• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلامی دُنیا میں امن و سُکوں کی خواہش حسرت میں بدلتی جارہی ہے کہ ہر نیا برس گزشتہ سال کے مقابلے میں اُمّتِ مسلمہ کے لیے زیادہ ہول ناک ہی ثابت ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2024ء میں 2023ء سے بھی زیادہ مسلمانوں کے خون کا خراج لیا گیا۔

11ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر حملوں کے بعد امریکا کی شروع کی گئی ’’صلیبی جنگ‘‘ نے سالِ رفتہ اپنے پنجے مزید پھیلائے اوراسرائیل نے فلسطین کے بعد لبنان پر بھی بم باری شروع کردی، جب کہ 7اکتوبر2023ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی بم باری کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینی باشندوں کی تعداد45ہزار سے تجاوز کر چُکی ہے اور ان میں اکثریت بچّوں اور نوجوانوں کی ہے۔ 

نیز، سالِ رفتہ فلسطینی مسلمانوں کو تحریکِ مزاحمت کے 2جرّی قائدین، اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ دریں اثنا، خانہ جنگی کے شکار شام میں اسد خاندان کے نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوا، جب کہ بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو کر بھارت فرار ہوگئیں۔

امّتِ مسلمہ کو تحریکِ مزاحمت کے دو جری قائدین، اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا

فلسطین: فلسطین میں 7اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ جب وہاں مظلوم، نہتّے فلسطینیوں کا لہو نہ بہا ہو۔گزشتہ برس اسرائیل نے دن میں متعدّد مرتبہ غزہ پر بم باری کا سلسلہ جاری رکھا اور اب تک اس اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چُکے ہیں، جن میں اکثریت بچّوں اور نوجوانوں کی ہے۔

اس دوران اسرائیل نے بلا تخصیص ہر شعبہ ٔہائے زندگی سے وابستہ افراد کو نشانہ بنایا، چاہے انہیں اقوامِ متّحدہ یا کسی دوسرے عالمی امدادی ادارے کا تحفّظ ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ ہر چند کہ اس وقت غزہ مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل ہو چُکا ہے، تاہم اسرائیل کی خون کی پیاس نہیں بُجھی اور وہ ان کھنڈرات میں رہائش پذیر بے گھر فلسطینیوں کو بھی تواتر سےاپنی فضائی و زمینی فوج کی مدد سے نشانہ بنارہا ہے۔ 

اسرائیل کی وحشیانہ بم باری سے شہید فلسطینی باشندوں کی تعداد 45ہزار سے تجاوز کر گئی

اسرائیلی بم باری کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شدید زخمی، جب کہ ہزاروں معذورہو چُکے ہیں۔ ڈاکٹرز، طبّی عملہ، صحافی، اساتذہ اور امدادی اداروں کے کارکنان سمیت کوئی بھی اسرائیل کی وحشیانہ بم باری سے محفوظ نہیں رہا۔ دریں اثنا، 4 دسمبر کو اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراردادمنظور کی، جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

قرارداد میں مشرقی بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹّی پر اسرائیلی قبضے کو ناجائزقرار دیا گیا اور1967ءکی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا گیا۔ اس قرارداد کی امریکااور اسرائیل نے مخالفت کی، جب کہ7ممالک نے ووٹنگ میں حصّہ ہی نہیں لیا۔ اس سے قبل نومبر کے آخری عشرے میں ہیگ میں قائم’’ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ ‘‘نے فلسطینیوں کے قتلِ عام پر اسرائیلی وزیرِاعظم، بن یامین نتن یاہو اور مستعفی وزیرِ دفاع یووگیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ 

تاہم، اسرائیل نے ان وارنٹس کو مسترد کردیا، جب کہ یورپی ممالک اور برطانیہ نے ان وارنٹس کی تکمیل پر عمل کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ اگر وہ برطانیہ یا دیگر یورپی ممالک میں آئے، تو ان وارنٹس کی تکمیل کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا جائے گا۔27 اکتوبر کو اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی باشندوں کی امداد کے لیے محفوظ راستوں کی فراہمی سے متعلق قرارداد منظور کی۔ 

اس قرارداد کے حق میں120ممالک نے ووٹ دیا، امریکااور اسرائیل سمیت14 ممالک نے مخالفت کی، جب کہ 45ممالک نے ووٹنگ میں حصّہ نہیں لیا۔ 11نومبر کو سعودی عرب کے دارالحکومت، ریاض میں او آئی سی اور عرب لیگ کا غیرمعمولی سربراہ اجلاس منعقد ہوا، جوکہ صرف قراردادوں کی منظوری ہی تک محدود رہا۔ اجلاس کے اعلامیے میں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمّت کی گئی اور کہا گیا کہ ’’فلسطینی ریاست کو آزاد اور اسی حالت میں بحال کیا جائے کہ جس میں وہ4جون 1967ءکوتھی اور مشرقی بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔‘‘

مگر افسوس کہ اس غیر معمولی اجلاس اور اس کی قراردادوں کو اسرائیل حسبِ سابق خاطر میں نہیں لایا اور اس نے فلسطینی علاقوں پر بم باری جاری رکھی۔گزشتہ برس اسرائیل نے فلسطین پر اپنی مسلّط کردہ جنگ میںنہ صرف حماس کے رہنما، اسماعیل ہنیہ اور حزبُ اللہ کے سربراہ، حسن نصراللہ کو دو علیحدہ علیحدہ کارروائیوں  میں شہید کیا بلکہ صرف غزہ سے 19لاکھ فلسطینیوں کو بے دخل بھی کردیا۔

 لبنان میں ’’کاغذی جنگ بندی‘‘ کے باوجود حملے جاری رہے

لبنان: سالِ رفتہ اسرائیل اور لبنان میں جنگ بندی ضرور ہوئی ، تاہم یہ صرف کاغذوں ہی تک محدود رہی اور جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے بیروت اور اس کے نواح میں بم باری کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں اب تک بیروت میں 4ہزار سے زائد شہری شہید ہو چُکے ہیں، البتہ اس نام نہاد جنگ بندی سے حزبُ اللہ کواپنے شہدا کی تدفین کا موقع ضرور مل گیا، جس کے نتیجے میں دسمبر کے دوران بیروت اور گردونواح میں تواتر سے اجتماعی قبروں میں شہدا کی تدفین کا سلسلہ جاری رہا۔

دوسری جانب بیروت میں ہونے والی ہلاکتوں میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے، کیوں کہ اب تک ہزاروں لبنانی شہری لاپتا ہیں، جن کے تباہ شُدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبنے کا خدشہ ہے۔ اس جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل نے لبنان کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا ، جن میں اوڈیسہ، مارون الراس، آئیطاایشاب وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔

شام: کم وبیش ایک دہائی سے خانہ جنگی کے شکار شام میں نومبر کے وسط میں اچانک صورتِ حال تبدیل ہونا شروع ہوئی کہ جب کئی علاقے صدر، بشارالاسد کی دسترس سے نکل گئے اور باغی گروہ، حیات تحریر الشام نے مزید کئی شہروں پر قبضہ کرلیا۔ اس موقعے پر باغیوں نے اپنی اس پیش رفت کو اسرائیل کی مسلّط کردہ جنگ کا نتیجہ قرار دیا۔

واضح رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میںاب تک ایک کروڑ 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چُکے ہیں اور ان میں سے نصف ایران اور ترکیہ سمیت دیگر ممالک میں پناہ لے چُکے ہیں۔ دوسری جانب شام کی صورتِ حال میں اس اچانک تبدیلی کا سبب ترکیہ کی فوج کا شامی حدود میں آ کر کارروائی کرنا اور وہاں بشار حکومت کی مدد کے لیے موجود ایرانی رضاکار القدس فورس کے جنرل کی وطن واپسی بھی بنا۔بعدازاں، 7دسمبر کو باغی دمشق میں داخل ہوگئے، جس کے بعد تمام سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرلیا گیا، جن میں صدارتی محل بھی شامل ہے۔

انقلاب کے بعد بشار الاسد نے طیّارے کے ذریعے عراق فرار ہونے کی کوشش کی، تاہم بدامنی کی وجہ سے یہ فیصلہ ملتوی کردیا۔ بعدازاں، ان کے طیّارے کو ایران لے جانے کی کوشش بھی اس لیے ترک کردی گئی کہ راستے میں خطرات زیادہ تھے اور پھر بشار الاسد فرار ہو کر ماسکو پہنچ گئے۔ اس دوران شام کے سابق صدرکے حوالے سے یہ خبریں بھی زیرِگردش رہیں کہ رُوس فرار ہوتے ہوئے ان کا طیّارہ ریڈار سے غائب ہونے کے بعد تباہ ہوگیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔تاہم، کسی آزاد ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ 

بہر کیف، اس بغاوت کے نتیجے میں حافظ الاسد کے دَور سے شروع ہونے والا اسد خاندان کا54سالہ دورِ اقتداراختتام پذیر ہو ا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس نصف صدی سے زائد عرصے میں باپ اور بیٹے کے ہاتھوں تقریباً 4لاکھ شامی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس وقت شام سے ایرانی رضاکار فورسز اور رُوسی افواج نکل چُکی ہیں، جب کہ اسرائیلی فوج شام میں داخل ہوگئی ہے۔ 

قبل ازیں، دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کے دوران باغیوں کے اتحاد نے السودیدا کی فوجی چوکیوں پر بھی قبضہ کرلیا اور گورنر وہاں سے فرار ہوگیا، جب کہ 30نومبر کو حلب پر قبضے کے دوران باغیوں اور سرکاری فورسز میں جھڑپوں کے دوران240افراد ہلاک ہوئے۔

سوڈان: 2024ء میں سوڈان میں بھی خانہ جنگی کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس خانہ جنگی کے نتیجے میں صرف خرطوم میں 14ماہ کے دوران60ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چُکے ہیں۔ تاہم، ’’سوڈانی امریکن فزیشنز ایسوسی ایشن‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق مارے گئے سوڈانیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اقوامِ متّحدہ سے منسلک ایک اور ادارے،’’ آرمڈ کانفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ‘‘  کے مطابق اس عرصے میں سوڈان کے دیگر علاقوں میں مارے جانے افراد کی تعداد 20ہزار سے زائد ہے۔

نائیجیریا: 2024ء میں نائیجیریا میں بوکو حرام اور اسلامک اسٹیٹ کے شہریوں پر حملوں کا سلسلہ سال بَھر جاری رہا۔ اس برس نائیجیریا کے مختلف علاقوں  میں حملوں، خود کُش دھماکوں اور دیگر کارروائیوں  میں  6سو کے قریب عام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ مختلف واقعات میں ان دونوں تنظیموں نے خواتین کی بڑی تعداد بھی اغوا کی۔

 شام میں بشار الاسد اور بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کا دَورِ اقتدار ختم ہوا

بنگلادیش: اب ذکر ہوجائےبنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کے16سالہ آمرانہ حکومت کے خاتمے کا۔ جون 2024ء میں طلبہ نے کوٹے کے خاتمے اور ان میں اصلاحات کی مُہم شروع کی، تو کسے پتا تھا کہ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف عوامی لیگ کے اقتدار کا سورج غروب ہوجائے گا، بلکہ بنگلا دیشی وزیرِاعظم، شیخ حسینہ واجد مستعفی ہو نے کے بعد فرار ہو کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارتی شہر، اگر تلہ پہنچ جائیں گی۔ 

وہی اگرتلہ، جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کا مرکزتھا۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی نہیں، تو پھراور کیا ہے کہ جہاں شیخ حسینہ کے والد، شیخ مجیب الرحمٰن نے بھارتی وزیرِاعظم، اندرا گاندھی کے ساتھ مل کر علیحدگی اور بغاوت کے تانے بانے بُنے تھے، وہیں اس کی بیٹی اپنی ذلّتِ سامانی کے ساتھ پہنچی اور 5 اگست 2024ء اس ان ہونی کے ظہور پذیر ہونے کا دن ٹھہرا۔ اس کے نتیجے میں بنگلا دیش اپنے پڑوسی مُلک، بھارت کے تسلّط سے بھی آزاد ہوا اور وہاں اس کا اثرونفوذ ختم ہوا۔ 

طلبہ کی اس تحریک نے دو ماہ میں جہاں بھارتی تسلّط کے53سالہ دَور کا خاتمہ کیا، وہیں پاکستان کے لیے دوستی اور تعلقات کی نئی راہیں بھی کھولیں۔ تاہم، یہ انقلاب اتنی آسانی سے نہیں آیا، بلکہ اس کی خاطر تقریباً500طلبہ اور عام شہریوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلا دیشی عوام جولائی 2024ء کو ’’خونی جولائی‘‘ یا ’’قتلِ عام کے مہینے‘‘ سے یاد کرتے ہیں۔

دوسری جانب عوامی لیگ، اس کی طلبہ تنظیم، ’’چھاترا لیگ ‘‘اور پولیس کے منظّم حملوں کے نتیجے میں 20ہزار سے زائد بنگلا دیشی زخمی ہوئے ، جب کہ 11ہزار سے زائد افراد کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان میں شامل طلبہ تنظیم کے ذمّے داران کو بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ 

دو ماہ کے عرصے میں بنگلا دیشی حکومت نے اس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ تمام تعلیمی ادارے بند کردیے گئے، شہروں میں  کرفیو نافذ کیا گیا، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بند کردی گئیں ، حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر بھی پابندی عائد کر دی گئی، مگر طلبہ کے جوش و جذبے کو شکست نہ دی جا سکی۔

تحریک کے دوران طلبہ اتحاد نے 9مطالبات پیش کیے، جو اختتام پر صرف ایک مطالبے تک محدود ہو کر رہ گئے اور وہ مطالبہ یہ تھا کہ وزیرِ اعظم، شیخ حسینہ واجد مستعفی ہوں۔ اسی احتجاج کے نتیجے میں21جولائی کو سپریم کورٹ نے مختلف کوٹوں کا تناسب56فی صد سے کم کر کے7فی صد کر دیا۔ 

تاہم، جولائی کے آخری عشرے میں تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی اور اس کی حمایت میں بنگلا دیش کے ہر مکتبۂ فکر سے آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئیں۔ 28جولائی کو پولیس نے صرف ڈھاکا سے ایک دن میں28سو افراد کو گرفتار کیا۔ 

یکم اگست کو طلبہ اتحاد نے اپنے جاں بحق ساتھیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’ہیروز کی یاد میں‘‘ کے عنوان سے دن منایا، تو نہ صرف پولیس نہتّے طلبہ پر ٹوٹ پڑی، بلکہ بنگلا دیشی حکومت نے جماعتِ اسلامی، اس کی طلبہ تنظیم، ’’بنگلا دیش اسلامی چھاترا شبر‘‘ اور اس سے متعلقہ دیگر تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا۔ 

پولیس نے اس روز 3 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ حکومت کے اس ظلم و ستم پر طلبہ تحریک نے 3اگست کو مذاکرات کی حکومتی پیش کش مسترد کر دی اور ڈھاکا بَھر سے طلبہ اور شہری شہید مینار پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اس روز مختلف شہروں میں پولیس کی فائرنگ سے درجنوں مظاہرین لقمۂ اجل بنے۔ 5 اگست کو فوج نے اپنے عوام پر گولیاں برسانے سے انکار کرتے ہوئے وزیرِاعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور پھر اُسی روز شیخ حسینہ واجد وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو کر اپنے دفتر سے نکلیں اور ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر بھارت فرار ہو گئیں۔ شیخ حسینہ واجد کے مُلک سے فرار ہونے کے بعد مظاہرین نے ڈھاکا میں نصب شیخ مجیب الرحمٰن کے تمام قدِآدم مجسّمے توڑ ڈالے۔

حسینہ واجد کے فرار ہونے کے بعد بین الاقوامی شُہرت یافتہ ماہرِ معیشت، ڈاکٹر یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرّر کیا گیا۔ بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پاکستان سے تقریباً دو دہائیوں کے بعد ایک تجارتی بحری جہاز چٹاگانگ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ 

علاوہ ازیں، بنگلا دیش اور پاکستان کے مابین 25ہزار ٹن چینی کی خریداری کا معاہدہ بھی ہوا۔ اس معاہدے کے تحت جنوری 2025ء میں پاکستانی بحری جہاز چینی لے کر بنگلا دیش کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگا۔ 

اس کے ساتھ ہی بنگلا دیشی حکومت نے پاکستانیوں کی بنگلا دیش آمد کے لیے عائد سیکیوریٹی کلیئرینس کی ناروا شرط بھی ختم کر دی، جوکہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے دَورِ حکومت میں عائد کی تھی۔ علاوہ ازیں، بنگلا دیش کی جانب سے پاکستان کو تجارتی نمائش میں شرکت کی باضابطہ دعوت بھی دی گئی۔ دوسری جانب بنگلا دیش اور پاکستان کے مابین پیدا ہونے والی اس قُربت کے نتیجے میں بھارت میں صفِ ماتم بچھ گئی اور بھارتی میڈیا نے اسے مودی حکومت کی ایک بڑی ناکامی قرار دیا۔