• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2024ء میں صوبہ ٔخیبر پختون خوا بدترین سیاسی بُحرانوں اور احتجاجی مظاہروں کی زد میں رہا۔ 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف نے صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کی اور کے پی کے میں مسلسل تیسری مرتبہ حکومت بنا کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ 

سردار علی امین گنڈا پُور کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا، جب کہ مرکز میں نئی حکومت کے قیام کے بعد جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے حاجی غلام علی کی جگہ پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کُنڈی کو گورنر تعینات کیا گیا۔ بعدازاں، نئی صوبائی حکومت اور حُکم راں جماعت اپنے بانی کی رہائی کے لیے سال بَھر اسلام آباد پر لشکر کشی کرتی رہی۔ 

تاہم، انہیں ہر بار شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی، قومی املاک نذرِ آتش کرنے اور شہریوں کو اشتعال دلانے پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری سمیت ان کے خلاف سیکڑوں مقدّمات درج ہوئے۔

دوسری جانب بھر پور عوامی مینڈیٹ سے برسرِ اقتدار آنے والی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے صوبے کے سرکاری وسائل احتجاجی سرگرمیوں کی نذر کر دیے، جس کے باعث صوبے میں ترقّی کا پہیہ جام ہو گیا اور کوئی نئی اسکیم، منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔ 

پی ٹی آئی نے کے پی کے میں مسلسل تیسری مرتبہ حکومت قائم کر کے نئی تاریخ رقم کی

علاوہ ازیں، صوبائی حکومت کی ناقص حکمتِ عملی کے باعث وفاق کی جانب سے فنڈز اور واجبات کی عدم ادائی کے سبب صوبہ مالی مشکلات سے دو چار رہا۔ یسالِ رفتہ میں خیبر پختون خوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں عسکریت پسند دوبارہ سرگرم ہو گئے اور ان کی مذموم کارروائیوں میں سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بنے، جب کہ ضلع کُرّم میں متحارب گروپوں کے مابین مسلّح تصادم میں کئی دیہات نذرِ آتش کر دیے گئے۔

8فروری 2024ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے صوبائی اسمبلی کی 115جنرل نشستوں میں سے90نشستوں پر کام یابی حاصل کی، جب کہ مسلم لیگ (نون) اور جے یو آئی نے 9،9، پیپلز پارٹی نے5اور تحریک انصاف پارلیمینٹرینز اور عوامی نیشنل پارٹی نے صرف 2،2 نشستیں حاصل کیں۔ 

عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے قائد، میاں محمّد نواز شریف، جماعتِ اسلامی پاکستان کے اُس وقت کے امیر، سراج الحق، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر، مولانا فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی کے قائم مقام مرکزی صدر، امیر حیدر خان ہوتی، اُس وقت کے صوبائی صدر، ایمل ولی خان، قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین، آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور صوبائی چیئرمین سکندر حیات خان شیرپاؤ، پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے مرکزی چیئرمین، پرویز خٹک اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ سمیت کئی دیگر اہم سیاسی قائدین صوبے میں شکست سے دوچار ہوئے۔ 

عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے انتہائی مشکلات کے باوجود صوبے کی اہم پارلیمانی جماعتوں کا صفایا کرتے ہوئے ان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا، جب کہ انتخابات سے قبل یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کافی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کے بعد دیگر جماعتوں کے اشتراک سے بہ آسانی حکومت بنانے میں کام یاب ہو جائے گی۔ 

یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی نے ان انتخابات میں پہلی مرتبہ کئی حلقوں میں سرمایہ داروں کو پارٹی ٹکٹس دیے، لیکن صوبے کے انتخابی نتائج جمعیت علمائے اسلام کے لیے انتہائی مایوس کُن ثابت ہوئے۔ عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کے خاندان کو بھی بدترین سیاسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کہ کرک اور ٹانک سے سربراہ جے یو آئی کے دونوں صاحب زادے قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے، جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں خود مولا نا فضل الرحمان اور اُن کے بھائی، مولانا عبید الرحمان ناکام ہوئے اور صرف مولانا لطف الرحمان صوبائی نشست بچانے میں کام یاب ہوسکے۔

دوسری جانب خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی قوم پرست سیاسی جماعت، عوامی نیشنل پارٹی کا بھی صوبے سے صفایا ہو گیا اور یہ ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی میں ایک نشست تک حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ بعد ازاں، پارٹی کے مرکزی قائم مقام صدر، حیدر خان ہوتی نے شکست کی ذمّے داری قبول کرتے ہوئے اپنے عُہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد ایمل ولی خان کو پارٹی کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ 

حکومت کی ناقص حکمتِ عملی کے باعث صوبہ مالی مشکلات کا شکار رہا

عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹیرینز کو بھی بد ترین شکست ہوئی، حالاں کہ الیکشن سے قبل اس پارٹی کے سربراہ، پرویز خٹک ہر جلسے اور پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہ مستقبل کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ 

چُناؤ میں سابق وزیر اعلیٰ نہ صرف خود ناکام ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے ساتھ تحریکِ انصاف سے ناتا توڑنے والے کئی رہنماؤں کو بھی ڈبو دیا۔ الیکشن میں نوشہرہ کے عوام نے پرویز خٹک، ان کے بیٹوں اور داماد کو مسترد کر دیا۔ بعد ازاں، انہوں نے بھی اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے پارٹی صدارت چھوڑنے اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا۔ اسی طرح قومی وطن پارٹی اور جماعت ِا سلامی بھی ایک مرتبہ پھر پارلیمانی سیاست کا حصّہ نہ بن سکیں۔

وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد علی امین گنڈا پور نے حیران کُن طور پر بیش تر نئے چہروں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا، جب کہ خیبرپختون خوا اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے معاملے پر تحریکِ انصاف دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ 

 صوبے میں کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں ہو سکا

اس موقعے پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر اور بیرسٹر محمّد علی سیف نے بانی تحریکِ انصاف سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی اور پھر جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے اعلان کیا کہ عمران خان نے خیبرپختون خوا اسمبلی کی اسپیکر شپ کے لیے اسد قیصر کے بھائی، عاقب اللہ خان کو امیدوار نام زد کیا ہے، جس پر پارٹی چیئرمین، بیرسٹر گوہر اور جنرل سیکریٹری، عُمر ایّوب خان نے لاعلمی کے ساتھ شدید حیرت اور تحفّظات کا اظہار کیا اور پھر اسپیکرشپ کے معاملے پر پارٹی ہزارہ ڈویژن اور مردان ڈویژن کے رہنماؤں پر مشتمل دو گروپس میں بٹ گئی۔

نتیجتاً، اسپیکر کے انتخاب سے محض ایک دن قبل شدید اختلافات کے باعث پارٹی کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا اور بانی تحریکِ انصاف نے مبیّنہ طور پر عمر ایّوب گروپ کی سفارش پر ضلع مانسہرہ سے منتخب رُکن اسمبلی، بابر سلیم سواتی کو اسپیکر کے عُہدے کے لیے امیدوار نام زد کر دیا۔ ہر چند کہ صوبائی کابینہ کی تشکیل میں نئے ارکان کو نمائندگی دی گئی، لیکن پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین اپنے چہیتوں، عزیزوں اور رشتے داروں کو کابینہ میں شامل کروانے میں کام یاب ہو گئے۔ 

مثال کے طور پر پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری، عُمر ایّوب اپنے چچا زاد بھائی، ارشد ایّوب کو وزیرِ بلدیات، اسد قیصر اپنے بھائی عاقب اللہ کو وزیرِ آب پاشی، نور الحق قادری اپنے بھتیجے، عدنان قادری کو وزیرِاوقاف اور شہرام ترکئی اپنے بھائی، فیصل ترکئی کو ابتدائی و ثانوی تعلیم کی اہم ترین وزارت دلوانے میں کام یاب ہوگئے۔

ان سطور کی اشاعت تک خیبر پختون خوا کی نئی اسمبلی کے 5سیشنز ہو چُکے ہیں، جن میں سے تین سیشنز صوبائی حکومت کی سفارش پر گورنر اور دو اسپیکر نے طلب کیے۔ یاد رہے ، کے پی کے اسمبلی میں اپوزیشن کے پاس اجلاس طلب کرنے کے لیے بھی ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں۔ صوبائی اسمبلی میں سال بَھر قانون سازی کی بہ جائے تحریکِ انصاف کی ناکام احتجاجی تحریک پر مباحثے جاری رہے اور صرف23بلز اور76قراردادیں منظور ہو سکیں۔ 

صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ قوانین میں خیبر پختون خوا پولیس ترمیمی بِل2024ء قابلِ ذکر ہے، جس کے ذریعے تحریکِ انصاف حکومت نے یو ٹرن لیتے ہوئے پولیس سے انتظامی امور اور تقرّریوں وتبادلوں کے اختیارات وزیرِ اعلیٰ کو منتقل کیے۔ اس قانون کی رُو سے گریڈ 18اور اس سے اوپر کے پولیس افسران کی تعیناتی اور تبادلوں کا اختیار وزیرِاعلیٰ کے پاس ہوگا۔ امن و امان سے متعلق وزیرِ اعلیٰ کے اقدامات پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔ 

اسی طرح صوبائی حکومت نے عمران خان کا ایک اور فیصلہ واپس لیتے ہوئے قانون سازی کے ذریعے تمام سرکاری ریسٹ ہاؤسز دوبارہ متعلقہ محکموں کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا، جب کہ دوسری جانب صوبائی اسمبلی میں عددی لحاظ سے انتہائی کم زور اپوزیشن، مضبوط صوبائی حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کی بہ جائے صرف ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کرتی رہی اور ایسا محسوس ہوتا رہا کہ اپنے کام نکلوانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اندرونِ خانہ صوبائی حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ 

کچھ ایسا ہی منظر بجٹ منظوری کے وقت دیکھا گیا کہ جب اپوزیشن ارکان نے متفقہ حکمتِ عملی کے تحت ایوان سے واک آئوٹ کر کے حکومت کے لیے راستہ صاف کر دیا۔ یہی ’’برادرانہ ماحول‘‘ ضمنی بجٹ سمیت ہر سیشن میں دیکھنے میں آیا۔

 قبائلی اور جنوبی اضلاع میں عسکریت پسند دوبارہ سرگرم ہوگئے

خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد تقریباً ہر ماہ حُکم ران جماعت کی جانب سے وفاق کے خلاف لشکر کشی کا سلسلہ جاری رہا۔ وزیرِ اعلیٰ، سردار علی امین گنڈا پور کئی مرتبہ ہزاروں افراد کے ساتھ اسلام آباد، راول پنڈی اور لاہور پر حملہ آور ہوئے۔ 

تاہم، ہر بار پُراسرار طور پر غائب ہو کر پشاور پہنچ گئے۔ 4 اکتوبر کو وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا اسلام آباد کے محاصرے کے لیے روانہ ہوئے، تو سنگجانی میں قافلے سے الگ ہو کر اچانک ڈی چوک میں نمودار ہوئے، جہاں سے وہ خیبر پختون خوا پہنچ گئے۔ 

اس موقعے پر پولیس انہیں گرفتار کرنے پہنچی، تو وہ غائب ہو گئے اور تقریباً 28 گھنٹے تک لاپتا رہنے کے بعد ڈرامائی انداز میں نعرے لگاتے ہوئے صوبائی اسمبلی میں نموار ہوئے، جب کہ اس دوران ان کی گرفتاری کی اطلاعات زیرِ گردش رہیں۔ تاہم، وزیرِ اعلیٰ نے اسمبلی میں اپنی گُم شدگی کی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا، بلکہ وہ پوری رات پختون خوا ہاؤس میں تھے، جس کا آئی جی اسلام آباد نے رینجرز کے ساتھ محاصرہ کیے رکھا۔ 

اس موقعے پر علی امین گنڈا پور کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ مجھے گرفتار کرنے کے لیے کئی مرتبہ چھاپے مارے گئے۔ مَیں سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مُجھے گالیاں دی گئیں۔ میرے گارڈز پر تشدّد اور خیبر پختون خوا ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ پھر مَیں وہاں سے پیدل نکالا۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے۔ 12اضلاع سے ہوکر پشاور پہنچا ہوں۔‘‘

بعد ازاں، عمران خان کی اہلیہ بُشریٰ بی بی کو 9ماہ قید کے بعد 24اکتوبر کو اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا، تو انہوں نے پشاور کا رُخ کیا اور وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں رہائش اختیار کی، جہاں ایک پورشن اُن کے لیے مختص کیا گیا۔ پشاور پہنچنے کے بعد بشریٰ بی بی نے پارٹی کمان سنبھالتے ہوئے قائدین اور کارکنوں سے ملاقاتیں شروع کیں اور جب عمران خان نے 24نومبر کو ڈی چوک ’’فائنل احتجاج‘‘ کی کال دی، تو انہوں نے تیاریاں مزید تیز کرتے ہوئے پارٹی کے ہر رُکنِ قومی اسمبلی کو 10ہزار اور رُکن صوبائی اسمبلی کو 5ہزار کارکن لانے کا حُکم دیا اور ساتھ ہی خبر دار کیا کہ اس مرتبہ اگر کوئی گرفتار ہوا یا کسی نے خود گرفتاری دی، تو اس کے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ 

گورنر راج کے نفاذ کی افواہیں زیرِگردش رہیں

اس کے علاوہ انہوں نے یہ ہدایت بھی جاری کی کہ ہر رُکنِ اسمبلی نہ صرف احتجاج کے تمام اخراجات خود برداشت کرے گا بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے قافلے کی ویڈیوز مخصوص واٹس ایپ گروپ میں شیئر بھی کرے گا۔ بشریٰ بی بی کی سیاست میں اینٹری کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ 24نومبر کو وہ پی ٹی آئی کے احتجاجی قافلے کی قیادت کریں گی، لیکن ایک روز قبل اُن کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ ناسازیٔ طبیعت کی بنا پر بشیریٰ بی بی احتجاج میں شریک نہیں ہوں گی۔ تاہم 24نومبر کو بشریٰ بی بی کی قیادت میں جیل میں قید بانی کی رہائی کا مطالبہ لیے تحریکِ انصاف کے ہزاروں کارکنوں پر مشتمل قافلہ اسلام آباد روانہ ہوا۔ 

تین دن بعد منگل کی دوپہر یہ احتجاجی قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوا اور قائدین نے مطالبات کی منظوری تک ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کیا لیکن پھر رات گیارہ بجےجوں ہی پولیس اور رینجرز نے’’ بلوائیوں‘‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، چند ہی گھنٹوں میں پورا مجمع منتشر ہوگیا۔ 

گرچہ بشریٰ بی بی نے اعلان کیا تھا کہ کسی صُورت بھی عمران خان کو رہا کروائے بغیر ڈی چوک سے واپسی نہیں ہوگی، کارکن چلے بھی گئے، تو وہ تنہا ڈی چوک میں موجود رہیں گی۔ تاہم، جب پولیس کا آپریشن شروع ہوا، تو وزیرِ اعلیٰ گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کارکنوں کو چھوڑ کر ایک ہی گاڑی میں فرار ہو گئے اور اگلی صبح مانسہرہ سے نمودار ہوئے۔

اگلے دن وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا نے اسلام آباد کے ڈی چوک سے مانسہرہ پہنچنے کی کہانی سناتے ہوئے کہاکہ’’ اگر کسی کے باپ میں جرأت ہے، تو صوبے میں گورنر راج لگا کر دیکھ لے۔ ڈی چوک میں بشریٰ بیگم اور مجھے قتل اور اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس مرتبہ ہم اسلحہ لے کر آئیں گے اور گولی کا جواب گولی سے دیں گے۔ ہم جلد از جلد عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں، ہماری اگلی حکمت عملی تیار ہے ، حکومت اور کرسی کی پروا نہیں، اس مرتبہ عمران خان سے بھی درخواست ہے کہ احتجاج کے لیے پُرامن کا لفظ نہ کہیں۔‘‘

بعد ازاں، احتجاجی قافلے کے ڈی چوک جانے کے متنازع فیصلے پر پارٹی میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور تحریکِ انصاف کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں جب بشریٰ بی بی نے ڈی چوک پر پارٹی قیادت کی عدم موجودگی کے حوالے سے قائدین پر تنقید کی، تو چیئرمین، بیرسٹر گوہر اور جنرل سیکریٹری، سلمان اکرم راجا نے مستعفی ہونے کی پیش کش کرتے ہوئے مبیّنہ طور پر بشریٰ بیگم پر واضح کیا کہ’’ وہ عمران خان کی پارٹی میں ضرور ہیں، مگر ان کے خاندانی ملازم نہیں۔‘‘ اس دوران وفاقی کابینہ کے بیش تر ارکان نے خیبر پختون خوا میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کی، جس کے بعد صوبے میں گورنر راج کی افواہیں بھی زیرِ گردش رہیں۔