’’ ابتدا ہے ربِّ ذوالجلال کے بابرکت نام سے، جو دِلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں اور سُنتے کانوں کو طارق عزیزکا سلام پہنچے۔‘‘ یہ مخصوص جملہ منفرد آہنگ کے ساتھ ستّر کے وسط اور اَسّی کے ابتدائی عشرے میں ہر ہفتے پی ٹی وی کے ناظرین’’ نیلام گھر‘‘ کی ابتدا میں لوگوں کے دِلوں میں گھر کر جانے والے میزبان، طارق عزیز کے لبوں سے سُننے کے شائق ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم اسکرین پر اپنی پہچان بنانے والے، طارق عزیز جالندھر، مشرقی پنجاب(بھارت) میں 28اپریل 1936ء کو ایک آرائیں خاندان میں پیدا ہوئے۔
والد میاں عبدالعزیز مسلم لیگ کے اس حد تک پُرجوش کارکن تھے کہ 1936ء میں اپنے نام کے ساتھ’’پاکستانی‘‘ کا لاحقہ لگا لیا اور یوں’’ میاں عبدالعزیز پاکستانی‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ہر چند کہ وہ سرکاری ملازم تھے، تاہم اخبارات کو روانہ کیے گئے اپنے مضامین میں وہ بلاجھجک’’پاکستانی‘‘ کا لاحقہ لگاتے۔ کسی نے اِس بات کی اطلاع اُن کے انگریز افسر کو دے دی۔
طلبی ہوئی اور افسر نے سخت سرزنش کی۔ پہلے تو صرف اُنہیں ہی بُرا بھلا کہا گیا، تاہم جُوں ہی انگریز افسر نے قائدِ اعظم سے متعلق سخت باتیں کیں، تو میاں عبدالعزیز پاکستانی کا پیمانۂ صبر لب ریز ہو گیا اور بے اختیار ہاتھ اپنے افسر پر اُٹھ گیا۔ ملازمت سے برطرفی کا پروانہ تھامتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ’’مَیں پاکستانی ہوں اور رہوں گا۔‘‘
1947ء میں تقسیمِ ہند کے موقعے پر اُن کا خاندان ہجرت کر کے ضلع ساہی وال(پنجاب) پاکستان میں آ بسا۔والد نے وہاں سے ایک پرچہ بھی جاری کیا اور اُسے اپنی تخلیقی نگارشات سے نوازنے والوں میں مجید امجد اور منیر نیازی بھی شامل تھے۔ وہ صرف اپنی نگارشات ہی نہیں بھیجتے، بلکہ پرچے کے مدیر سے بنفسِ نفیس ملاقات کے لیے بھی آیا کرتے۔
جب یہ لوگ دفتر میں موجود ہوتے، تو کم سِن طارق عزیز اُن کے لیے چائے، بسکٹس لانے کی خدمت انجام دیا کرتے، یوں غیر محسوس طور پر وہ ادب و شاعری کے دِل دادہ ہوتے چلے گئے۔یہیں طارق عزیز نے ثانوی تعلیم کے مدارج طے کیے۔
میاں عبدالعزیز کی دِلی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا وکالت پڑھے اور محمّد علی جناح کی طرح بیرسٹر بنے۔ پچاس کا عشرہ تھا کہ طارق عزیز کا گھرانہ ساہی وال (قبل ازیں منٹگمری) سے لاہور چلا آیا۔ لاہور میں زندگی کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ کچھ مدّت تک رہنے کو چھت میسّر نہ آ سکی، سو خانہ بدوشی سے ہم آغوشی رہی۔ ساہی وال میں اُن کی دوستی مہدی حسن سے ہوئی، جو تادمِ آخر جاری رہی۔ مہدی حسن آگے چل کر تعلیمی میدان میں اپنی منفرد شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔
تدریس سے وابستگی اختیار کرنے والے مہدی حسن نے صحافت کے موضوع پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔ پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں ریڈیو ابلاغ کا پُراثر اور طاقت وَر ذریعہ تصوّر کیا جاتا تھا۔ ریڈیو کے فن کار، ڈراما آرٹسٹ اور اناؤنسرز گھر گھر جانی پہچانی شخصیات ہوا کرتے۔
سو، ساٹھ کا عشرہ طارق عزیز کے لیے خوش بختی کا حامل قرار پایا کہ اُس عشرے کی ابتدا یعنی 1961ء میں اوّل ریڈیو پر بحیثیت اناؤنسر کام کا آغاز کیا اور مشاہرہ ایک سو پچاس روپے ماہ وار طے پایا۔
خوش بختی یہ نہیں تھی کہ ریڈیو سے بحیثیت اناؤنسر وابستگی ہو گئی، بلکہ نصیب یوں کُھلے کہ مصطفیٰ علی ہمدانی جیسے براڈ کاسٹر کی صُحبت نصیب ہوئی۔
وہی مصطفیٰ علی ہمدانی، جو ریڈیو پاکستان، لاہور کے پہلے اناؤنسر قرار پائے اور جنہوں نے ایک نئی مملکت کے لیے اعلانِ آزادی نشر کیا۔یوں مصطفیٰ علی ہمدانی کے زیرِ سایہ طارق عزیز رفتہ رفتہ براڈ کاسٹنگ کے اسرار و رُموز سے واقف ہوتے چلے گئے۔
طارق عزیز کی مزید معاونت کے لیے منجھے ہوئے براڈ کاسٹرز، اخلاق احمد، عزیز احمد، مظفّر حسین بھی رفیقِ کار کی حیثیت سے موجود تھے۔ سو، قدرت نے جب کندن بننے کا پورا پورا موقع نہایت فیّاضی سے فراہم کر دیا، تو طارق عزیز نے بھی اُسے اپنے حق میں استعمال کرنے کے سلسلے میں ذرّہ برابر تامّل نہ کیا۔ لہجے کا زیر و بم، الفاظ کی نشست و برخاست، تلفّظ کی دُرستی، اشعار کا برمحل استعمال یہ سب کچھ استاد سے تو ضرور ملا، تاہم طارق عزیز نے ان تمام ضروریات کو اپنی ذہانت سے چار چاند لگا دیئے۔
26نومبر 1964ء کو ایّوب خان کی حکومت نے’’ پاکستان ٹیلی ویژن‘‘ کا آغاز کیا، تو کسی کو بھی ٹی وی نشریات کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں تھا۔ اسلم اظہر کی خداداد ذہانت نے بہت سی مشکلات آسان کر دیں۔ رات دن ایک کر کے اُنہوں نے آزمائشی اور تربیتی معاملات سُلجھائے اور نشریات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اسلم اظہر تیکنیکی اُمور ہی تک محدود نہ تھے، بلکہ اُن کی عقابی نظریں کیمرے کے پیچھے اور سامنے آکر کام کرنے والوں کو یک ساں طور پر پہچانتی تھیں۔ اُنہیں ایک ایسا پُراعتماد، خوش لہجہ اور خوش شکل انسان درکار تھا، جو پی ٹی وی کی اوّلین براڈ کاسٹنگ کا بظاہر آسان، تاہم انتہائی مشکل کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکے اور اِس کام کے لیے اُنہیں طارق عزیز سے بہتر کوئی اور شخص نظر نہیں آیا۔
وہ طارق عزیز کی غیر معمولی صلاحیتوں سے واقف تھے اور اُنہیں یقینِ کامل تھا کہ اُنہوں نے جس شخص کا انتخاب کیا ہے، وہ دُرست ہے۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ طارق عزیز کی زندگی پر لازوال اثرات رکھنے والے مصطفیٰ علی ہمدانی ریڈیو پاکستان، لاہور کے پہلے اناؤنسر قرار پائے اور اُن کے زیرِ اثر کام کرنے والے طارق عزیز نے ایک نئے نشریاتی ادارے کے پہلے اناؤنسر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ پی ٹی وی پر اناؤنسر کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے آنا گویا راتوں رات طارق عزیز کو مقبولیت کی نئی حدوں تک لے گیا۔
قبل ازیں، وہ ریڈیو پر بھی اپنی شناخت قائم کرنے میں کام یاب ہو چُکے تھے، تاہم پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز اور اُس کے پہلے اناؤنسر کے طور پر اُن کی گفتگو پورے مُلک میں گفتگو کا عنوان یوں قرار پائی کہ ریڈیو پر محض صدا کاری کے ذریعے ہی تاثّر قائم کیا جاسکتا تھا، مگر پی ٹی وی نے اداکاری کا ایک وسیع میدان فراہم کر دیا، جہاں آواز، شکل و صُورت، لباس کی وضع قطع اور طریقِ نشست و برخاست کسی بھی شخص کو جانچنے کا پیمانہ قرار پایا۔پی ٹی وی کے آغاز میں روزانہ شام چھے سے نو بجے کی براہِ راست نشریات ہوا کرتیں۔
پیر کے روز تعطیل ہوتی اور روزانہ نشریات کے اختتام پر اگلے دن کی نشریات کی تفصیل کا اعلان ہوتا۔ اِس بات کی مشق کروائی جاتی کہ اگر اچانک بجلی چلی جائے، تو کیا کرنا ہو گا؟ ناظرین سے معذرت کس طرح کی جائے گی؟ کسی اچانک رُونما ہونے والی مشکل صُورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے گا؟ طارق عزیز اِن تمام مراحل سے بحُسن و کمال یوں گزر جاتے کہ گویا مدّتوں سے یہی کچھ کرتے آ رہے ہوں۔ اُن کے پاس الفاظ کا خزانہ تو تھا ہی، ساتھ ہی خُوب صُورت اور بر محل اشعار یوں شامل کر دیتے کہ سُننے والوں پر عجب تاثر قائم ہوجاتا۔
ریڈیو اور ٹی وی پر مصروفیات تو جاری تھیں ہی، مگر یہی وہ عشرہ بھی تھا کہ طارق عزیز نے وحید مُراد اور زیبا کے ہم راہ’’ انسانیت‘‘ نامی فلم سے اپنی فلمی زندگی کا بھی آغاز کیا۔ یہ فلم 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ جن دوستوں کے ساتھ اُن کا اُٹھنا بیٹھنا تھا، وہ سماجی اور انقلابی رجحانات رکھنے والے تھے۔ ابتدائی تربیت اور ادبی نشست و برخاست کے باعث طارق عزیز بھی خود کو سماجی و انقلابی حلقے ہی کے نزدیک پاتے۔ مُلک میں اُن دنوں سیاسی درجۂ حرارت بہت بلند تھا۔
ایّوب خان کی حکومت اپنے دامن میں زمانے بَھر کے عیوب جمع کر چُکی تھی اور حکومت کے خلاف لوگوں کا غم و غصّہ عروج پر تھا۔ مُلک کے مشرقی حصّے میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ ناقابلِ تسخیر جماعت کی حیثیت اختیار کر گئی تھی، جب کہ مغربی حصّے میں ذوالفقار علی بھٹّو کی نئی قائم کردہ جماعت پیپلز پارٹی مقبولیت کی سیڑھیاں طے کر رہی تھی۔ ایّوب خان کی حکومت سے علیٰحدہ ہونے والے ذوالفقار علی بھٹّو، مغربی پاکستان میں جلسے جلوس کی نئی تاریخ رقم کرتے دِکھائی دیتے تھے۔طارق عزیز تمام تر تبدیلیوں سے کما حقہ واقف تھے۔
مگر صُورت کچھ یوں تھی کہ ایک طرف سے فلم انڈسٹری نے دامن تھاما تھا، تو دوسری طرف پی ٹی وی کی مصروفیات تھیں۔ تیسری سمت وہ تھی، جہاں اُنہیں پیپلز پارٹی کے جلسے، جلوس اپنے نظریات کے قریب تر نظر آتے۔ چوتھی سمت اُن کی وہ زندگی تھی، جہاں کتابیں اور دوستوں کی صحبتیں تھیں۔طارق عزیز غیر محسوس طور پر ذوالفقار علی بھٹّو کے نزدیک ہوتے جا رہے تھے۔ پی ٹی وی پروگرامز کی معرفت مُلک کے طول و عرض میں معروف تو ہو ہی چُکے تھے، اب بہتر منصب بھی اُن کے ہم رکاب تھا۔
1970ء کا سال مُلک میں عام انتخابات کے انعقاد کی وجہ سے زبردست سیاسی سرگرمیوں میں گِھرا رہا۔ طارق عزیز، پاکستان ٹیلی ویژن سے سینئیر پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ تھے۔23مارچ 1970ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ، پنجاب میں’’ کسان کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہوا۔ وہی ٹوبہ ٹیک سنگھ، جسے برّصغیر کے ممتاز ترین افسانہ نگار، سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ہند کے موضوع پر لکھے جانے والے افسانوں میں سے ایک کا عنوان بنا کر ہمیشہ زندہ رہ جانے والے ادب میں شامل کر دیا۔
کانفرنس کی صدارت مشرقی پاکستان کے رہنما، مولانا عبدالحمید بھاشانی نے کی۔ دیگر ممتاز سیاست دانوں، سماجی رہنماؤں، کسانوں اور مزدور رہبروں کے ساتھ کانفرنس میں ممتازشاعر، فیض احمد فیضؔ نے بھی شرکت کی اور اپنی نظموں سے شرکاء کے ولولوں کو جگایا۔ مُلک کے مشرقی اور مغربی صوبے کی مشترکہ طور پر منعقد ہونے والی’’ کسان کانفرنس‘‘ شاید آخری بھی ثابت ہوئی کہ اُس کے بعد دو ہم سفروں میں ہم نوائی نہ ہونے کے باعث جُدائی کی دائمی خلیج حائل ہو چلی۔ طارق عزیز نے کراچی سے لاہور اور پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ کی راہ لی۔
منتظمین سے درخواست کی کہ پانچ منٹ گفتگو کی اجازت دی جائے۔ اجازت ملی اور طارق عزیز نے اپنی شعلہ نوائی پون گھنٹے تک جاری رکھی۔ واپس کراچی پہنچے، تو اطلاع ملی کہ آپ ملازمت سے برخاست کیے جا چُکے ہیں۔ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ اب کیا کیا جائے کہ ایّوب دَور کے وزیرِ خارجہ رہنے والے ذہین و فطین رہنما، ذوالفقار علی بھٹّو کا فون موصول ہوا کہ مجھ سے ملاقات کرو۔
طارق عزیز خود بھی بھٹّو کے گرویدہ تھے، سو، یوں پاکستان پیپلز پارٹی سے راہ و رسم مزید بڑھ گئی۔1970ء کے انتخابات، جو یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے تحت منعقد ہوئے، طارق عزیز کے لیے ایک خوش گوار سیاسی تجربہ ثابت ہوئے۔ جلسوں سے خطاب، عوام کو متحرّک کرکے پیپلزپارٹی کے منشور کی طرف لانا، یہ سب کام طارق عزیز اپنے جادو بَھرے لب و لہجے اور شخصیت کی دل آویزی کے ساتھ بہت قرینے سے کرتے۔
بدقسمتی سے پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے بد ترین بحران سے دو چار ہوا اور16دسمبر1971 ء میں مُلک کا مشرقی بازو علیٰحدہ ہو کر بنگلا دیش کی صُورت دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹّو کی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ طارق عزیز کے لیے حالات سازگار ہونے لگے کہ بھٹّو سے قُربت رنگ لانے لگی اور پی ٹی وی پر گاہے گاہے آتے رہنا آسان تر ہو گیا۔ تاہم، اس میں بھٹّو سے قُربت کے بجائے طارق عزیز کی اپنی لیاقت، ذہانت اور شخصیت کا عمل دخل زیادہ تھا۔
1974ء میں پی ٹی وی کو ایک اسٹیج شو پیش کرنے کا خیال آیا، جس کا نام ’’ نیلام گھر‘‘ تجویز ہوا۔ پروگرام کی میزبانی کے لیے نظرِ انتخاب ایک بار پھر طارق عزیز کی جانب اُٹھی۔’’نیلام گھر‘‘ کا آغاز ہوا اور طارق عزیز پی ٹی وی پر سکّہ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرگئے۔ ذہنی آزمائش کے اِس پروگرام میں حاضرین سے مختلف عنوانات سے سوالات کیے جاتے اور دُرست جوابات کی صُورت میں قیمتی تحائف اُن کی نذر کیے جاتے۔ سب سے مشکل مرحلہ اور اُس کے سوالات جس قیمتی انعام سے منسوب ہوتے، وہ’’ گاڑی‘‘ تھی۔
یہ مرحلہ مشکل ترین ہوتا اور حاضرین و ناظرین گویا سانس روکے یہ منظر اسکرین پر دیکھا کرتے۔ گاڑی جیتنے پر جتنی خوشی جیتنے والے کو ہوتی، شاید اُتنی ہی دیکھنے والوں کو بھی ہوا کرتی۔
یوں بھی ہوتا کہ محض آخری سوال کا جواب غلط ہونے پر کوئی گاڑی سے محروم رہ جاتا اور محرومی کا یہ دُکھ محض اُسے ہی نہیں ہوتا، دیکھنے والے بھی اُسی قدر رنجیدہ اور آب دیدہ ہو جاتے۔ دراصل یہ سب طارق عزیز کی شخصیت کا کرشمہ تھا۔
’’ نیلام گھر‘‘ کی میزبانی کرتے ہوئے طارق عزیز نے اپنی شخصیت، آواز کی دَل کشی وانفرادیت، خوش لباسی و خوش کلامی سے کام لیتے ہوئے اسٹیج شو کی میزبانی کو یک سَر نیا رُخ اور زاویہ عطا کر دیا۔ موقعے کی مناسبت سے برجستہ اشعار، نیز اشارے کنائے، کبھی خُوب صُورت اور کہیں ظرافت کا رنگ لیے فقرے، غرض حاضرین اور ناظرین کے محظوظ ہونے کا ہر ہر موڑ پرمکمّل خیال رکھا جاتا۔ چوں کہ اُنھیں پردۂ سیمیں پر کام کرنے اور مختلف کردار ادا کرنے کا وسیع تجربہ تھا، لہٰذا’’نیلام گھر‘‘ میں اُنہوں نے اِس سے خُوب فائدہ اُٹھایا اور جہاں ضروری سمجھا، پروگرام میں ڈرامائی عُنصر سے بھرپور تاثر پیدا کیا۔
پی ٹی وی کے ناظرین کو ذہنی، معلوماتی اور تفریحی پروگرام سے بیک وقت لُطف اندوز ہونے کا موقع طارق عزیز کے نیلام گھر ہی سے ملنا شروع ہوا۔ یوں بلاتکلّف یہ بات تحریر کی جا سکتی ہے کہ دراصل’’ نیلام گھر‘‘ کی وساطت سے پی ٹی وی کے ناظرین ایک انوکھے اسٹیج شو سے واقف ہوئے اور کھیل ہی کھیل میں غیر محسوس طور پر معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ قیمتی انعامات جیتنے کے بھی حق دار قرار پائے۔
طارق عزیز نے’’نیلام گھر‘‘ کے ذریعے لوگوں کو شعر و شاعری، بیت بازی، تقریری مقابلوں اور صحت مند سرگرمیوں سے روشناس کروایا۔ ہر ہفتے لگ بھگ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے’’ نیلام گھر‘‘ نے محض حاضرین اور ناظرین ہی کو محظوظ نہیں کیا، بلکہ مُلک کے تجارتی منظرنامے میں بھی خاصی ہلچل مچا دی۔
مشہور تجارتی کمپنیز اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے’’نیلام گھر‘‘ کو سب سے مؤثر ذریعہ گردانتیں۔ واٹر کولر، گاڑی، اگر بتّی، فیس کریم کے علاوہ دیگر بہت سی مصنوعات کے نام’’ نیلام گھر‘‘ کی معرفت ہی مُلک کے طول و عرض میں لوگوں کی زبانوں پر چڑھے۔ ایسا نہیں تھا کہ’’ نیلام گھر‘‘ پی ٹی وی پر پیش کیا جانے والا ذہنی آزمائش کا اوّلین پروگرام تھا۔
پاکستان ٹیلی ویژن نے ابتدا ہی سے اِس بات کا خیال رکھا کہ اپنے پروگرامز کی معرفت ناظرین کو ممکنہ حد تک معلومات فراہم کی جائیں۔ اس مناسبت سے یوں تو کئی ایک پروگرام پیش کیے گئے، تاہم ذہنی آزمائش کے پروگرام’’کسوٹی‘‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔
پروگرام کے میزبان قریش پور، جب کہ مہمان عبید اللہ بیگ اور افتخار عارف ہوا کرتے۔پروگرام میں معلوماتی عُنصر تو از اوّل تا آخر موجود تھا، تاہم تفریحی عُنصر مفقود تھا۔ پی ٹی وی کے ایک اور ذہنی آزمائش کے پروگرام ’’شیشے کا گھر‘‘کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ معاملہ تھا۔
دراصل، یہ دونوں پروگرام معلوماتی، دل چسپ اور مقبول ہونے کے باوجود اپنے سنجیدہ موضوع اور پیش کش کے اعتبار سے سطحِ عمومی سے بلند ہو گئے تھے۔ مگر ’’نیلام گھر‘‘ نے تو پانسا ہی پلٹ دیا اور اپنی عمومیت میں جدّت اور نُدرت کو شامل کر کے ایک تہلکہ مچا دیا۔
پورے پروگرام میں معلوماتی اور تفریحی عناصر شانہ بشانہ چلتے رہتے۔پروگرام کی ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ طارق عزیز مسلسل حاضرین کو اپنے ساتھ شامل اور شریک رکھتے۔ نہ صرف حاضرین پوری طرح لُطف اندوز ہوتے، بلکہ ناظرین بھی مکمل طور پر خود کو پروگرام میں شریک سمجھتے۔ پروگرام کا تانا بانا کچھ اِس انداز میں بُنا جاتا کہ ناظرین و حاضرین دونوں کو مسلسل معلومات حاصل ہوا کرتیں۔طارق عزیز وسیع و عریض ہال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلسل دوڑتے، بھاگتے نظر آتے۔
اپنے بکھرے بالوں کو مخصوص انداز میں سُلجھانا اور کبھی بند تو کبھی نیم وا آنکھوں سے قدیم و جدید شعراء کے اشعار سُنانا، اُن پر خُوب خُوب جچتا۔ اُن کی خوش فکری، خوش گفتاری اور خوش لباسی’’ نیلام گھر‘‘کی خوش اقبالی کا شاید سب سے بڑا ذریعہ تھی۔
نیلام گھر‘‘ کے بعد جہاں جہاں بھی اور جس قدر بھی اسٹیج شوز منعقد ہوئے، اُن کے پسِ پُشت پیش کش کے اعتبار سے کہیں کہیں کچھ معمولی ردّو بدل کے ساتھ’’ نیلام گھر‘‘ ہی کا خاکہ ہوتا۔ یہی نہیں، اسٹیج شو کے اکثر و بیش تر میزبان طارق عزیز ہی سا اندازو اطوار اپنانے کی کوشش کرتے دِکھائی دیتے۔چند مستند ٹیلی ویژن تبصرہ نگار طارق عزیز کو’’ ٹی وی گیم شو‘‘ کا بانی بھی قرار دیتے ہیں۔
طارق عزیز1997ء سے1999ء تک رُکنِ قومی اسمبلی بھی رہے۔ اُنہوں نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا۔ اُن کے مدِّ مقابل تحریکِ انصاف کے رہنما، عمران خان تھے۔ طارق عزیز کو پچاس ہزار، جب کہ عمران خان کو چار ہزار کے لگ بھگ ووٹ ملے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اُن کی گراں قدر فن کارانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر اُنہیں’’ پرائیڈ آف پرفارمینس ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ اُنہوں نے اُردو اور پنجابی زبان میں اشعار بھی کہے۔
اُن کی پنجابی شاعری کا مجموعہ’’ہم زاد دا دُکھ‘‘ کے عنوان سے 1992ء میں سامنے آیا۔’’ پندرہویں صدی‘‘ اور’’ بچّوں کا رسالہ‘‘ کے عنوان سے دو جریدے بھی شائع کیے، جو چند برس ہی جاری رہ سکے۔ اُنہوں نے اپنی تمام جائیداد اپنی زندگی ہی میں حکومتِ پاکستان کو عطا کر دی تھی۔طارق عزیز کی اہلیہ ڈاکٹر ہاجرہ گائناکولوجسٹ ہیں۔
طبّی اُمور کے ساتھ اُنہوں نے سیاست میں بھی کافی وقت گزارا۔ طارق عزیز اور اُن کی اہلیہ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نہیں نوازا۔ کتابوں سے عشق کرنے والے طارق عزیز کے پاس سیکڑوں کتابیں تھیں، جس کے لیے گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کر لی گئی تھی اور اُن کے انتقال کے بعد تمام تر کتابیں ایک تعلیمی ادارے کو سونپ دی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اُن سے استفادہ کر سکیں۔طارق عزیز کا انتقال 17جون 2020ء کو لاہور میں ہوا۔
طارق عزیز صحیح معنوں میں سیماب صفت شخص تھے۔ہر دَم کچھ نہ کچھ کرنے کی دُھن۔ سیاست میں فعال حصّہ لیا۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(نون)،مسلم لیگ(ق)، جنرل ضیاء الحق سے نزدیکیاں رہیں۔ گویا متلوّن طبیعت نے کبھی چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ ادب چوں کہ مزاج میں رَچا بَسا تھا اور شعر و شاعری سے طبیعت کو یک گونہ مناسبت تھی، لہٰذا ایک مرتبہ اپنی سیمابی کیفیت کے بارے میں خُود ہی اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا۔’’میری پیاس شاید زیادہ تھی اور چشمے مجھے کم ملے۔‘‘
طارق عزیز کے پاس دولت رہی یا نہیں؟ یہ سوچنے کی بات یا پوچھنے کا سوال نہیں ہے، تاہم ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ طارق عزیز ہمیشہ سے الفاظ کی دولت اور خزانے سے مالا مال رہے۔ یہی نہیں، اُنہوں نے اپنی دولت اور خزانے کو فیّاضی سے دوسروں تک پہنچانے اور لُٹانے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔
ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبے، یہاں تک کہ سیاست تک، اُنہوں نے وہ شعبہ ہائے زندگی اپنائے، جن کا تعلق ابلاغ سے تھا۔ گویا احساسات کو اظہار کے جن جن ذریعوں سے بھی اُجاگر کیا جا سکتا تھا، طارق عزیز نے کمال درجۂ ہنر سے اُنہیں استعمال کیا۔ براڈ کاسٹنگ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ، زیڈ اے بخاری سے مرثیہ تحت اللفظ سیکھنے والوں میں طارق عزیز بھی شامل تھے اور پی ٹی وی پر ایّامِ عزا میں اپنی آواز کو حضرت محمدﷺ کے نواسے پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے بیان کے لیے بہت مؤثر اور پُرسوز لہجے میں لوگوں تک پہنچانے میں ہمیشہ سعادت محسوس کرتے رہے۔
بلاشبہ، طارق عزیز پی ٹی وی کی تاریخ کے اُن افراد میں شمار کیے جا سکتے ہیں، جنہوں نے اپنے پروگرام سے نہ صرف اپنی شناخت بنائی اور اَن مٹ اثرات مرتّب کیے بلکہ اپنی زندگی ہی میں اُن بہتیرے افراد کو بھی اپنے ارد گرد دیکھتے رہے، جو اُن کے نقشِ قدم پر چلتے نظر آئے۔ یقیناً وہ اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل رہے کہ جن کی محنت اور ریاضت رنگ لائی۔
میاں عبدالعزیز پاکستانی کے قابلِ فخر فرزند نے ہمیشہ فرزندِ زمین اور پاکستانی ہونے کا ثبوت یوں فراہم کیا کہ’’نیلام گھر‘‘ کا اختتامیہ کچھ ان الفاظ پر کیا کرتے۔’’چلتے چلتے میری آواز میں اپنی آواز شامل کر لیجیے، پاکستان زندہ باد!‘‘