• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں سال 2024ء کا آغاز عام انتخابات کی گہماگہمی سے ہوا، جو 8 فروری کو منعقد ہوئے۔انتخابی مہم اور پولنگ تو مجموعی طور پر پُرامن ہی رہی، البتہ باقی مُلک کی طرح یہاں بھی انتخابی نتائج متنازع ہی قرار پائے۔خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، بدین اور سانگھڑ کے نتائج پر تنازع دیکھنے میں آیا، جن کے خلاف فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ، پیر صاحب پگارا کی قیادت میں احتجاجی مہم کا آغاز کیا گیا، مگر وہ چند جلسوں ہی تک محدود رہی۔

جماعتِ اسلامی نے کراچی میں بھرپور انتخابی مہم چلائی اور بلدیاتی انتخابی نتائج کے تناظر میں اُسے کافی نشستیں ملنے کی بھی توقّع تھی، مگر اُس کی جھولی بھی خالی رہی، لہٰذا جماعتِ اسلامی نے بھی احتجاجی مظاہرے کیے، مگر سب بے سود ہی رہا۔ نیز، امیرِ جماعتِ اسلامی، کراچی، حافظ نعیم الرحمان نے(جو بعدازاں جماعتِ اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوئے)یہ کہتے ہوئے سندھ اسمبلی کی نشست کا حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا کہ’’ یہ نشست کسی اور نے جیتی ہے، مَیں نے نہیں۔‘‘بہرکیف،27 فروری کو پیپلز پارٹی کے سیّد مُراد علی شاہ نے سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کا حلف اُٹھالیا۔ قبل ازیں، اُنھوں نے صوبائی اسمبلی سے 112ووٹ لیے تھے، جب کہ اُن کے مدّ ِمقابل متحدہ قومی موومنٹ کے علی خورشیدی36 ووٹ لے پائے۔

مُراد علی شاہ تیسری بار وزیرِ اعلیٰ بنے، گورنر کی تبدیلی کی افواہیں گرم رہیں

مُراد علی شاہ 29 جولائی 2016ء کو پہلی بار سندھ کی وزارتِ اعلیٰ پر متمکّن ہوئے تھے، 17 اگست 2018ء کو دوبارہ اِس عُہدے پر فائز ہوئے اور پیپلز پارٹی نے گزشتہ برس تیسری بار اُنھیں وزیرِ اعلیٰ مقرّر کردیا۔یوں گزشتہ آٹھ برسوں سے وہ اِس عُہدے پر موجود ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی مسلسل 15برسوں سے صوبے پر حکومت کرتی چلی آرہی ہے۔ 

مُراد علی شاہ نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف تو اُٹھایا، مگر سال بَھر پس منظر ہی میں رہے، جب کہ صوبائی وزیر، شرجیل انعام میمن اور وزیرِ داخلہ، ضیاء الحسن لنجار سیاسی منظر نامے پر چھائے رہے، جس سے سندھ کے اصل حُکم ران سے متعلق سوالات گردش میں رہے اور اِسی تناظر میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے مابین اختلافات کی بھی آوازیں سُنائی دیں۔مُراد علی شاہ کی حکومت کے لیے ایک اچھی خبر یہ رہی کہ اِس بار اُنھیں ماضی جیسی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے، کیوں کہ اب ایم کیو ایم یہ کردار نبھا رہی ہے، جو مرکز میں پیپلز پارٹی کے ساتھ حُکم ران اتحاد کا حصّہ ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ سندھ اسمبلی گزشتہ سال کم ہی میڈیا کی سُرخیوں میں آئی۔8 فروری کے انتخابات میں کراچی سے متحدہ قومی موومنٹ کے حصّے میں کافی نشستیں آئیں اور وہ وفاقی حکومت میں بھی شراکت دار بنی، تاہم شہری مسائل کے حل کے ضمن میں اُس نے خاموشی اختیار کیے رکھی، جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی گزشتہ برس بھی اداروں سے’’آنکھ مچولی‘‘ جاری رہی۔ 

نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی گورنر سندھ کی تبدیلی کی افواہوں نے عروج پکڑا اور اِس ضمن میں بعض نام بھی سامنے آئے، تاہم کامران خان ٹیسوری نے ثابت کیا کہ اُن کا’’ پوّا‘‘ مضبوط ہے۔ سال کے آخری دنوں میں بھی فیصل واوڈا نے گورنر سندھ کی تبدیلی کی پیش گوئی کی، جس پر کامران ٹیسوری کا کہنا تھا کہ’’جس یونی ورسٹی سے فیصل واوڈا ڈاکٹر بنے، وہاں سے مَیں نے سرجن شپ کی۔‘‘عین ممکن ہے کہ اِن سطور کی اشاعت تک کوئی تبدیلی رُونما ہوچُکی ہو، تاہم اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کامران ٹیسوری نے ابتدائی تاثر کے برعکس، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مُلک کا کوئی دوسرا گورنر اِس دوڑ میں اُن کے قریب قریب بھی نہیں۔ اُنھوں نے عوام سے بھرپور روابط رکھنے کے ساتھ، نوجوانوں کے لیے آئی ٹی کے منہگے کورسز، مفت کروا کے خدمت کی جو اعلیٰ مثالیں قائم کیں، یقیناً اُنھیں یاد رکھا جائے گا۔

 گلی محلّوں میں اسٹریٹ کرائمز کا راج رہا، تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بدترین ٹریفک نظام سیکڑوں جانیں نگل گئے

عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ نئی حکومت وجود میں آنے کے ابتدائی مہینوں میں خاصی متحرّک نظر آتی ہے، عوامی فلاح و بہبود کے نت نئے منصوبے سامنے لائے جاتے ہیں اور اصلاحات کے اعلانات ہوتے ہیں، تاہم سندھ میں گزشتہ برس قائم ہونے والی حکومت میں جوش و جذبے کا فقدان نمایاں رہا۔ شاید اِس کی بڑی وجہ یہ رہی ہو کہ پیپلز پارٹی صوبے پر گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے حُکم ران ہے اور یہاں کے مخصوص حالات کی بنا پر اقتدار میں آنا اِس کے لیے اب کوئی بڑی خبر نہیں۔بہرحال، بات جو بھی ہو، نئی حکومت کراچی سمیت صوبے کے کسی بھی علاقے کے لیے بڑے منصوبے لانے میں کام یاب نہیں ہوسکی۔ 

کراچی کے شہریوں کو اچھی سفری سہولتوں کی فراہمی کے ریڈ لائن منصوبے پر کام کی رفتار سُست رہی۔ یہ منصوبہ مُراد علی شاہ نے اپنی پچھلی حکومت میں شروع کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ نگران حکومت نے فنڈنگ میں مسائل پیدا کیے، جس کے سبب کام متاثر ہوا۔ یہی حال لیاری ایکسپریس وے کا رہا، جہاں سال کے آخر میں ایک ٹکڑا مکمل کرکے افتتاح کے لیے تیار کیا گیا۔

البتہ، شرجیل میمن نے پیپلز بس سروس کے نظام میں بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے، جن سے شہریوں کو براہِ راست فوائد حاصل ہوئے اور یہ بس سروس، عوام میں پیپلز پارٹی کے مثبت تاثر کے فروغ کا ذریعہ ثابت بنی۔ تاہم، شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے اُن کی محنت رائیگاں کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

گزشتہ برس کراچی میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں لگ بھگ800 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ خواتین اور بچّوں سمیت8 ہزار سے زاید افراد زخمی ہوئے۔ سڑکوں پر گڑھے، اندرونِ شہر دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کا داخلہ اور بے ہنگم ٹریفک اِن حادثات کی بڑی وجوہ قرار پائے، جب کہ شہریوں نے ٹریفک پولیس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے اہل کار عموماً ٹریفک کی روانی پر توجّہ مرکوز رکھنے کی بجائے جتھوں کی شکل میں شہریوں سے بھتّا وصول کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ 

کراچی پولیس کے چیف، جاوید عالم اوڈھو نے بڑھتے ٹریفک حادثات سے متعلق کہا کہ’’ڈمپر کے آگے چلو گے تو مرو گے، کس نے کہا ہے کہ ڈمپر دیکھ کر نہ ہٹو، عوام کو ڈرائیونگ کی اِتنی سمجھ بوجھ تو ہونی چاہیے۔ٹریفک حادثات لاہور میں زیادہ ہوتے ہیں، فرق یہ ہے کہ رپورٹ کراچی کے زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘ ویسے یاد رہے، لاہور میں گزشتہ سال ہونے والے ٹریفک حادثات میں288 افراد جاں بحق ہوئے۔نیز، شاہ راہوں کی حالتِ زار، گندگی کے ڈھیروں اور گلی محلّوں میں گندے پانی کے جوہڑوں پر میئر کراچی، مرتضیٰ وہاب کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

گو کہ سٹی مئیر نے سڑکوں کی بحالی کے لیے کام بھی کیا، جس کی سوشل میڈیا پر خاصی تشہیر کی گئی، لیکن عوامی حلقوں نے اِن کاموں کو محض لیپا پوتی قرار دیا کہ چند دنوں بعد سڑکیں پہلے کی طرح کھنڈر بنی نظر آئیں۔طبّی ماہرین نے شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو صحتِ عامّہ کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کمر کے مُہروں اور جوڑوں سمیت کئی امراض کا سبب بن رہی ہیں، جب کہ گرد وغبار نے بھی شہریوں کو مختلف امراض میں مبتلا کیے رکھا۔

 کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع ہوا، نہ کوئی جاری منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا

مُلک کے مجموعی حالات کے تناظر میں سندھ میں امن و امان کی صُورتِ حال اِس لحاظ سے تو تسلّی بخش رہی کہ گزشتہ برس دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ ہوا،تاہم ائیرپورٹ پر پیش آنے والے افسوس ناک واقعے کے خاصے منفی اثرات مرتّب ہوئے کہ دہشت گردوں نے ایک دوست مُلک کے شہریوں کو نشانہ بنایا تھا۔سال کے ابتدائی مہینوں میں کچّے کے ڈاکوؤں کی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ اس کے دَوران وہ ملحقہ شہری علاقوں میں بھی گُھس کر آزادانہ کارروائیاں کرتے رہے، بہت سے افراد اغوا کیے گئے، جب کہ بھتّوں کی وصولی بھی جاری رہی۔ تاہم، سال کے آخری ہفتوں میں ڈاکوؤں کی سرگرمیوں میں واضح کمی نوٹ کی گئی۔ 

ایک افسوس ناک واقعہ عُمرکوٹ میں پیش آیا، جس کی گونج صوبائی اسمبلی میں بھی سُنی گئی اور وزراء نے پریس کانفرنس بھی کی۔وہاں ایک ڈاکٹر پر الزام عاید کیا گیا کہ اُس نے فیس بُک پر توہین آمیز مواد شئیر کیا ہے، جس پر اُس کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور کراچی کے ایک ہوٹل سے اُس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ تاہم، بعدازاں پولیس نے اُسے ایک جعلی مقابلے میں قتل کردیا۔ اِس قتل کے خلاف ڈی آئی جی، ایس ایس پی سمیت اعلیٰ پولیس افسران اور مقامی علمائے کرام کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، جب کہ پولیس افسران کو محکمانہ کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

گزشتہ برس بھی کراچی پر اسٹریٹ کریمنلز کا راج رہا اور65 ہزار کے قریب واقعات رپورٹ ہوئے۔ روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں شایع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق، سال کے گیارہ ماہ کے دَوران47 ہزار سے زائد گاڑیاں اور موٹر سائیکلز چھینی یا چوری کی گئیں، جب کہ شہریوں سے 18ہزار سے زائد موبائل فون بھی چھینے گئے۔اِن واقعات کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ ڈاکوؤں نے چھینا جھپٹی کے دَوران 105شہریوں کو گولی مار کر قتل، جب کہ375 کو زخمی کردیا۔اِسی طرح کراچی میں اغوا کے 2ہزار سے زاید واقعات سامنے آئے، جن میں371بچّے بھی شامل تھے۔

گزشتہ برس اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں صوبے کے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے بھی رپورٹ ہوئیں۔ ایسے علاقے جنہیں ماضی میں اِس حوالے سے محفوظ تصوّر کیا جاتا تھا، وہاں بھی شہری لُٹیروں کے رحم و کرم پر رہے۔21ویں صدی کے24 ویں سال بھی سندھ کو کاروکاری کی قبیح رسم سے نجات نہ مل سکی کہ شکارپور، گھوٹکی، کشمور، جیکب آباد اور سکھر سمیت مختلف علاقوں میں123 افراد’’غیرت‘‘ کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے۔اِس دوران کراچی میں بھی تین افراد کے قتل کو پولیس نے کاروکاری کا شاخسانہ قرار دیا۔سندھ میں زمینوں پر قبضے کی منظّم کارروائیاں جہاں شہریوں کے لیے دردِ سر ہیں، وہیں یہ قیامِ امن کے لیے بھی ایک چیلنج ہیں۔

سندھ، خاص طور پر کراچی میں زمینوں پر قبضے کی کارروائیوں کو’’ سسٹم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، جسے حکومتی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ گزشتہ برس کے آخری دنوں میں اِس’’ سسٹم‘‘ کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا، جس کے دَوران چند اہم گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ کہا گیا کہ یہ آپریشن کاروباری افراد کی اُن شکایات کے بعد شروع ہوا، جو اُنھوں نے آرمی چیف سے دورۂ کراچی کے دَوران کی تھیں۔اِس ضمن میں ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ’’ سسٹم‘‘ کے خلاف وسیع آپریشن ممکن نہیں، کیوں کہ اِسے کچھ ایسی شخصیات کی پُشت پناہی حاصل ہے، جن کے خلاف کارروائی کی صُورت میں وفاقی حکومتی نظام کے دھڑن تختے کا خدشہ ہے۔

صوبے میں ایم بی بی ایس کی17 ہزار 615 اور بی ڈی ایس کی تین ہزار837 نشستوں کے لیے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ)طلبا و طالبات، اُن کے والدین، محکمۂ تعلیم اور حکومت کے لیے دردِ سر بنا رہا۔نشستیں پُر کرنے کے لیے حسبِ معمول ٹیسٹ لیا گیا، تو پتا چلا کہ پرچہ تو پہلے ہی آؤٹ ہوچُکا تھا، جس پر معاملہ سندھ ہائی کورٹ جا پہنچا اور پھر عدالتی حکم پر نتائج روک لیے گئے۔ 

بعدازاں، ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتیجے میں 12 افراد کو ملزم نام زَد کیا گیا اور ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ناظمِ امتحانات، نائب ناظمِ امتحانات اور اسسٹنٹ ایڈمن آفیسر سمیت کئی ملزمان گرفتار کرلیے گئے۔ 8 دسمبر کو آئی بی اے سکھر کے تحت دوبارہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کا انعقاد ہوا۔ 

  ادبی و ثقافتی تقاریب نے صوبے کے سافٹ امیج کو چار چاند لگائے 

اُدھر سندھ کابینہ کے ایک خصوصی اجلاس میں یونی ورسٹیز کے وی سیز کی تقرّری کی پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ اب کسی بیورو کریٹ کو بھی وائس چانسلر بنایا جاسکے گا۔ اِس فیصلے پر جہاں اساتذہ تنظیموں نے سخت ردّ ِعمل دیا، وہیں میاں رضا ربّانی سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں نے بھی اِس پر تحفظّات کا اظہار کیا۔ 

سندھ حکومت نے ملازمتوں پر بھرتیوں کی اجازت ملنے کے بعد خالی، بالخصوص کم گریڈ کی اسامیاں تیزی سے پُر کرنے کا آغاز کیا، جب کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت بھرتی کیے گئے سیکڑوں کالج اساتذہ کو ملازمت کے پروانے بھی دئیے گئے۔

نومبر میں شعبۂ تعلیم سے ایک اچھی خبر یہ آئی کہ وزیرِ تعلیم سندھ، سردار علی شاہ کے زیرِ صدارت اجلاس میں پاکستان کی پہلی’’ٹرانس جینڈر ایجوکیشن پالیسی‘‘ کا مسوّدہ منظور کیا گیا، جس کے تحت سندھ کے اسکولز و کالجز کے داخلہ فارم میں مرد اور خواتین کے ساتھ، ٹرانس جینڈر بچّوں کے لیے بھی خانہ مختص ہوگا۔ نیز، اساتذہ کی بھرتیوں میں بھی ان کے لیے کوٹا مختص کیا جائے گا۔

صوبے میں سال بَھر ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا، تاہم اِن کا عروج اُس وقت دیکھنے میں آیا، جب آرٹس کاؤنسل آف پاکستان، کراچی کے صدر، محمّد احمد شاہ نے مُلکی تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کلچرل فیسٹیول سجایا، جس میں دنیا کے 40 ممالک کے 500سے زاید فن کاروں نے38 روز تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

پھر دسمبر میں آرٹس کاؤنسل ہی کے تحت17 ویں عالمی اردو کانفرنس نے شہریوں کو اپنے طرف کھینچ لیا۔ اِس چار روزہ کانفرنس کے64 سیشنز میں بلامبالغہ ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ عوامی جوش و خروش کا یہ عالَم تھا کہ آرٹس کاؤنسل کے دونوں بڑے آڈیٹوریم، وسیع لان اور ہالز نے عوام کو اپنے اندر سمونے سے معذرت کرلی، جس پر پروگرامز قریبی پارک منتقل کرنے پڑے۔اِسی طرح لیاقت نیشنل لائبریری میں دو روزہ’’ سندھ لٹریچر فیسٹیول‘‘ ہوا، تو اُنہی دنوں ایکسپو سینٹر میں19 ویں سالانہ کتب میلے نے کراچی اور سندھ کے سافٹ امیج میں اضافہ کیا۔پانچ روزہ کتاب میلے میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زاید افراد آئے اور ایک اندازے کے مطابق اُنھوں نے کئی کروڑ روپے کی کتب خریدیں۔ 

البتہ، پبلشرز کی جانب سے اسٹالز کے بڑھتے کرایوں پر شکوہ بھی موضوعِ بحث رہا۔سندھی کلچر ڈے سمیت مختلف قومیتوں نے اپنے ثقافتی دنوں پر صوبے بَھر میں جشن منایا۔ داؤدی بوہرہ جماعت کے روحانی پیشوا، سیّدنا مفضّل سیف الدّین نے سالانہ اجتماع عشرۂ مبارکہ کے لیے کراچی کا انتخاب کرکے شہر کو عزّت و وقار بخشا۔اِس موقعے پر دنیا بَھر سے اُن کے ہزاروں معتقدین کراچی آئے اور محرم کے پورے عشرے کے دَوران تقاریب کا سلسلہ جاری رہا، جس کے لیے سندھ حکومت نے بہترین انتظامات کر رکھے تھے۔