بلوچستان اپنے محلِ وقوع کے باعث ہر دَور ہی میں دفاعی اعتبار سے اہمیت کا حامل خطّہ رہا ہے، یہاں تک کہ عالمی قوّتوں کی نظریں بھی اِس پر مرکوز رہیں۔ برِصغیر پر برطانوی راج کے دوران دوسری اینگلو افغان جنگ میں، جو 1878ء سے 1880ء تک جاری رہی، افواج کو رسدکی فراہمی کے لیے ریلوے لائن کی ضرورت محسوس کی گئی، تو انگریزحکومت نے سَر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے درّۂ بولان کی دُشوار گزار پہاڑیوں سے سُرنگوں اور پُلوں کے ذریعے ریلوے لائن بچھائی۔
اُس زمانے میں وسائل کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی کے بغیر جو سُرنگیں اور پُل تعمیر کیے گئے، وہ آج کے جدید دَور میں بھی اپنی خُوب صُورتی اور پائے داری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ پہاڑوں، صحراؤں اور میدانوں کی سرزمین، بلوچستان میں ریل کی پٹری بچھانے کا آغاز 16 اکتوبر 1879ء کو ہوا اور لگ بھگ 30 ہزار مزدوروں نے سنگلاخ پہاڑوں کاسینہ چاک کرکے سُرنگیں اورپُل تعمیر کیے، جو کسی شاہ کار سے کم نہیں۔
بلوچستان میں ریلوے سیکشنز کو پانچ مراحل میں مکمل کیا گیا۔ یہ سیکشنز ڈیرہ اللہ یار سے سبّی، ہرنائی اور بوستان تک، مَچ سے کوئٹہ تک جب کہ کوئٹہ سے افغانستان کے سرحدی شہر، چمن اور ایران کے شہر، زاہدان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک نیرو گیج لائن بوستان سے ژوب تک بچھائی گئی تھی، لیکن یہ سیکشن گزشتہ کئی دہائیوں سے غیرفعال ہے۔
بلوچستان کے ریلوے نظام میں بولان سیکشن اور کوئٹہ سے چمن جاتے ہوئے خوجک ٹنل قابلِ ذکر ہیں، جب کہ کوئٹہ تا سبّی ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے بولان کے پہاڑوں میں17 سُرنگیں اور 396 چھوٹے بڑے آہنی پُل تعمیر کیے گئے، جو تقریباً ڈیڑھ صدی بیت جانے کے باوجود بھی اس ریلوے لائن کو سنبھالے ہوئے ہیں، جس سے روزانہ سیکڑوں افراد مستفید ہوتے ہیں۔ اس سیکشن میں 8 ریلوے اسٹیشنز کو بند کر دیا گیا ہے۔ ماضی میں یہاں اکثر کسی مسافر ٹرین کو دوسری ٹرین کے ساتھ کراسنگ کے لیے روکا جاتا تھا۔
ریلوے ٹریفک کا بوجھ کم ہونے کی وجہ سے ان اسٹیشنزکوبند کیا گیا، جسے ریلوے کی اصطلاح میں ’’بلاک ہٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان اسٹیشنزمیں ناڑی بینک، وسیپور، گڈالر، کوہسار، لالاجی، چدرزئی، سربولان اور کوریڈور اسٹیشن شامل ہیں اور زیادہ تر اسٹیشنز پنیر اور پیشی اسٹیشن کے درمیان واقع ہیں۔ اِسی طرح گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کوئٹہ سے دیگر صوبوں کو جانے والی متعدد مسافر ٹرینز اور مال بردار گاڑیاں بھی بند کردی گئی ہیں۔
یہ مسافر بردار ریل گاڑیاں نہ صرف پاکستان ریلویز کے لیے انتہائی منافع بخش تھیں، بلکہ مسافروں کو سَستے سفر کی سہولت بھی فراہم کررہی تھیں، جب کہ مال بردار گاڑیوں سے محفوظ طریقے سے دیگر صوبوں میں سامان کی ترسیل ممکن ہوتی تھی۔
واضح رہے کہ ان منافع بخش ریلوے رُوٹس کی بندش کا سبب محکمے میں پائی جانے والی ہوش رُبا کرپشن ہے اور اِسی کے نتیجے میں یہ ادارہ تباہی کےدہانے پر پہنچا۔ حالاں کہ اگر صرف بلوچستان ہی میں مختلف سیکشنز کو اَپ گریڈ کیاجائے، توعوام کی اکثریت ریل کے ذریعے ہی سفر کو ترجیح دے گی۔
یہ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہر حکومت نےصرف کوئٹہ، سبّی ریلوے سیکشن ہی پر اکتفا کیا اور بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے کے لیے متبادل منصوبوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ اِس وقت کوئٹہ، سبّی سیکشن پر بنائی گئی 17سُرنگیں اپنی طبعی عُمر پوری کر چُکی ہیں اور ان میں سے بعض سُرنگوں میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں، جب کہ کسی بھی سُرنگ کے منہدم ہونے کی صُورت میں ٹرین سروس بند ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ سیکشن کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر سندھ، پنجاب اور خیبرپختون خوا کا سفر کرتے ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان میں امن و امان کی ناقص صورتِ حال کے باعث درّۂ بولان مسلسل دہشت گردی کی زد میں ہے اور کئی مرتبہ ریلوے ٹریکس اُڑانے کے باعث کئی ماہ تک ٹرین سروس معطل بھی رہی، جب کہ اگست 2022ء میں سیلاب کے باعث پُل ٹوٹنے کے نتیجے میں بلوچستان کا ریلوے کے ذریعے دیگرصوبوں سے رابطہ کئی ماہ تک منقطع رہا۔
گرچہ پاک، چین اقتصادی راہ داری کے تحت گوادرتک ریلوے لائن کی تنصیب کے منصوبے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، لیکن یہ ایک طویل المدّتی منصوبہ ہے، اگر اِس کی بجائے قلیل مدّت میں بلوچستان میں ریلوے کے مختلف ٹریکس کو اَپ گریڈ کر دیا جائے، تو یہ ریلوے کی آمدن بڑھانے اور مُلکی معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کوئٹہ، ژوب تا ڈیرہ اسماعیل خان ریلوے ٹریک کی تنصیب
کوئٹہ، سبّی ریلوے ٹریک کی خستہ حالی اور امن وامان کی ناقص صورتِ حال کے پیشِ نظر صوبے کے عوام کو سفر اور تجارت کی سَستی سہولت فراہم کرنے کے لیے متبادل ریلوے سیکشنز کی تعمیر ناگزیر ہے۔ تاہم، مختلف ادوار میں پاکستان ریلویز کے وزرا نے اس محکمے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ مثال کے طور پر ایک وفاقی وزیرِ ریلویز نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’ریل بند بھی ہوگئی تو کیا ہوگا۔
ہم سایہ مُلک، افغانستان میں بھی تو ریل سروس نہیں ہے۔‘‘ 2004ء میں ریلوے کے ایک اعلیٰ افسر کو بلوچستان کی ریلوے لائن کےسروے کی ذمّے داریاں تفویض کی گئی تھیں اور اُنہوں نے اپنی رپورٹ میں گوادر سے بذریعہ خاران، دالبندین تک ریلوے لائن بچھانے اور پھر بوستان، ژوب ریلوے ٹریک کی تعمیرِ نو کی تجویزدی تھی۔
بعدازاں، دالبندین کی بجائے خضدار سے مستونگ تک ٹریک کی تجویز دی گئی۔ ریلوے کے ماہرین کے مطابق ژوب کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان تک ریلوے ٹریک کی تعمیر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر کسی وقت کوئٹہ، سبّی سیکشن پر ٹرین سروس بند کرنا پڑی، تو بلوچستان کو ریلوے کے ذریعے مُلک کے دیگر حصّوں سے منسلک رکھنے کے لیے متبادل راستہ موجود ہوگا اور اس ٹریک کی تنصیب کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس ٹریک کے آس پاس ریلوے کی اپنی اراضی، اسٹیشنز اور دیگر سہولتیں موجود ہیں۔
1929ء میں مکمل ہونے والی بوستان تا ژوب نیرو گیج ریلوے لائن 1985ء میں خسارے میں چلنے والا ٹریک قرار دے کر بند کردی گئی۔ اُس وقت کے ڈی ایس نے ہیڈ کوارٹرز کو یہ تجویز بھجوائی تھی کہ کراچی تا لاہور مین لائن پر تبدیل کی جانے والی 80 پاؤنڈ کی ریلوے کی پٹری اُنہیں بھجوائی جائے۔ اُن کے پاس افرادی قوّت اور انفرااسٹرکچر موجود ہے اور وہ اس نیروگیج کو براڈ گیج میں تبدیل کردیں گے، لیکن اُن کی تجویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
حالاں کہ 1920ء میں جب بوستان، ژوب ریلوے لائن تعمیر کی گئی، تو محدود وسائل کے باعث ہر ریلوے اسٹیشن پر کاریزات کے مقامی مالکان سےمعاہدہ کیا گیا اور کئی کلومیٹر طویل لوہے کی پائپ لائنز بچھا کر اُن مقامات تک پانی پہنچایا گیا کہ جہاں ریلوے اسٹیشن تعمیر کی جانی تھیں۔ پھر اس پانی کی مدد سے کچّی اینٹیں بنائی گئیں اور ان سےاسٹیشنز کی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔
خنائی اور زرغون سمیت دیگر ریلوے اسٹیشنز پر لوہے کی پائپ لائنز اور ٹیوب ویلز اب بھی موجود ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے باقاعدہ عملہ بھی مامور ہے۔ وفاقی حکومت اگر کوئٹہ، ژوب ریلوےٹریک بحال کرنا چاہتی ہے، تو ایک بار پھر ان پائپ لائنز اور ٹیوب ویلز کو فعال کر کے اسٹیشنز کی عمارات تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ یوں ٹریک کی تعمیر پر آنے والی لاگت بھی کم ہوجائے گی۔ نیز، اس ٹریک کو ڈیرہ اسماعیل خان تک توسیع دے کر بولان سیکشن کے متبادل کاانتظام بھی کیا جاسکتا ہے۔
کوئٹہ، دالبندین ریلوے لائن
ریکوڈک کی اہمیت کے پیشِ نظر دالبندین، کوئٹہ ریلوے لائن کی افادیت مزید بڑھ چُکی ہے۔ یہ ریلوے لائن نہ صرف زائرین کی آمدورفت بلکہ ریکوڈک سے مال کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس ریلوے ٹریک کی اہمیت کے پیشِ نظر ہی چند ماہ قبل وزیرِاعظم، میاں شہباز شریف نے ریکوڈک سے گوادر بندر گاہ تک ریل روڈ نیٹ ورک کی فزیبیلٹی کے حوالے سے حکمتِ عملی بنانے کی ہدایت کی تھی۔
اس موقعے پر ریکوڈک کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں بیرک گولڈ کمپنی کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر، مارک برسٹوو نے وفد کے ساتھ شرکت کی تھی۔ دورانِ اجلاس وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ ’’بلوچستان میں معدنیات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے مواصلات کے انفرااسٹرکچر خصوصاً ریلوے لائن کے حوالے سے منصوبہ سازی کی جائے گی۔‘‘
واضح رہے کہ گوادر ریلوے لائن کے ذریعے ریکوڈک سے بندرگاہ تک رسائی آسان اور کم وقت میں ہوگی اور بِن قاسم پورٹ کے مقابلے میں فاصلہ بھی کافی حد تک کم ہوگا۔ نیز، اس نئی ریلوے لائن سے معدنیات سے بھرپور ضلع چاغی بھی مستفید ہو سکے گا اور کان کَنی کی صنعت کو بھی فروغ ملے گا۔
سبّی تا ہرنائی ریلوے لائن
1883ء میں ہرنائی اور دیگر علاقوں کے فلک بوس پہاڑوں کو کاٹ کر سبّی تا ہرنائی ریلوے لائن کا حیرت انگیز منصوبہ بنایا گیا اور پھر 1948ء میں باقاعدہ سبّی، ہرنائی، ناکس شاہ رگ اور خوست سمیت بوستان اور ژوب تک تین سو کلومیٹر طویل ترین ریلوےلائن کو تاریخی اہمیت کا حامل بنادیا گیا۔ اس منصوبے نے دُنیا کے مایہ ناز انجینئزر کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اس ٹریک پر کئی دہائیوں تک ٹرینز رواں دواں رہی۔
اس سیکشن کے ذریعے ہزاروں ٹن کوئلہ اور زرعی اجناس بھی دیگر صوبوں کو منتقل کی جاتی تھیں۔ ریلوے ذرائع کے مطابق 2006ء سے قبل سبّی، ہرنائی ریلوے سیکشن میں ٹرین سروس میں ماہانہ 2000 سے 2500 تک مال گاڑی کی بوگیاں لگائی جاتی تھیں، جن میں کوئلہ، پھل، سبزیاں و دیگر اشیاء لدی ہوتی تھیں اور ان سے سالانہ اربوں روپے کی آمدن ہوتی تھی۔
تاہم، نائن الیون کے بعد چوں کہ بلوچستان مسلسل دہشت گردی کی زد میں رہا، تو تخریب کاری کی وارداتوں ہی کے نتیجے میں پانچ بڑے اور متعدّد چھوٹے پُل اور ٹریکس تباہ ہونے کے بعد سے یہ ٹرین سروس معطل ہوگئی۔ واضح رہے، اِس سیکشن پر سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان سبّی، بھاگ، شاہرگ، ناڑی، ناکس، بابر کیچ، اسپن تنگی، کھوسٹ اور دیگر اسٹیشنز واقع ہیں۔
بعدازاں، 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونی والے وفاقی و صوبائی حکومتوں اورخاص طور پر اُس وقت کے وزیرِ ریلوے، خواجہ سعد رفیق کی خصوصی دِل چسپی سے اس سیکشن کی بحالی کا کام شروع کیا گیا، جو 2017ء میں تقریباً مکمل ہوگیا تھا، لیکن پھر سیکیوریٹی مسائل کی وجہ سے یہ ٹرین سروس شروع نہیں ہوسکی۔
پھر اگست 2023ء میں اس ریلوے ٹریک پر ٹرین سروس کا دوبارہ آغاز کیا گیا، جس سے سبّی اور ہرنائی کے لاکھوں شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، لیکن صرف ایک سال بعد ہی اگست 2024ء میں شدید بارشوں کےنتیجے میں ریلوے ٹریک پانی میں بہہ جانے کے باعث یہ ٹرین سروس دوبارہ بند ہوگئی۔
اس سیکشن کی بندش سے زمیں داروں سمیت لاکھوں افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اگر اس ریلوے ٹریک کی معیاری تعمیر و مرمّت کر کے اسے دوبارہ فعال کیا جائے، تو نہ صرف یہاں سے زرعی اجناس دیگر صوبوں تک پہنچائی جاسکیں گی بلکہ اس سےپاکستان ریلویزاور صوبۂ بلوچستان کو بھی مالی طور پر خاصا فائدہ ہوگا۔
کوئٹہ تا چمن ریلوے سیکشن
کوئٹہ سے چمن ریلوے ٹریک کی اپنی اہمیت اور خُوب صُورتی کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں۔ برطانوی دَورِ حکومت میں اینگلوافغان جنگ کے دوران جنگی ساز و سامان اور کوئلے کی ترسیل کے لیے کوئٹہ تا چمن مختلف ریلوے اسٹیشنز بنائےگئے تھے، جنہیں بعد میں تجارتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ اسی سیکشن میں ’’شیلا باغ سُرنگ‘‘ بھی ہے، جس سے ایک حیرت انگیز کہانی بھی منسوب ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ’’شیلا سُرنگ‘‘ کا نام اُس وقت کی مشہور رقاصہ، شیلا سے منسوب ہے۔ دِن بھر پہاڑ کھودنے کی مشقّت کے بعد شام کے وقت عملہ اور مزدور اس شیلا کے رقص سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ دوسری جانب خوجک سُرنگ کی تعمیر کے دوران ایک انجینئر کو گُمان گزرا کہ شاید سُرنگ کی کھدائی غلط سمت میں کی گئی ہے اور پھر اسے اس قدر شدید صدمہ پہنچا کہ اُس نے خود کُشی کرلی۔
تاہم، بعد میں پتا چلا کہ سُرنگ بالکل ٹھیک کھودی گئی تھی۔ اس سُرنگ کی تعمیر 1888ء میں شروع اور 1891ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ ایک عرصے تک کوئٹہ تا چمن ریلوے سیکشن پر پبلک پرائیوٹ سسٹم کے تحت مسافر ٹرین چلائی جاتی رہی اوراب محکمہ ریلوے کے تحت ہفتے میں دو روز یہ ٹرین چلتی ہے۔ چند برس پہلے تک یہ ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بَھری ہوتی تھی، لیکن اب جدید گاڑیوں کے باعث اس ٹرین میں مسافروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
اگر ریلوے حُکّام چمن مسافر ٹرین کو پشین سے کوئٹہ اور پھر کراچی تک وسعت دیں، تو یہ سیکشن انتہائی منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے،کیوں کہ چمن اور پشین سے روزانہ سیکڑوں افراد کاروبار کے سلسلے میں کراچی کا سفر کرتے ہیں، جب کہ کوئٹہ، کراچی قومی شاہ راہ یک رویہ ہونے کی وجہ سے خونی شاہ راہ میں تبدیل ہوچُکی ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں ہر سال اتنے لوگ دہشت گردی کی بھینٹ نہیں چڑھتے، جتنے اس شاہ راہ پر ٹریفک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا، اس ریلوے ٹریک کے ذریعے نہ صرف مسافروں کو سَستےاورمحفوظ ترین سفر کی سہولت میسر آئے گی بلکہ ریلوے کوبھی خطیر ریونیو ملےگا۔ اِسی طرح بلوچستان بَھر میں اورخاص طور پر کوئٹہ میں ریلوے کی قیمتی اراضی موجود ہے اور اگر اُن پر ہوٹلز، دُکانیں اور ریسٹ ہاؤسز تعمیر کردیے جائیں، تو ان سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔