• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2024ء قومی اور صوبائی سطح پر سیاسی افراتفری، بےیقینی، اقتدار کی رسّا کشی اور مظاہروں کا سال تھا کہ گزشتہ برس8فروری کو عام انتخابات کے بعد مُلک کی سیاسی بساط پر شروع ہونے والا شطرنجی چالوں کا کھیل سال کے اختتام تک ہی جاری رہا۔

سالِ رفتہ سیاسی و معاشی اعتبار سے اتنا اہم تھا کہ اس کے نقوش 2025ء میں بھی قدم قدم پر نظر آئیں گے۔ یوں بھی مُلک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناتے مُلکی سطح پر ہونے والی کسی بھی سیاسی یا سماجی ہل چل کے ڈانڈے بالواسطہ یا بِلاواسطہ طور پر پنجاب سے ضرور ملتے ہیں۔

سابق نگران وزیرِاعلیٰ (اب وفاقی وزیرِداخلہ) محسن نقوی کی حکومت جنوری 2023ء سے فروری 2024ء تک رہی اور پھر عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کی کام یابی کے بعد 26 فروری کو مریم نواز نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اُٹھایا، جب کہ پی ٹی آئی نے حسبِ روایت پنجاب میں بھاری اکثریت حاصل کرنے اور فارم 47 میں ردّو بدل کے ذریعے اپنی جیت کوشکست میں تبدیل کرنےکا الزام عائد کیا۔

نیز، تحریکِ انصارف کی جانب سےانتخابی دھاندلی کے خلاف درجنوں عذر داریاں بھی داخل کی گئیں، جن کا سال کے آخر تک کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ بہرکیف، مسلم لیگ (نون)صوبائی اسمبلی میں سب سےبڑی جماعت کےطورپر سامنے آئی، جب کہ پی ٹی آئی نے حزبِ اختلاف کا کردارادا کیا۔

سیاسی اتار چڑھاؤ: ہر چند کہ عام انتخابات کے بعد لگ بھگ پورے مُلک ہی کا سیاسی منظرنامہ افراتفری و انتشار کی تصویرکشی کرتا رہا، تاہم پنجاب کی سیاست میں اُس وقت زیادہ تلاطم اور ہیجان پیدا ہونا شروع ہوا، جب پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا اور پنجاب میں جلسوں جلوسوں اور مظاہروں کا آغاز کیا۔ اِن میں سے دو احتجاجی جلسوں میں وزیرِاعلیٰ کے۔ پی۔ کے علی امین گنڈا پور عوام اور میڈیا کی توجّہ کا مرکز بنے رہے کہ جب وہ لائولشکر سمیت ڈی چوک کے لیے روانہ ہوئے۔

اِس دوران رُکاوٹیں دُور کرنے کے لیے وہ اپنےساتھ ہیوی مشینری اورکرینز بھی لائے، لیکن 6 اکتوبر کے احتجاجی جلسے میں وہ ڈی چوک پہنچنے سے پہلے ہی پُراسرار طور پر غائب ہوگئے اور پھر اچانک خیبرپختون خوا اسمبلی میں نمودار ہوئے اور اسمبلی کے فلور پر اُنہوں نے اپنی ’’گم شُدگی‘‘ کی جو وجوہ پیش کیں، اُن پر بہت کم لوگوں نے اعتبار کیا۔

اپنی احتجاجی تحریک کا زور ٹوٹنے پر اکتوبر میں پی ٹی آئی واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم نظرآئی اور کارکنان نے پنجاب اور وفاق میں موجود پارٹی کےاعلیٰ عُہدےداروں کو’’اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ‘‘ قرار دے دیا، جسے پی ٹی آئی میں اب تک کا آنے والا سب سے بڑا بھونچال قرار دیا جا رہا ہے۔ اِسی عرصے میں وفاقی حکومت، اسلام آباد میں زبردست حفاظتی حصار میں ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے اجلاس کے انعقاد میں کام یاب ہوئی۔

مریم نواز نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِاعلیٰ کی حیثیت سے حلف اُٹھایا

دریں اثنا، وفاقی حکومت نے عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی۔ تاہم، بعدازاں 26ویں آئینی ترمیم کے ضمن میں عمران خان کی، پی ٹی آئی کے مخصوص رہنمائوں سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ گرچہ 20اکتوبر کو حکومت سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم منظور کروانے میں کام یاب رہی، لیکن اس ترمیم سے قبل پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں جس قسم کی سیاسی سرگرمیاں دیکھنےمیں آئیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ بعد ازاں، بانی پی ٹی آئی نے چوبیس نومبر کو ڈی چوک پر ’’فائنل احتجاج‘‘ کی کال دی، تو پنجاب سمیت پورے مُلک میں ایک ہل چل سی مچ گئی۔

سیاسی مبصّرین کے مطابق یہ کال عمران خان اور پی ٹی آئی کے ورکرز کے لیے ’’آر یا پار‘‘ کی حیثیت رکھتی تھی اور پی ٹی آئی قیادت کو اُمید تھی کہ اس بار پنجاب سے بھی بڑے تعداد میں قافلے آئیں گے۔ عمران خان کی فائنل کال کے بعد جی ٹی روڈ اور پنجاب کے مختلف شہروں کو ملانے والی دیگر موٹرویز بند ہونے سے پنجاب کے شہریوں کو آمد و رفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ 26نومبر کی شب ڈی چوک پر جمع ہونے والے مظاہرین کے خلاف پولیس نے کریک ڈائون کیا۔

اس ضمن میں پی ٹی آئی قیادت نے دعویٰ کیا کہ اُن کے ورکرز پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی اور پھر ہلاکتوں، لاشوں کو ٹھکانے لگانے اور لاپتا افراد کے بارے میں افواہوں کا ایک ایسا بازار گرم ہوا کہ جن کی حقیقت تلاش کرنے کی جستجو کا سلسلہ غالباً 2025ء میں بھی جاری رہے گا۔

پہلی خاتون وزیرِاعلیٰ: شدید سیاسی محاذ آرائی اور آلودہ سیاسی فضا میں 10 ماہ قبل جب مریم نواز نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِاعلیٰ کا حلف اُٹھایا،توصوبےکےعوام بالخصوص خواتین کو یقین تھا کہ وہ اپنے بیانات اور عزائم کے مطابق پنجاب کے عوام کے دُکھ درد دُور کرنے کے ضمن میں اہم کردار ادا کریں گی۔ گرچہ اس قلیل مدّت میں کسی بڑی یا انقلابی پیش رفت کی توقّع نہیں کی جاسکتی تاہم، بلاشبہ اُن کے عملی اقدامات اور منصوبے خاصے متاثرکُن ہیں جن کے نتائج برآمد ہونے میں بہرحال وقت لگے گا۔

گزشتہ برس پنجاب میں شروع کیے جانے والے اہم منصوبوں میں مقامی طور پر سولر پینلز کی تیاری کے لیے فنڈ کا قیام، سرگودھا میں کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی منظوری، 17اضلاع میں خواتین کو 2ارب روپے کی لاگت سے 11 ہزار مویشی دینے کا فیصلہ، کسانوں کے لیے پنجاب کے پہلے لائیو اسٹاک کارڈ کا اجرا، پنجاب میں پہلی مرتبہ جنگلی حیات شمار کرنے کا فیصلہ، لاہور میں صوبے کی پہلی ماڈل فِش مارکیٹ کے قیام کا منصوبہ، جھینگے برآمد کرنے کی تجویز، پنجاب کے مزید 9 اضلاع میں ’’دستک پروگرام‘‘ شروع کرنے کی تجویز، صوبے میں پہلی بار کاربن کریڈٹ اسکیم کا اجراء، 7ہزار سے زائد ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی سے چلانے کا منصوبہ، ائیر ایمبولینس کے لیے ایئراسٹرپ بنانے کی منظوری، پنجاب کی 25 جامعات میں ریگولر وائس چانسلرز کی تعیناتی، ’’اپنی چھت، اپنا گھر‘‘، ’’پڑھو پنجاب‘‘ اور اجتماعی شادیوں کا منصوبہ، پاکستان میں پہلی مرتبہ پلاٹس کے ملکیتی کاغذات اور شناختی کارڈ کی نقل پرقرضہ دینےکی منظوری سمیت دیگر منصوبے قابلِ ذکر ہیں۔ وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ جب مریم نواز نے کسی منصوبے کا اعلان نہ کیا ہو۔ البتہ یہ منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچتے ہیں یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

 صوبائی حکومت نے متعدّد متاثر کُن منصوبوں کا آغاز کیا

دُنیا کا آلودہ ترین شہر: گزشتہ کئی برسوں کی طرح 2024ء میں بھی لاہور نے دُنیا کے آلودہ ترین شہر کا ’’اعزاز‘‘ برقرار رکھا کہ سالِ رفتہ توایئرکوالٹی انڈیکس ایک ہزار پوائنٹس سے بھی تجاوزکرگیا، حالاں کہ 200 پوائنٹس سے کم ایئر کوالٹی انڈیکس کوصحت کے لیے اطمینان بخش سمجھا جاتا ہے۔

نیز، ماضی کی طرح گزشتہ برس بھی فضا میں موجود زہرناک آلودگی نے شہریوں کی بڑی تعداد کو سانس، سینے اور آنکھوں کےامراض سمیت دیگرکئی امراض میں مبتلا کیا، جن سے متاثر ہوکر کم و بیش 20لاکھ مریضوں نے مختلف اسپتالوں کا رُخ کیا۔

گرچہ حکومت اور محکمۂ ماحولیات ہر سال عوام کو خُوب تسلیاں دیتے ہیں کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، کارخانوں، اینٹوں کےبھٹّوں اور فصلیں جلانے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جارہی ہیں، لیکن ہنوز اِن اقدامات کے کوئی مثبت نتائج دیکھنے میں نہیں آرہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب رفتہ رفتہ اسموگ نے پنجاب کے دیگرشہروں، راول پنڈی، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور سیالکٹ وغیرہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اِس ضمن میں ایک موقعے پر وزیرِاعلیٰ پنجاب نے یہ بھی کہا کہ وہ مشرقی پنجاب میں فصلوں کی باقیات نذرِآتش کرنے سے متعلق بھارتی حُکّام سے بات کریں گی۔

لاہور نے دُنیا کےآلودہ ترین شہر کا ’’اعزاز‘‘ برقرار رکھا 

بہرکیف، اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس اسموگ سے عوام کی جان کب چُھوٹے گی۔ یاد رہے،اس وقت صوبائی دارالحکومت، لاہور میں 60لاکھ گاڑیاں اور 40 لاکھ موٹرسائیکلزرواں دواں ہیں، جب کہ پورے پنجاب میں ان کی تعداد 2کروڑ سے بھی زائد ہے۔

نیز، اِس میں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ واضح رہے، ماہرین نے آلودگی کے پھیلائو اوراضافے کی سب سے بڑی وجہ فیکٹریز اوردھواں خارج کرنے والی گاڑیوں ہی کو قرار دیا ہے۔

طلبہ کے مظاہرے: اکتوبر 2024ء میں پنجاب کا صوبائی دارالحکومت، لاہور اُس وقت دُنیا بھَر کے میڈیا کی نظروں میں آیا کہ جب ایک نجی کالج کی طالبہ سے گارڈ کی مبیّنہ زیادتی کی ایک جھوٹی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس کے بعد تو افواہوں اور طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اِس دوران سوشل میڈیا پر حکومت اور طلبہ کے درمیان لڑی جانے والی جنگ نے لوگوں کو اس قدر شش و پنج میں مبتلا کردیا کہ حقیقتِ حال جاننا گویا ناممکن ہوگیا، جب کہ اِس نازک موقعے پر نام نہاد یوٹیوبرز نے اپنی ویور شپ بڑھانے کے لیے انواع و اقسام کی کہانیاں بھی گھڑلیں۔

ہر چند کہ دس سے پندرہ روز کی بحرانی صورتِ حال کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا، لیکن اس دوران طلبہ کے مظاہروں کی شدّت دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ خدا نخواستہ احتجاج کا یہ سلسلہ بنگلادیش کی طرح پورے مُلک میں نہ پھیل جائے۔

امن و امان کا مسئلہ: گزشتہ برس مُلک بَھر کی طرح پنجاب میں بھی امن و امان کی صورتِ حال کچھ خاص تسلّی بخش نہیں رہی۔ کّچے کے ڈاکوئوں کی جانب سے اِغوا برائے تاوان کی وارداتوں سمیت جرائم کے دیگر واقعات اکثر و بیش ترخبروں کا موضوع بنتے رہے۔ تاہم، امن وامان کی مجموعی صورتِ حال کےحوالےسے آئی جی پنجاب، ڈاکٹر محمّد عثمان نے دعویٰ کیا کہ صوبے میں جرائم پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔

اس ضمن میں اُنہوں نے یکم اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا، جس میں دعویٰ کیا کہ 2024ء میں صوبۂ پنجاب میں پولیس نے 12809جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا اور ان جرائم پیشہ افراد کا تعلق 5127 گینگز سے تھا۔ اس کے علاوہ 5 ارب ر وپے سے زائد مالیت کی اراضی قبضہ مافیا سے واگزار کروائی گئی اور دارالحکومت، لاہور میں2863 گینگز پکڑے گئے۔ گرچہ پیش کردہ اعداد و شمار میں کسی بہت سنگین واردات کا ذکرنہیں ہوا، اور حقیقتاً بھی کوئی اتنی بڑی واردات سامنے نہیں آئی کہ جس سے صوبے کے امن وامان ہی پرسوالیہ نشان لگ جائے۔

تاہم، عمومی طورپرخانگی جھگڑوں سے لےکر، اغوا برائے تاوان، بچّوں، خواتین کے ساتھ شدید مارپیٹ، ظلم و ستم، جنسی زیادتی، پولیس کا ناروا طرزِعمل، رشوت خوری، کرپشن اورعدم تحفّظ جیسے معاملات اور شکایات سارا سال سامنے آتی رہیں۔ عوام الناس کے لیے پولیس اور تھانے بدستور خوف کی علامت بنے رہے۔ جب کہ پنجاب پولیس کو بہت حد تک جلسے جلوسوں، مظاہروں، ہڑتالوں کی روک تھام اور ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ میں انگیج رکھا گیا۔

 اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کا لاہور ایئر پورٹ پہنچنے پر شان دار استقبال کیا گیا

اولمپک چیمپئن، ارشد ندیم کا شان دار استقبال: جیولن تھروور، ارشد ندیم اولمپکس میں پاکستان کے لیے 40 سال بعد طلائی تمغہ جیتنے کے بعد پیرس سے لاہور پہنچے، تو اُن کا لاہور ائیر پورٹ پر فقیدالمثال استقبال کیا گیا ۔ گزشتہ برس اگست 2024ء میں علاّمہ اقبال ائیرپورٹ پرشاید پہلی مرتبہ کسی فاتح کھلاڑی کی آمد پہ اس طرح نعروں، مبارک بادوں کی گونج سُنی گئی، جب کہ کرکٹ اور ہاکی سمیت دیگر کھیلوں کے اکثر کھلاڑی سالِ رفتہ رات کے اندھیرے میں خاموشی سے پاکستان میں وارد ہوئے۔

لاہور سے ارشد ندیم اپنے گاؤں میاں چُنوں ایک پُر ہجوم قافلے کی صُورت روانہ ہوئے اور راستے بھرلوگ اُن پرمحبتوں، انعامات کےپھول نچھاور کرتے رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان پہنچتے ہی اولمپکس چیمپئن پر انعامات کی ایسی بارش ہوئی کہ دُنیا دیکھ کر حیران رہ گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی کھلاڑی کو ملنے والے تحائف کی مالیت 47 کروڑ روپے، 7اپارٹمینٹس اور9 لگژری گاڑیوں پر مشتمل ہے۔

نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے اوپن فائل سسٹم کے خاتمے کا فیصلہ

ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نیب: قیامِ پاکستان کے بعد مُلک کی آبادی میں بےتحاشا اضافے کے بعد جب لوگوں کو رہائش کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، توپرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز بننا شروع ہوئیں۔ اس دوران لینڈ مافیا نے لاہور کے گردونواح میں زرخیز زمینوں کو برباد کرکے رہائشی آبادیوں کے نام پر صارفین کو جس طرح دونوں ہاتھوں سے لُوٹا، وہ ایک الگ طویل اور اذیّت ناک داستان ہے، جس میں شہری اپنے کھربوں روپوں سے محروم ہوگئے، جب کہ ایک سوسائٹی کے متاثرین تو مالک کے انتقال پر قبرستان تک پہنچ گئے اور مظاہرہ کر کے لاش دفن کرنے کی اجازت نہیں دی۔

ان سوسائٹیز نےصارفین کو دھوکا دینےکی درجنوں تراکیب نکال رکھی ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مالکان سوسائٹی کے پلاٹس، بینکس میں گروی رکھ کراربوں کا قرض لیتے ہیں اور پھر صارفین سے پلاٹس کی پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود بھی بینکس کا قرضہ نہیں اتارتے۔ جس پر بینکس رہائشی کی جائیداد نیلام کردیتے ہیں۔

بہرحال، دسمبر 2024ء میں ڈی جی نیب لاہور، امجد مجید اولکھ نے ماہانہ کُھلی کچہری میں 200سے زائد متاثرین کے سامنے یہ اعلان کیا کہ اب نجی ہائوسنگ سوسائٹیز میں اوپن فائل سسٹم کا خاتمہ کردیا جائے گا اور راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کے جاری سیکیوریٹی پیپرزہی پر پلاٹ کی الاٹمنٹ جاری کی جائےگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابتدائی طور پر’’روڈا‘‘کے زیرِانتظام ہائوسنگ سوسائٹیز میں پلاٹس کی شفّاف خرید و فروخت کے لیے سیکیوریٹی الاٹمنٹ پیپر کے اجراء کی پالیسی بنائی گئی ہے، جسے دوسری سوسائٹیز میں بھی جلد نافذ کیا جائے گا۔

جس کے بعد ہاؤسنگ سوسائٹیز اپنے پرنٹڈ فارمز کی بجائے حکومتِ پنجاب کے جاری کردہ سیکیوریٹی پیپرز ہی پر فائلز کی الاٹمنٹ کرسکیں گی اور اِس طور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مالکان کی دھوکا دہی اور فراڈ کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ ماہرین کے مطابق اگر نیب لاہور کی اس پالیسی پر مکمل عمل درآمد ممکن ہوگیا، تو لاکھوں افراد سُکھ کا سانس لیں گے۔