• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیادہ عرصہ اسکرین سے دُوری اجنبی کردیتی ہے

’’تمغہ امتیاز‘‘ کے حامل، نامور فنکار، رفیق شاد کی باتیں
’’تمغہ امتیاز‘‘ کے حامل، نامور فنکار، رفیق شاد کی باتیں

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

رفیق شاد کا شمار مُلک کے نام وَر فن کاروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی بذلہ سنجی، خُوب صُورت اور بے تکلّفانہ گفتگو سے ماحول پر اثرانداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پی ٹی وی اور نجی چینلز کے بے شمار ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دِکھا کر مُلک گیر شہرت حاصل کی۔

حکومتِ پاکستان نے’’ تمغۂ امتیاز‘‘ سے نوازا، جب کہ بہت سے دیگر ایوارڈز بھی اپنے نام کر چُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہماری رفیق شاد کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندان، تعلیم، ابتدائی زندگی سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: مَیں1958ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ مسلم آباد ہائی اسکول سے میٹرک کے بعد کمرشل کالج، کوئٹہ سے سی کام اور بی کام کی اسناد حاصل کیں، جب کہ بلوچستان یونی ورسٹی سے ایم کام اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔میرے والد، محمّد اکبر لہڑی محکمۂ بلدیات سے ڈیویلپمنٹ آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

اُن کی بھرپور خواہش رہی کہ ہم بہن، بھائی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ چھوٹے بھائی محمّد صادق نے کچھ عرصہ اداکاری کے بعد بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ دوسرے بھائی شفیق کاروبار کرتے ہیں۔ میرا بیٹا وقاص محکمۂ تعلیم کے انتظامی شعبے سے وابستہ ہے، جب کہ میری پانچ بیٹیاں ہیں، جو مختلف کلاسز میں پڑھ رہی ہیں۔

س: اداکاری کی طرف کیسے آئے؟

ج: یہ1979ء کی بات ہے۔ میرے دوست اختر شاہوانی گلوکاری کے آڈیشن کے لیے ریڈیو اسٹیشن، کوئٹہ جا رہے تھے اور مجھے بھی زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ مَیں ریڈیو تو شوق سے سُنتا تھا، مگر ریڈیو یا ٹی وی پر کام کا کبھی خیال تک نہیں آیا تھا۔ بہرحال، اُن کے اصرار پر محض ایک دوست کی حیثیت سے اُن کے ساتھ چلا گیا۔ وہ ریڈیو اسٹیشن کے لان میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ مَیں نے بوریت محسوس کی اور چائے پینے کینٹین چلا گیا۔

وہاں ایک صاحب آئے، اُن کی مجھ پر نظر پڑی، تو میرا نام پوچھا اور پھر مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ مَیں نے بتایا کہ مَیں آڈیشن دینے نہیں آیا، مگر وہ پھر بھی مجھے ساتھ لے جانے پر بضد رہے، تو مَیں اُن کے ساتھ چل پڑا۔ایک جگہ آڈیشن ہو رہے تھے، جنہیں دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ 

خیر، میری باری آئی، تو مجھ سے خبریں پڑھوائی گئیں، پھر کمپیئرنگ کروائی گئی، اداکاری کے لیے ایک بوڑھے شخص کی طرح بولنے کو کہا گیا۔ مَیں نے فوراً دس پیسے کا سکہ تالو کے نیچے رکھ کر ڈائیلاگ بولے۔ کچھ دیر بعد نتائج کا اعلان ہوا، تو دو درجن سے زائد لڑکوں میں پہلا کام یاب شخص مجھے قرار دیا گیا۔

افسوس تب ہوا، جب میرے دوست کو مزید تیاری کے لیے بیس روز بعد کی تاریخ دی گئی۔تاہم، میری کام یابی پر وہ خوشی سے اُچھل رہا تھا اور میری کام یابی کو اپنی کام یابی سے تعبیر کر رہا تھا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ وہ مردم شناس شخص، جو مجھے کینٹین سے پکڑ کر لائے تھے، نام ور پروڈیوسر، ڈراما رائٹر غلام نبی راہی تھے۔

س: ریڈیو پر پہلا پروگرام کون سا ملا؟

ج: مجھے اُس وقت کے کاشت کاروں کے مقبول پروگرام’’ خلقی کچاری‘‘ کا حصّہ بنایا گیا اور ایک کسان کے طور پر بولنے کے لیے اسکرپٹ دیا گیا۔ مجھے پروگرام سے زیادہ اُس وقت خوشی ہوئی، جب 175روپے کا چیک ملا، کیوں کہ بے روزگار ہونے کی وجہ سے پہلے کبھی ایک سو روپے کا نوٹ اپنا ہوا ہی نہیں تھا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... عکّاسی: رابرٹ جیمس
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... عکّاسی: رابرٹ جیمس

س: ٹی وی تک رسائی کیسے ہوئی؟

ج: ریڈیو ہی کے کچھ دوست اسٹیج ڈراما کرتے تھے۔ اُنہوں نے مجھے اسٹیج پر اداکاری کی دعوت دی، جو مَیں نے بخوشی قبول کرلی۔ اُس براہوی اسٹیج ڈرامے کا نام تھا’’دیر خواجہ دیر نوکر‘‘ اور اُس کے مہمانِ خصوصی، جی ایم پی ٹی وی، کریم بلوچ تھے۔

ڈراما ختم ہونے پر ہال میں موجود افراد نے میری اداکاری کی تعریف کی، جب کہ کریم بلوچ نے مجھے اگلے روز ٹی وی آنے اور ملاقات کرنے کو کہا۔ جب مَیں ٹی وی اسٹیشن میں اُن سے ملا، تو اُنہوں نے دفتر میں موجود پروڈیوسر رشید شہزاد اور ممتاز چنگیزی سے ملوایا اور ڈراموں میں کاسٹ کرنے کی ہدایات جاری کیں اور پھر اُسی روز مجھے خاکوں میں ادکاری کے لیے اسکرپٹ دے دیا گیا۔

س: اُس زمانے میں تو اِس شعبے میں آنے کی اجازت کم ہی ملتی تھی، آپ کے ساتھ کیا معاملہ رہا؟

ج: یہ بات درست ہے۔ کافی عرصے تک ٹی وی میں کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لڑکیوں کی طرح لڑکوں کو بھی باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی اور مَیں نے بھی اپنے والد سے باقاعدہ اجازت لی۔ لیکن اُنہوں نے اداکاری کے لیے صاف ستھرے ماحول اور اچھی دوستیاں رکھنے کی تاکید کی۔

س: کِن ٹی وی ڈراموں سے اداکاری کا آغاز کیا؟

ج: براہوی خاکوں کے پروگرام’’راست راست دروغ‘‘ سے ابتدا کی۔ اس کے بعد پشتو زبان میں ایک سیریل’’ سائے‘‘ کے نام سے کیا۔ اداکار جمال شاہ اور فریال گوہر کے ساتھ اداکاری کی۔ طارق معراج کے اردو ڈرامے’’ امر بیل‘‘ کا حصّہ بنا۔

پروڈیوسر طارق معراج مجھے قبول کرنے کو تیار نہیں تھے اور ڈرامے کے رائٹر، ظفر معراج کو بار بار کہتے۔’’ مَیں یہ رِسک نہیں لے سکتا‘‘، جس پر ظفر نے کہا کہ’’ مَیں نے رفیق ہی کو ذہن میں رکھ کر یہ کردار تخلیق کیا ہے۔‘‘جب ڈراما چلا، تو ہر طرف میری اچھی اداکاری کی تعریف ہوئی، اس پر پروڈیوسر نے مجھے گلے لگا کر اپنے اندازوں کی غلطی تسلیم کی۔

س: اب تک کتنے اردو، بلوچی، پشتو اور براہوی ڈرامے کرچُکے ہیں؟

ج: اندازاً دوسو سے زائد سیریلز، لانگ پلے اور مختصر دورانیے کے ڈرامے کرچُکا ہوں۔

س: اپنے چند مشہور ڈراموں کے نام بتائیں گے؟

ج: ان میں چاکرِ اعظم، بخت نامہ، اعتراف، مدار، ایک رات کی کہانی، ارتعاش، تلاش، بخت ہزاری اور دیگر شامل ہیں۔

س: کیا نجی چینلز کے لیے بھی ڈرامے کیے؟

ج: جی ہاں، پروڈیوسر منظور مگسی کے ساتھ’’ لیاری ایکسپریس‘‘ کیا۔ جیو کے لیے مہمان اور بابا کے دیس میں اداکاری کی، پروڈیوسر عبداللہ بادینی کے ساتھ کچرا کنڈی کیا، لاہور میں راشد قریشی کے ساتھ ڈراما کیا۔

س: کِن بڑے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کا موقع ملا؟

ج: افضال احمد، قوی خان، شبّیر جان، سہیل اصغر، فیصل قریشی، اورنگ زیب لغاری، لیلیٰ زبیری، عذرا آفتاب، حسّام قاضی، ایّوب کھوسو، قادر حارث، مونا جونیجو، ذوالقرنین حیدر اور بہت سے دیگر فن کاروں کے ساتھ کام کے مواقع ملے۔

س: متاثر کس سے ہوئے؟

ج: قومی خان کے رویّے اور حوصلہ افزائی کے انداز نے بے حد متاثر کیا، جب کہ پروڈیوسر دوست محمّد گشکوری کے کام لینے، سمجھانے کا طریقہ انوکھا تھا۔

س: کوئی یادگار کردار؟

ج: ایک براہوی سیریل میں مجھے حوالدار پنجہ خان کا کردار دیا گیا، جسے مَیں نے پنجابی لہجے میں کیا، تو اُس وقت کے جی ایم نے مجھے بُلا کر اپنی جیب سے پانچ سو روپے انعام دیا۔

س: کوئی کردارمشکل بھی لگا؟

ج: ایک اداکار کے لیے سارے ہی کردار مشکل ہوتے ہیں کہ اُس نے اس کردار کی چال ڈھال، گفتگو، گویا تمام پہلو سامنے رکھ کر اپنا کام پیش کرنا ہوتا ہے، جو اُس کی اپنی روز مرّہ زندگی اور عادات کے خلاف ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک ہیروئنچی کا کردار ملا، جس کے لیے ایک ہیروئنچی کو پیسے دے کر کئی دنوں تک اپنا دوست بنایا۔ 

اُس سے اس نشے سے متعلق معلومات لیں، اُس کے احساسات و جذبات کو سمجھا، اُس کے بہت سے پچھتاووں کو اپنے کردار کے ذریعے بیان کیا۔ یہ کام مشکل تھا، مگر میری محنت اور اس کردار سے دل چسپی نے اس ڈرامے کو امر کردیا۔

س: کوئٹہ سے بڑے ڈرامے ہوئے، ممتاز اداکار بھی سامنے آئے، لیکن اُن کی پہچان مُلکی سطح پر کم ہی رہی؟

ج: دراصل بلوچستان کے اداکاروں سمیت مختلف شعبوں کے باصلاحیت افراد کو ماضی میں مین اسٹریم میڈیا میں وہ جگہ نہیں ملی، جس کے وہ حق دار تھے۔

س: پی ٹی وی کے اداکاروں کی یہ عام شکایت کیسے ختم ہوسکتی ہے؟

ج: پی ٹی وی سمیت سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں باصلاحیت افراد کی ناقدری سے مایوسی پھیل رہی ہے اور اس رویّے سے وہ ادارے خُود بھی تباہ ہورہے ہیں، اب ان کی کارکردگی بھی ناقص کہلاتی ہے۔

س: اب تک کون کون سے ایوارڈز حاصل کرچُکے ہیں؟

ج: حکومتِ پاکستان نے تمغۂ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی اور ریڈیو سے بھی متعدّد ایوارڈز ملے۔ نیز، ڈرامیٹک سوسائٹی اور کئی فیسٹیولز میں بھی مختلف اعزازات میرے نام ہوئے۔

س: ویسے آپ کو تو کراچی، لاہور یا اسلام آباد جیسے بڑے شہر میں ہونا چاہیے تھا؟

ج: مَیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریٹائر ہوا ہوں۔ سروس کے دَوران مَیں نے مشروط اداکاری کی، یعنی پروڈیوسرز سے طے کرتا کہ ڈیوٹی اوقات میں وقت نہیں دے سکتا۔ دفتر سے چھٹّی کے بعد شام میں ریہرسل اور ریکارڈنگز کرتا تھا۔ دوسری اہم بات، بڑے شہروں میں جانے کے لیے مالی طور پر بیک گراؤنڈ مستحکم ہونا چاہیے یا پھر مسلسل کام کی ضمانت ہو، تو پھر سوچا جاسکتا ہے۔ 

پاکستان کے کئی بڑے اداکاروں اور فن کاروں کی کسمپرسی کی داستانیں سُن کر مجھ جیسا شخص دوسرے شہر جانے کا احمقانہ فیصلہ کرہی نہیں سکتا، اگرچہ وہ صوبے ہر لحاظ سے بڑے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کو بھی بڑا ہونا چاہیے اور یہاں کے باصلاحیت افراد کو ان کے شعبوں میں مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔ مجھے پشتو اور اردو فلمز میں کام کی دعوت دی گئی، مگر مالی مسائل اور مشکلات کی وجہ سے معذرت کرتا رہا۔

س: اِس شعبے میں آپ کے شاگرد بھی ہیں؟

ج: جنہیں مَیں نے متعارف کروایا، ایک طرح سے وہ میرے شاگر ہی ہوئے۔ اداکار جاوید جمال اور عُمر فاروق جیسے چند دوسرے نوجوان بھی مجھے استاد کا درجہ دیتے ہیں، یہ اُن کی محبّت ہے، وگرنہ مَیں تو خُود ابھی تک سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

س: کتنی زبانیں بول لیتے ہیں؟

ج: اردو، انگریزی، بلوچی، براہوی، پشتو اور تھوڑی بہت فارسی بھی بول لیتا ہوں۔

س: اداکاری کے دَوران کبھی کوئی دل چسپ واقعہ پیش آیا؟

ج: کئی۔دو دل چسپ واقعات سناتا ہوں۔ ایک مرتبہ ریکارڈنگ میں وقفے کے دوران اُسی گیٹ اَپ میں گھر چلا گیا، تو مَیں جیسے ہی گھر داخل ہوا، والد نے کمرے سے مجھے دیکھ لیا اور بندوق اُٹھا کر مجھے للکارتے ہوئے صحن میں نکل آئے۔ مَیں نے فوراً اپنی شناخت کروائی۔ اس پر والد بہت ناراض ہوئے۔ اُنہوں نے کہا۔’’ مجھے تم کوئی اجنبی مرد لگے۔ اچھا ہوا مَیں نے فائر نہیں کھولا۔‘‘

اِسی طرح ایک مرتبہ گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے اور مَیں گھر کی چابیاں ساتھ لے کر ٹی وی اسٹیشن آ گیا تھا۔ مجھے گیٹ سے پیغام ملا کہ آپ کے والد صاحب گیٹ پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں، مَیں اُس وقت ایک بوڑھے شخص کے گیٹ اَپ میں تھا، اِسی طرح گیٹ پر پہنچ کر مَیں نے سلام کیا، تو والد صاحب نے کہا۔’’بابا جی! ایک مہربانی کریں، اندر سے رفیق شاد کو بُلائیں یا اُن سے گھر کی چابیاں لے آئیں۔‘‘ مَیں نے چابیاں اُن کے حوالے کیں،تو اُنہوں نے کہا’’ شُکریہ بابا۔‘‘ میں نے کہا کہ’’ بابا مَیں رفیق ہوں۔‘‘اس پر وہ’’ بے شرم…‘‘ کہہ کر چل گئے۔

س: کیا مزاحیہ اداکار آپ کی طرح سنجیدہ بھی ہوسکتے ہیں؟

ج: مَیں نے صرف مزاحیہ کردار نہیں، ورسٹائل رولز کیے ہیں۔ دراصل قوم دُکھ، تکلیف میں ہے، وہ ہنسنے مسکرانے، قہقہے لگانے کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے، تو ہم جیسے فن کار یہ مواقع فراہم کرتے ہیں، لیکن جب ہمیں بھی خوش گوار ماحول میسّر نہیں ہوتا، تو ہم بھی سنجیدہ، اداس ہو جاتے ہیں۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج: جب کھانا چاہتے تھے، یہ پکوان نصیب نہیں تھے، اب اللہ کی مہربانی سے بہت کچھ کھانے کو میسّر ہے، مگر طرح طرح کے پرہیزوں کا سامنا ہے۔

س: جب لوگ محبّت سے ملتے ہیں، تو کیسا محسوس ہوتا ہے؟

ج: زندہ رہنے کا احساس ہوتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اسکرین سے زیادہ عرصہ دُور نہیں رہنا چاہیے کہ اس گہماگہمی کے دَور میں کسی کو اجنبی بنتے دیر نہیں لگتی۔ جیسا کہ نئی نسل اسکرین سے غائب اپنے بہت سے زندہ لیجنڈز کو بھول چُکی ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید