر ہم نے انہیں دُنیاوی علوم سے آراستہ کرنا ہے، تو لازمی نہیں کہ اُنہیں اُن تعلیمی اداروں میں بھیجا جائے کہ جہاں مخلوط نظامِ تعلیم رائج ہے۔ 

لڑکیوں کا مخلوط نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنا روشن خیالی نہیں، بلکہ تاریک خیالی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دِین کا صحیح فہم اور مسلمان خواتین کو خاتونِ جنّت، حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ حضرت فاطمہؓ کہ جنہیں کبھی کسی نے برہنہ سَر نہ دیکھا۔ وہ حضرت فاطمہؓ کہ جن کی سواری جب پلِ صراط سے گزرے گی، تو سب کو نگاہیں جُھکانے کا حکم ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم خواتین کو اپنا وہ مقام پہچاننے کی توفیق دے کہ جو دراصل ہمارا مقام ہے۔