• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 25اکتوبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی 30ویں چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی مستعفی ہوئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اکتوبر میں چیف جسٹس بننا تھا۔

اُن کے استعفے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ سینئر موسٹ جج تھے، مگر 26 ویں آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی تعیّناتی کا طریقۂ کار تبدیل ہونے کے باعث وہ بھی چیف جسٹس نہ بن سکے۔ اُنہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں فُل کورٹ ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی اور عُمرے پر روانہ ہو گئے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ کے6 ججز نے عدالتی امور میں انٹیلی جینس ایجینسی کی مداخلت سے متعلق خط لکھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فُل کورٹ اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ میں مداخلت پر بھرپور ادارہ جاتی ردّعمل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں بھی اِس سے متعلق سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کے 10، اسلام آباد ہائی کورٹ کے8 اور لاہور ہائی کورٹ کے 6ججز کو آرسینک پاؤڈر والے دھمکی آمیز خطوط ملے۔ 

سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17سے بڑھا کر34 کرنے کا بِل منظور کیا گیا۔ آئینی کیسز کی سماعت کے لیے آئینی بینچ تشکیل دیا گیا۔ کیسز کا بوجھ کم کرنے کے لیے جسٹس طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم کو سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج مقرّر کیا گیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں سینئر موسٹ جج کی بجائے جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس آف پاکستان مقرّر ہوئے

بلّے کا نشان: سپریم کورٹ نے عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی سے بلّے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کی اور فیصلے دیا کہ پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن کارروائی کا مجاز ہے۔

اگر پارٹی نے خود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے، تو انتخابی نشان کیسے مانگ سکتی ہے؟ عدالتی فیصلے پر برطانوی ہائی کمشنر، جین میریٹ نے اعتراض کیا، جسے سپریم کورٹ نے بلا جواز قرار دیا۔ رجسٹرار نے برطانوی ہائی کمیشن کے نام خط میں کہا’’سپریم کورٹ نے وہی کیا، جو قانون کہتا ہے۔‘‘

تاحیات نااہلی ختم: سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل باسٹھ وَن ایف کی تشریح سے متعلق کیس کا فیصلہ سُناتے ہوئے تاحیات نااہلی ختم کر دی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سات رُکنی بینچ نے 6-1سے فیصلہ جاری کیا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدّت 5سال ہوگی۔ بینچ کے ایک رُکن، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلاف کیا۔ اِس عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین 8فروری کے عام انتخابات کے لیے اہل قرار پائے۔

مخصوص نشستوں کا کیس: سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔ انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ 

عدالت نے کہا’’اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحریکِ انصاف نے پہلے درخواست دائر کیوں نہ کی اور درخواست دائر کرنے سے قبل ہی اسے ریلیف کیوں دے دیا گیا۔‘‘ مخصوص نشستوں کے لیے سنّی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کر دی گئی ۔8ججز نے پی ٹی آئی کے حق میں اکثریتی فیصلہ دیا، جو جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 5ججز نے اختلاف کیا۔

ڈیم فنڈ کیس: سپریم کورٹ نے دیامر بھاشا، مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے ڈیم فنڈ میں موجود 23ارب، 67کروڑ83 ہزار 43روپے کی رقم وفاقی حکومت کے پبلک اکاونٹ میں منتقل کرنے کا حکم دیا اور رجسٹرار کے نام پر کھولا گیا بینک اکاؤنٹ بند کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

بھٹّو صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ذوالفقار علی بھٹّو کے خلاف ٹرائل شفّاف نہیں تھا۔ صدارتی ریفرنس پر9رُکنی لارجر بینچ نے متفّقہ رائے دی ’’ایک معصوم شخص کو لٹکایا گیا، انہیں غیر آئینی عدالتوں نے سزائے موت دی، جب کہ سزا کے لیے شواہد بھی ناکافی تھے۔ جس وقت کیس چلا عدالتیں، مارشل لا کی قیدی تھیں اور بنیادی حقوق معطّل تھے۔ آمر کی وفاداری کا حلف اُٹھانے والے ججز کی عدالتیں عوامی نہیں رہتیں۔‘‘

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس: سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کاؤنسل نے اُنہیں الزامات ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا۔

کاؤنسل پر لازم تھا کہ انکوائری کروا کے تعیّن کرتی کہ درخواست گزار جج یا جواب گزار جسٹس انور کاسی اور فیض حمید وغیرہ میں سے کون سچّا تھا۔ عدالت نے لکھا’’ریٹائرمنٹ کی عُمر کو پہنچنے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کو بحال نہیں کیا جا سکتا، تاہم اُنہیں ریٹائرڈ جج کی تمام مراعات دی جائیں۔‘‘

’’بلّے‘‘ کے فیصلے نے سیاسی ہل چل مچائی، تو مخصوص نشستوں کا کیس بھی سُرخیوں میں رہا

نیب ترامیم کیس: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیل میں کہا کہ عمران خان نے درخواست نیک نیّتی سے دائر نہیں کی، درخواست قابلِ سماعت نہیں، بہت سی ترامیم کے معمار وہ خود تھے اور نیب ترامیم کو غیر آئینی ثابت نہیں کر سکے۔ دورانِ سماعت عمران خان اڈیالہ جیل سے وڈیو لنک پر بطور پٹیشنر عدالت میں پیش ہوئے اور ان کی تصویر لیک ہونے پر کافی واویلا بھی مچا۔

پرویز مشرّف کیس: سپریم کورٹ نے سنگین غدّاری کیس میں پرویز مشرّف کی سزائے موت برقرار رکھی، جب کہ خصوصی عدالت کو غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر دیا۔ عدالت نے آبزرویشن دی ’’پرویز مشرّف کے 12اکتوبر1999ء کے اقدامات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے، تحقیقات ہوتیں، تو 3نومبر کا واقعہ نہ ہوتا۔‘‘

لاپتا افراد کیس: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے کسی بھی شہری کو لاپتا نہ کرنے کی تحریری یقین دہانی طلب کی، جو اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروائی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا’’ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔ لاپتا افراد سنجیدہ مسئلہ ہے، اسے سیاسی نہ بنائیں اور سب ذمّے داری اُٹھائیں۔‘‘ بلوچ لاپتا افراد کیس کی سماعت میں وفاق نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی کہ حکومتی کوششوں سے 95میں سے 91لاپتا بلوچ طلبہ بازیاب کروائے جا چُکے ہیں۔

اِسی کیس میں عدالتی حکم پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت میں پیش ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احمد فرہاد کیس میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز، ڈائریکٹر آئی بی، وزیرِ قانون اور سیکرٹری داخلہ و دفاع کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے’’ججز سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں، لاپتا کرنے والوں کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی ہونی چاہیے۔‘‘ عدالتی کارروائی کے نتیجے میں لاپتا شاعر کی 15دن بعد آزاد کشمیر کے ایک مقدمے میں گرفتاری ظاہر کی گئی۔

توہینِ عدالت کیس: سینیٹر فیصل واؤڈا اور رُکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیانات اور پریس کانفرنس پر توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے، تاہم غیر مشروط معافی پر کارروائی ختم کر دی گئی۔ میڈیا چینلز کو بھی پریس کانفرنس نشر کرنے پر نوٹس جاری ہوئے، جو غیر مشروط معافی پر واپس لیے گئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے’’ شخصیات اور اداروں کی توہین، آزادیٔ صحافت نہیں۔‘‘

مونال ریسٹورنٹ: سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک میں غیر قانونی ریسٹورنٹس اور کاروباری سرگرمیاں بند کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا ’’قانون کے مطابق نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بعدازاں، فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں بھی مسترد کر دی گئیں۔

آڈیو لیکس کیس: سپریم کورٹ نے آڈیو لیک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستّار کے فون ٹیپنگ سے متعلق عدالتی حُکم نامہ معطّل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کو مزید کارروائی سے روک دیا۔ عدالت نے کہا’’اسلام آباد ہائی کورٹ کے 29مئی اور 25جون کے احکامات آئینی اختیارات سے تجاوز ہے۔‘‘ 

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا ’’ہائی کورٹ آرڈر کے باعث کسی دہشت گرد کو نہیں پکڑ پا رہے، کیوں کہ عدالتِ عالیہ نے آئی ایس آئی اور آئی بی کو فون ٹیپنگ اور سی ڈی آر سے روک دیا ہے اور انٹیلی جینس ایجینسیاں کاؤنٹر انٹیلی جینس نہیں کر پا رہیں۔‘‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں ٹیلی کام کمپنیز کو نگرانی کے لیے فون ریکارڈنگ سے روکتے ہوئے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی اور اس کے استعمال سے روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ٹیلی کام کمپنیز کا ایکوئپمنٹ غیر قانونی سرویلنس کے لیے استعمال ہوا، تو ان پر اس کی ذمّے داری عائد ہو گی۔ جسٹس بابر ستّار نے دورانِ سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کو خط لکھا’’سیکیوریٹی اسٹیبلشمینٹ کے ٹاپ آفیشل کا پیغام ملا ہے کہ سرویلنس کے طریقۂ کار کی اسکروٹنی سے پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘

سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر34 کردی گئی

مبارک ثانی کیس: قادیانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مبارک ثانی کی ضمانت منظورکرنے کے فیصلے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب حکومت نے نظرثانی کی درخواست کی، جو سپریم کورٹ نے علماء کی تجاویز کی روشنی میں منظور کرتے ہوئے ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھا، لیکن فیصلے کے متنازع پیراگراف 7اور 42کو حذف کرنے کا آرڈر جاری کیا۔

سائفر کیس سزا کالعدم: اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں بَری کرتے ہوئے خصوصی عدالت سے سُنائی سزا کالعدم قرار دے دی۔ ججز نے ریمارکس دیئے’’ایسا لگتا ہے، یہ پہلے سے لکھا فیصلہ تھا۔ ایک کاغذ گم ہونے پر ایک شخص کیوں جیل میں بند ہے، ریاست کی سیکیوریٹی کیسے خطرے میں پڑ گئی؟ سپریم کورٹ کی ججمنٹ ہے کہ ملزم تسلیم بھی کر لے، تب بھی پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنا ہے۔‘‘

عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا پابندی: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عدالتی کارروائی کی الیکٹرانک میڈیا میں رپورٹنگ پر پابندی کے پیمرا نوٹی فکیشن کے خلاف کورٹ رپورٹرز کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کو بھی عدالتی پروسیڈنگ رپورٹ کرنے کی اجازت دے دی۔ پیمرا نے الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں پر عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے پر پابندی عائد کی تھی، جب کہ اخبارات کے صحافیوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔

ٹیریان وائٹ کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی سربراہی میں تین رُکنی لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف مبیّنہ بیٹی، ٹیریان وائٹ کو گزشتہ عام انتخابات کے لیے جمع کروائے گئے کاغذاتِ نام زدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دینے کی درخواست خارج کردی۔ 

اِس سے قبل یہ درخواست چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں تین رُکنی لارجر بینچ کے پاس زیرِ سماعت اور فیصلہ محفوظ تھا، تاہم اُن کے دست خط کے بغیر جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمّد طاہر کی طرف سے جاری فیصلے کو عدالت کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کرنے کے بعد تنازع سامنے آیا۔ چیف جسٹس بینچ سے الگ ہو گئے اور سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دیا، جس نے گزشتہ بینچ کے اکثریتی فیصلے کے بعد مزید کارروائی نہ کرنے اور پرانے آرڈر کی توثیق کا فیصلہ سُنایا۔

عمران خان کو سزاؤں کے ساتھ ریلیف بھی ملتا رہا

ڈی سی اسلام آباد سزا: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستّار نے عدالتی حکم کے باوجود پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کے ایم پی او آرڈر جاری کرنے پر توہینِ عدالت کیس میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کو 6ماہ، ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل ظفر کو 4ماہ، جب کہ ایس ایچ او ناصر محمود کو دو ماہ قید کی سزا سُنائی۔

عمران، بشریٰ بی بی ضمانت منظور: اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ضمانت منظور کی۔ 190ملین پاؤنڈ کیس میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور کی گئی۔ توشہ خانہ وَن کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطّل کر کے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔

ججز مخالف مہم پر توہینِ عدالت کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین ججز، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستّار اور جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہینِ عدالت کے کیسز شروع کیے گئے۔ جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف مبیّنہ جعلی ڈگری اور جسٹس بابر ستّار کے خلاف امریکی شہریت رکھنے کا پراپیگنڈا کیا گیا، جب کہ جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کاؤنسل میں دائر شکایت پر سوشل میڈیا مہم چلی۔

ٹرائل کورٹس: احتساب عدالت کے جج محمّد بشیر نے توشہ خانہ نیب کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 14-14سال قید بامشقّت اور اور کسی بھی عوامی عُہدے کے لیے 10سال کے لیے نااہلی کا فیصلہ سُنایا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمّد ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10-10سال قید بامشقّت کی سزا سُنائی۔ 

اسلام آباد کی سِول عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدّت میں نکاح کا مجرم قرار دیتے ہوئے 7-7سال قید کی سزا سُنائی، تاہم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج افضل مجوکا نے دونوں کو عدّت کیس میں بَری کر دیا۔ گوجرانوالہ کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 9مئی کیسز کا پہلا فیصلہ سُناتے ہوئے 51ملزمان کو 5-5سال قید کی سزا سُنائی۔ انسدادِ دہشت گردی عدالت، اسلام آباد کے جج طاہر عباس سپرا نے 9مئی احتجاج کے 10ملزمان کو مجموعی طور پر6-6 سال قید اور جرمانے کی سزا سُنائی۔

سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف کیس: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو85 ملزمان کے کیسز کے فیصلے سُنانے کی اجازت دی۔ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ عدالت نے کہا’’جنہیں رہا نہیں کیا جا سکتا، اُنہیں جیل منتقل کیا جائے اور جنہیں سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے، اُنہیں رعایت دے کر رہا کیا جائے۔‘‘

سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے نیویارک بار سے خطاب میں خواہش ظاہر کی کہ جب بھی مارشل لا کا خطرہ ہو، تو عدالتیں کُھلی ہوں۔ کاش!عدالتیں5 جولائی کو بھی کُھلی ہوتیں، جب ضیاء نے منتخب وزیرِ اعظم کو ہٹایا۔ کاش!عدالتیں 12اکتوبر 1999ء کو بھی کُھلی ہوتیں،جب مشرّف نے منتخب وزیرِ اعظم کو باہر پھینکا۔