وطنِ عزیز میں سال ہا سال سے سیاست کے نام پر جاری تماشے کے پیشِ نظر قابل نام وَر شخصیات کے تاریخی اقوال یاد آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانسیسی جرنیل اور بعدازاں وزیرِ اعظم اور صدرِ مملکت رہنے والے چارلس ڈی گلو نے سیاست دانوں سے متعلق ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیاست اس قدر سنجیدہ معاملہ ہے کہ اِسے محض سیاست دانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘‘
امریکی مزاح نگار اور مصنّف، فرینکلن پی ایڈمز نے ایک ایسا شاہ کار جملہ کہا ہے کہ جو دُنیا بَھر کے سیاست دانوں پر صادق آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس مُلک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاست دانوں کی بہتات ہے، جنہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ بعد ازاں، رُوسی سیاسی مدبّر، نکیتا خورشیف نے، جنہوں نے سرد جنگ کے دوران اپنے مُلک کی قیادت کی تھی، یہی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’دُنیا بَھر کے سیاست دان ایک جیسے ہوتے ہیں۔
یہ وہاں بھی پُل بنانے کا وعدہ کر لیتے ہیں کہ جہاں دریا ہی نہیں ہوتا۔‘‘ اسی طرح امریکی مصنّف اور شاعر، کارل سینڈ برگ کا یہ جملہ کتنا خُوب صُورت ہے کہ ’’ایک سیاست دان کے پاس تین ہیٹس ہونے چاہئیں، ایک اچھالنے کے لیے، ایک وقت گزاری کے لیے اور ایک منتخب ہو جانے کی صورت خرگوش نکالنے کے لیے۔‘‘ جب کہ سابق جرمن چانسلر، بسمارک نے کہا تھا کہ ’’سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔‘‘
اور یہی بات کسی پنجابی شاعر نے اپنے انداز میں یوں بیان کی ہے کہ ’’ایتھے کُجھ وی ہو سکدا اے (یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے)…مچّھر کٹّا چو سکدا اے (مچّھر بھینس کے بچّے کا دُودھ نکال سکتا ہے)…اُڈدی جاندی مکھی ہتھوں (اُڑتی ہوئی مکھی سے )…باندر ٹُکر کَھوہ سکدا اے (بندر روٹی چھین سکتا ہے)…بن سکدی اے لیڈر بکری (بکری لیڈر بن سکتی ہے)… پُوچھ تے شیر کھلو سکدا اے (شیر اپنی دُم پہ کھڑا ہوسکتا ہے)۔‘‘ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم، عمران خان کا دَورِ حُکم رانی واپس آسکتا ہے؟ کیوں کہ سیاست دان نامہرباں موسموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مُرجھا تو جاتے ہیں، مگر ختم نہیں ہوتے۔ سابق برطانوی وزیرِ اعظم اور مدبّر، ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ’’سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ انگیز اور خطرناک ہوتا ہے۔
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے
جنگ میں تو آپ ایک بار رزقِ خاک ہو جاتے ہیں، مگر سیاست میں کئی بار مَرنا پڑتا ہے۔‘‘ جب کہ مائوزے تنگ کے بہ قول ’’سیاست، جنگ ہی کا دوسرا نام ہے۔ البتہ اس میں لوگ نہیں مارے جاتے، جب کہ جنگ، سیاست ہی کا پرتَو ہے، جس میں قتل و غارت گری ہوتی ہے۔‘‘ جب کہ جرمن جرنیل، کارل ون کلازوٹز کے مطابق ’’سیاست کی کوکھ میں جنگ پرورش پاتی ہے۔‘‘
امریکی ارب پتی اور سابق صدارتی امیدوار، روز پیرٹ نے کہا تھا کہ ’’جنگ کے قاعدے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ شکاگو میں کھیلی جانے والی مَڈ ریسلنگ کا بھی کوئی ضابطہ ہوتا ہے مگر سیاست میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی لڑائی میں بھی، جو اکتوبر2021ء میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ہٹائے جانے سے شروع ہوئی تھی اور10اپریل2022ء کو عدم اعتماد کے بعد باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہو گئی، اب کسی قسم کا کوئی اصول باقی نہیں رہا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ 2024ء عالمی سطح پر انتخابات کا سال تھا، کیوں کہ گزشتہ برس پاکستان سمیت کم و بیش 76ممالک میں عام انتخابات ہوئے اور اس دوران 4ارب 20کروڑ افراد نے اپنے نمائندے منتخب کیے۔ بھارت، بنگلادیش، امریکا، رُوس، برطانیہ، برازیل، انڈونیشیا، میکسیکو، تُرکی، جرمنی، فرانس، جنوبی کوریا، اسپین، تائیوان، نیدرلینڈز، اٹلی، پولینڈ اور سری لنکا سمیت کئی ممالک میں ووٹ کے ذریعے تبدیلی آئی، مگر وطنِ عزیز میں 8 فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے۔
سال بھر یہ افواہیں زیرِ گردش رہیں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان رہا ہو رہے ہیں، مگر 2024ء کے اختتام تک ان کے آزاد ہونے کی تمام اُمیدیں دَم توڑ گئیں۔ 12اگست 2024ء کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری اور پھر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونے سے ’’قیدی نمبر 804‘‘ کی مشکلات مزید بڑھ گئیں۔ جنرل (ر) فیض حمید کو تو سنگین نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے ہی، مگر اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں عمران خان پر بھی فوجی عدالت میں کورٹ مارشل کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے۔
شاید اسی قسم کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کے باعث عمران خان نے اسلام آباد میں منعقدہ ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے اجلاس کے موقعے پر 15اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کی کال دی اور پھر 24نومبر کو وفاقی دارالحکومت میں فائنل احتجاج کی کال دے دی گئی۔ امریکی مصنّفہ، نکولی ویلیس نے کہا تھا کہ’’سیاست کی مثال ایکس رے مشین کی سی ہے، جس میں ہر چیز آشکار ہو ہی جاتی ہے۔‘‘ تو اس حتمی احتجاج کے دوران عمران خان کی اہلیہ بُشریٰ بی بی بھی بے نقاب ہوگئیں۔
فائنل کال سے پہلے ہی انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان کو ایک متنازع بیان کے ذریعے اپنے مذموم سیاسی ایجنڈے کا حصّہ بنانے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ عمران خان کا ان کے ساتھ ننگے پاؤں سعودی عرب جانا ہی ان کا گناہ بن گیا۔
یہ بیان ’’مذہب کارڈ‘‘ کے استعمال کی بدترین شکل تھی۔ پھر بُشریٰ بی بی پشاور سے آنے والے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں اور کارکنوں سے حلف لیا کہ ’’عمران خان کو لیے بغیر واپس نہیں جانا۔‘‘ لیکن جب مشکل وقت آیا، تو وہ اور خود وزیرِ اعلیٰ کے پی کے پارٹی کارکنوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی سیاست میں ’’تین چیفس‘‘ کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ آرمی چیف، یعنی برّی فوج کے سالار، آئی ایس آئی کے سربراہ، یعنی ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ۔ 2024ء میں دو چیفس رُخصت ہو گئے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، جن کی مدّتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کی گئی تھی، ستمبر 2024ء میں اپنی مدّتِ ملازمت مکمل ہونے پر گھر چلے گئے اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے یہ منصب سنبھال لیا۔
دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جن کو ایکسٹینشن دیے جانے کی افواہیں زوروں پرتھیں، اکتوبر 2024ء میں مدّتِ ملازمت پوری ہو جانے پر اپنے عُہدے سے سبک دوش ہو گئے۔ البتہ 26ویں آئینی ترمیم کے باعث سینئر ترین جج، جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکے اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو یہ منصب سنبھالنا پڑا۔ البتہ تیسرے چیف یعنی آرمی چیف، جنرل سیّد عاصم مُنیر کی مدّتِ ملازمت 3سال سے بڑھا کر 5سال کر دی گئی۔
سال بھر بانی پی ٹی آئی کےرہا ہونے کی افواہیں زیرِ گردش رہیں ، مگر 2024ء کے اختتام تک ان کے آزاد ہونے کی تمام اُمیدیں دم توڑ گئیں
یادش بخیر، ’’قیدی نمبر 804‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ ’’نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، یہ کٹھ پُتلیاں ہیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ موجودہ حکومت یا سیاسی قیادت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ بات چیت صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہو گی۔‘‘
مگر گزشتہ برس ایک موقعے پر ان کے جاں نثار اور ایم این اے، شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا کہ ’’جب نواز شریف چاہیں گے، عمران خان تب رہا ہوں گے۔‘‘ ایک ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے فرمایا کہ ’’پاکستان کا سسٹم آج بھی نواز شریف کے تابع ہے۔
اگر عمران خان، نوازشریف سے معافی مانگ لیں، تو رہا ہو جائیں گے۔‘‘ جب کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہو گئی ہے، تو پھر موجودہ نظام کی کُنجی اُن کے پاس ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کو رہا کرنے کا اختیار نواز شریف کے پاس ہے، تو پھر ’’نونہالانِ انقلاب‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی دُعائیں کیوں کر رہے تھے؟
حالاں کہ پاکستانی نژاد امریکی ساجد تارڑ، جو نو منتخب امریکی صدر کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں، واضح کر چُکے ہیں کہ ’’عمران خان ٹرمپ کی پھوپھی کا پُتّر ہے کہ وہ حکومت میں آکر اسے رہا کروائیں گے۔‘‘ یادش بخیر، ’’مہاتما‘‘ ایک سے زائد مواقع پر فرما چُکے ہیں کہ ’’میرا قصور ’’ایبسلیوٹلی ناٹ‘‘ کہنا ہے۔ مَیں حقیقی آزادی کے لیے ڈٹ گیا تھا، تو اس لیے میری حکومت گرا دی گئی۔‘‘
بعد ازاں، ’’طفلانِ انقلاب‘‘ نے ’’ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ ڈالے‘‘ اور امریکی سازش یعنی ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ کے خلاف بہ طور احتجاج ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ جیسے سیاسی نعروں کے ذریعے سماں باندھ دیا، لیکن اب تازہ خبر آئی ہے کہ ’’ڈونلڈ لُو سے لڑائی ہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ ہمارا بھائی ہے۔‘‘
اس ضمن میں خیبرپختون خوا حکومت کے ترجمان، بیرسٹر سیف کے ذریعے بانی تحریکِ انصاف کا یہ مطالبہ سامنے آیا کہ پاکستان کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف امریکا آواز اُٹھائے اور پھر امریکی ایوانِ نمائندگان نے باقاعدہ قرارداد منظور کی کہ ’’پاکستان میں انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔‘‘
تعجب کی بات ہے کہ اتنی جلدی تو راجا داہر کی قید میں موجود خواتین قیدیوں کی پکار پر محمّد بن قاسم نے بھی لبّیک نہیں کہا تھا، جتنی سُرعت سے امریکی ایوانِ نمائندگان نے عمران خان کی داد رسی کا اہتمام کیا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ امریکی میڈیا نے بانی پی ٹی آئی کے حق میں مضامین شایع کیے، ان کے لیے بھرپور مُہم چلائی اور پھر 60ارکانِ کانگریس نے ’’قیدی نمبر 804‘‘ کو رہا کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
اس موقعے پر یوں لگا کہ شاید امریکا میں ’’نقشِ کُہن‘‘ مٹ گیا ہے، انتظامیہ بدل گئی ہے، جوبائیڈن اور ڈونلڈ لُو کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے، ’’نیا امریکا‘‘ وجود میں آ چُکا ہے اور اسی لیے سابقہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرکے اپنے ’’لاڈلے اتحادی‘‘ کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، مگر یہ سب ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار امریکی صدر منتخب ہو جانے سے پہلے کی باتیں ہیں۔
البتہ ’’طفلانِ انقلاب‘‘ نے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی اُمیدوں اور توقّعات کا مرکز بنالیا۔ ان کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جنوری 2025ء میں امریکی صدر کے طور پر حلف اُٹھانے کے بعد سب سے پہلے عمران خان کی رہائی کے پروانے پر دست خط کریں گے اور سب مشکلیں کافور ہو جائیں گی ۔
جرمن چانسلر، بسمارک نے کہا تھا کہ ’’سیاست ممکنات کا کھیل ہے، مگر برطانوی مدبّر، چرچل ان کے دعوے کو جُھٹلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’سیاست کھیل نہیں، سنجیدہ نوعیت کا کاروبار ہے۔‘‘ ہاں البتہ سابق امریکی صدر، فرینکلن ڈی رُوز ویلٹ نے بہت شان دار بات کہی کہ ’’سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طورپر نہیں ہوتا۔
اگر کوئی حادثہ بھی ہو، تو آپ شرطیہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔‘‘ یعنی اگر ’’قیدی نمبر 804‘‘ کی رہائی کی بات کریں، تو یہ سب ہو گا، تو قانونی عمل کے ذریعے، لیکن کسی ’’ڈِیل‘‘ یا ’’ڈِھیل‘‘ کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ نپولین بونا پارٹ کا فلسفہ ہے کہ ’’سیاست میں کبھی پیچھے نہ ہٹو، کبھی پسپائی اختیار نہ کرو اور کبھی غلطی تسلیم نہ کرو، کیوں کہ اگر ایک بار ٹھوکر لگ جانے پر پسپائی کا سفر شروع ہو جائے، تو آپ لڑھکتے چلے جاتے ہیں۔‘‘ عمران خان بھی شاید اسی فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔
تحریکِ انصاف نے امریکی ایوانِ نمائندگان کو مُلک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی
وہ موقعے کی مناسبت سے سیاسی حکمتِ عملی کے تحت پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتے، کیوں کہ اُنہیں معلوم ہے کہ ایک بار رجوع کرنے کی صورت اُن کے بیانیے کا محل زمیں بوس ہو جائے گا۔ امریکی ماہرِ علم الادیان، جیمز فری مین نے کہا تھا کہ ’’سیاست دان کے پیشِ نظر اگلا انتخاب ہوتا ہے، جب کہ مُدبّر اگلی نسل کے بارے میں سوچتا ہے۔‘‘ اگر ہم عمران خان جیسے ’’کلٹ لیڈرز‘‘ کی بات کریں، تو وہ اگلے انتخاب کے بارے میں بھی نہیں سوچتے، اپنی باری کا انتظار بھی نہیں کرتے بلکہ وہ تو خُلد سے نکالے جانے پر بغاوت پر اُتر آتے ہیں۔ سب کچھ تہس نہس کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔
اُن کی اس بے چینی و بے قراری اور اضطراب کا کوئی حل نہیں ہوتا اور جب تک اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہ کرلیں وہ سکون سے نہیں بیٹھتے۔ عمران خان اپنی مقبولیت کے باعث حقیقی لیڈر بن سکتے تھے، مزاحمت کا استعارہ اور جمہوری جدوجہد کی علامت قرار پا سکتے تھے، لیکن ’’کلٹ لیڈر‘‘ کی یہ کم زوری ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہو جاتا ہے اور خود کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے، حالاں کہ دُنیا بَھر کے قبرستان ایسے افراد کی قبروں سے بَھرے پڑے ہیں کہ جو خیال کرتے تھے کہ ان کے بعد سب کچھ برباد ہو جائے گا۔
ہاں البتہ ہمیں کُھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو غلط ثابت کیا اور بہت ثابت قدمی سے جیل کاٹی۔ وہ پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود سیاسی منظر نامے پر چھائے رہے۔ 2024ء کی رُوداد اُن کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور شاید 2025ء بھی عمران خان کی پرچھائیں سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔
آئی ایم ایف سے ڈِیل کے نتیجے میں معاشی اشارے بہتر ہورہے ہیں، مُلک میں غیر مُلکی سرمایہ کاری آرہی ہے، کرنسی مضبوط ہورہی ہے، افراطِ زر کی شرح کم ہورہی ہے اور اسی لیے شرحِ سود میں بڑی حد تک کمی آ چُکی ہے۔ شاید حکومت معاشی صورتِ حال میں کوئی بہتری لانے میں کام یاب ہوجائے، لیکن جب تک سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتِ حال ختم نہیں ہوتی، تب تک ترقّی و خوش حالی دیرپا نہیں ہو سکتی۔
گزشتہ برس26ویں آئینی ترمیم کے نکات پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے لے کر منظوری تک تقریباً دو ماہ کے عرصے میں سیاست دانوں کی ملاقاتیں، تجاویز، اختلافات، پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل، مسوّدے اور روٹھنا منانا شہہ سرخیوں میں زیرِ بحث رہا۔
اکتوبر کے وسط میں مُلک کی سیاست میں اُس وقت ہل چل پیدا ہوئی کہ جب آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے درکار ووٹس کے حصول کی خاطر حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی۔ اس دوران اپوزیشن رہنماؤں اور سربراہ جے یو آئی کے درمیان بھی ملاقاتیں ہوئیں۔
تاہم،حکومت کی کوششیں رنگ لائیں اور بالآخر مولانا فضل الرحمٰن نے آئینی ترمیم کی حمایت کا اعلان کر دیا، جس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظورکر لیا گیا۔