یہ 1924ء کے دسمبر کی 24تاریخ تھی جب کوٹلہ سلطان پور کے ایک غریب گھرانے میں ایک ایسے نونہال نے جنم لیا جسے خدا نے غیرمعمولی آواز سے نوازا تھا، اس خداداد صلاحیت میں نکھار لانے کیلئے اس ننھے منے نے لڑکپن میں ہی ریاض شروع کر دیا تھا۔ گھر کا روایتی ماحول، اس پر غربت مستزاد! ایسی ’’عیاشی‘‘ اور ’’لغویات‘‘ کی اجازت کہاں تھی؟ حکم تھا کٹنگ کرو، لوگوں کے بال بناؤ اور بس۔ حکم عدولی پر بارہا سزاکا بھی سامنا کر نا پڑا ۔ ’’سچی لگن ہو تو پربت بھی دھول ہے‘‘ اندرون بھاٹی کے تھڑے سے بلند ہونے والی یہ آواز ایسی ابھری کہ براستہ ممبئی جنوبی ایشیا کے ہر گوشے میں دلوں کو سکون دینے لگی۔ اس آواز نے پدم شری ایوارڈ سمیت 6فلم فئیر ایوارڈ بھی اپنے نام کر لیے 26ہزار گیتوں کی برسات کرتے ہوئے گینزبک میں بھی اپنا نام لکھوایا۔
رفیع صاحب کے یہ ہزاروں گیت اردو، ہندی کے علاوہ مرہٹی، بنگالی، پنجابی اور آسامی زبانوں میں ہیں۔ ان گیتوں میں انہوں نےحمد و نعت، مرثیے، قوالی اور بھجن ایسے دلنشیں انداز میں گائے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں کو طمانیت فراہم کرتے ہیں۔ رفیع صاحب کی آواز میں اس قدر سوز و گداز تھا کہ 1948 میں یہ گیت ’’سنو سنو اے دنیا والو باپو کی امر کہانی‘‘ سنتے ہوئے پنڈت نہرو کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں اس طرح 1967میں پنڈت نہرو پر بننے والی مووی نونہال کا گیت ’’میری آواز سنو‘‘ سنتے ہوئے پرائم منسٹر اندرا گاندھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور رفیع صاحب بس کر دیں رفیع صاحب بس کر دیں کہتے ہوئے اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں چلی گئیں اور وہاں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔80ء کے بعد کتنے برس بیت گئے جب بھی اکتیس جولائی آتی ہے ہم اپنے من کی دنیا میں موسیقی کی ایک ایسی محفل منعقد کرتے جس میں ان کی یادوں کے دیے جلائے جاتے ہیں ان کی پرسوز آواز میں درد انگیز گیتوں کی لے سنتے ہوئے بار ہا آنکھیں نمنا ک ہو جاتی ہیں مگر ’’جانے والے کبھی نہیں آتے، جانے والے کی یاد آتی ہے‘‘۔ جب ان کے اچانک جانے کی خبر سن کر بے بسی و لاچاری کے عالم میں ہم ادھر حیران پریشان سرگرداں تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ’’کیا سے کیا ہو گیا‘‘۔ رفیع صاحب کا آخری نامکمل گیت ہم نے بیسیوں دفعہ سنا اور سچ تو یہ ہے کہ۔ ’’تیرے آنے کی آس ہے دوست، پھر یہ شام کیوں اداس ہے دوست‘‘۔ عظیم موسیقار نوشاد صاحب نے محمد رفیع کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے ’’تجھے نغموں کی جاں اہل نظر یونہی نہیں کہتے، تیرے گیتوں کو دل کا ہم سفر یونہی نہیں کہتے، دکھی تھے لاکھ پھر بھی مطمئن تھے درد کے مارے، تیری آواز کی شبنم سے دھل جاتے تھے غم سارے تیری تانوں میں حسن زندگی لیتا تھا انگڑائی، تجھے اللہ نے بخشا تھا انداز مسیحائی‘‘ موسیقار نوشاد رفیع صاحب کے وہ استاد ہیں جن کا احترام ان کے شاگرد کے دل میں ایسے تھا کہ رفیع صاحب نے جب پہلی مرتبہ گاڑی خریدی تو سوچا کہ سب سے پہلے اپنے استاد کے حضور پہنچوں، والہانہ پن کی یہ کیفیت تھی کہ ایکسیڈنٹ کر بیٹھے۔ بلا شبہ رفیع صاحب کے گائے ہوئے گانوں کی تخلیق کا کریڈٹ ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی جیسے تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ بابائے موسیقی نوشاد اور دلیپ کمار جیسے فنکاروں کو بھی جاتا ہے لیکن ان کی لاجواب آواز کا اتار چڑھاؤ بے مثال ہے۔
دکھ درد کے بول بولے تو لگا کہ خون جگر سے نہا کر واردات قلبی کے ساتھ، شوخ اور چنچل گیت گائے تو محسوس ہوا کہ کائنا ت کی ساری شوخیاں انہی لبوں پر مرتکز ہو گئی ہیں۔ ’’نین لڑ گئی رے‘‘ سن لیجئے۔ مشکل سے مشکل گیت رفیع صاحب نے ایسی مہارت سے گائے کہ سننے والا بس سنتا ہی رہ جائے۔ بیجو باورا کا گیت ’’او دنیا کے رکھوالے‘ سن درد بھرے میرے نالے‘‘ میں جس طرح آواز اٹھائی گئی ہے دنیائے موسیقی میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ فلم ’’دل دیا درد لیا‘‘ کا گانا ’’کوئی ساغر دل کو بہلاتا نہیں‘‘ فلم دیدار میں ’’میری کہانی بھولنے والے‘‘ اور ’’نصیب در پہ تیرے آزمانے آیا ہوں‘‘ امر میں ’’انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر‘‘ ہے۔ ایک پھول دومالی میں ’’او ننھے سے فرشتے‘‘ نیل کمل میں ’’بابل کی دعائیں لیتی جا‘‘۔ جنم جنم کے پھیرے میں ’’ذرا سامنے تو آؤ چھلیے‘‘ زبردست گیت ہیں۔ ایک ناری دو روپ میں ایک گانا ہے جو رفیع صاحب کے سفر آخرت میں بھی گایا گیا ’’دل کا سونا ساز ترانہ ڈھونڈے گا، تیر نگاہ ناز نشانہ ڈھونڈے گا، مجھ کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا‘‘ فلم بھیگی رات میں ’’دل جو نہ کہہ سکا‘‘ پروفیسر میں ’’آواز دے کے ہمیں تم بلاؤ‘‘ کوہ نور میں ’’دوستاروں کا زمیں پر ہے ملن آج کی رات‘‘، استادوں کے استاد میں ’’سو بار جنم لیں گے‘‘ اس طرح ایک فلم کا مجھے نام معلوم نہیں بہرحال گیت کے بول ہیں ’’تو جائے گا جب جہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا دوگز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہو گا‘‘۔ اپنی عجز و انکساری کے باعث وہ روایتی فنکاروں میں ہمیشہ منفرد نظر آئے۔ اردو زبان سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ راجندر سنگھ بیدی کیلئے جب انہوں نے گایا اور بیدی صاحب نے رفیع صاحب کو معاوضہ دینا چاہا تو رفیع صاحب نے اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے تاریخی الفاظ کہے ’’بیدی جی آپ نے اردو ادب کی اتنی خدمت کی ہے کہ اگر میں تمام عمر بھی آپ کیلئے گاتا رہوں تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہو گا‘‘ یہ انڈین فلم انڈسٹری کی خوش بختی تھی کہ اُسے رفیع صاحب اور لتا جیسے مہان آرٹسٹ ملے۔ بزرگ مہربان خواجہ افتخار نے بتایا کہ پارٹیشن کے بعد جب رفیع صاحب لاہور تشریف لائے تو انہیں قریب سے دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا ایسا سناٹا تھا کہ جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو رفیع صاحب کی رسیلی آواز ایسے گونج رہی تھی کہ گویا ساتویں آسمان تک پہنچ رہی ہو۔ اذان فجر تک مجال ہے کہ اتنے بڑے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی اُٹھ کر گیا ہو۔