• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ مگر زیر زمین معدنیات کےوسیع ذخائر کے اعتبار سے امیرترین صوبہ ہے۔ ان میں ضلع چاغی میں ریکوڈک کے مقام پر سونے اور چاندی کے 5.9ارب ٹن کے ذخائر بھی ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں۔ یہاں چالیس سال تک کان کنی ہو سکتی ہے۔ ماضی میں ان ذخائر کی تلاش کیلئے معاہدے ہوئے،پھر ان پر مقدمہ بازی بھی ہوئی اور آخر میں ان کی تنسیخ ملکی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل غیر ملکی کمپنی بیرک گولڈ کے ساتھ اس کے 50فیصد شیئرز فروخت کرنے کا معاہدہ ہواجبکہ باقی 50فیصد وفاق اور بلوچستان کے حصے میں آئے۔کام کو آگے بڑھانے کیلئے وفاقی حکومت نے اب بین المملکتی لین دین کےقانون کے تحت سعودی عرب کو اپنے حصے میں سے 15فیصد شیئرز فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے،جن کی مالیت 540ملین ڈالر یعنی تقریباً ایک کھرب 50ارب 80کروڑ روپے کے مساوی ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق سعودی عرب کو پہلے مرحلے میں منصوبے کے 10فیصد شیئرز ملیں گے،جس کیلئے وہ پاکستان کو 303ملین ڈالر (92ارب روپے) ادا کرے گا۔ دوسرے مرحلے میں باقی 5فیصد شیئرز کی فروخت سے پاکستان کو 210ملین ڈالر (58ارب44کروڑ روپے) ملیں گے۔ پہلی قسط کی ادائیگی ابتدائی 10فیصد شیئرز کی منتقلی کے فوری بعد متوقع ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کے ایک نئے دور کا عکاس قرار دیا جارہا ہے۔سعودی عرب نے ریکوڈک مائنز ،جہاں 40سال تک کان کنی ہو سکتی ہے، کے علاوہ بلوچستان میں دوسری معدنی دولت کی تلاش میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں اب تک تقریباً 40انتہائی قیمتی زیرزمین معدنیات کے وسیع تر ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ 50سے ایک سو سال تک ملکی ضروریات پوری کرسکتے ہیں،ان میں تیل، گیس، سونا، تانبا، یورینیم، لوہے، کوئلے، گرومائٹ، سیسے، نکل، زنک، یاقوت، گندھک، گرینائٹ، چونا، کھریا مٹی فاسفیٹ، جپسم، المونیم، سیلیکون، سلفر، اور پلوٹینم وغیرہ کے ذخائر بھی شامل ہیں۔ ریکوڈک سے 10ارب کلو گرام تانبا اور 36کروڑ 80لاکھ گرام سونا ملنے کی توقع ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2024میں ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح 0.92فیصد رہی۔ اس میں کان کنی کی شرح نمو منفی4.6فیصد تھی جو نہایت افسوسناک ہے۔ایک ایسے ملک میں جو معدنی دولت سے مالامال ہے، کان کنی کی یہ شرح سوچنے سمجھنے کے کئی دروازے وا کرتی ہے۔ بلوچستان پر بھر پور توجہ دی جائے تو نہ صرف اس بدحال صوبے بلکہ پورے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ چین کی مدد سے اقتصادی راہداری کے جس منصوبے پر کام ہو رہا ہے، اس کے اپنے بے پناہ ثمرات ہیں۔ اسی طرح دوسرے قدرتی وسائل کو بھی بروئے کار لانے کیلئے بھرپور توجہ درکار ہے۔ سعودی عرب ریکوڈک اور کان کنی کے دوسرے وسائل پر سرمایہ کاری میں جو دلچسپی لے رہا ہے، اس سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہئے۔ صرف ریکوڈک منصوبہ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے طویل ساحل سمندر میں بھی کھربوں ڈالر کا تیل اور گیس موجود ہے۔ ضرورت اس سے استفادہ کرنے کیلئے سرمایہ کار تلاش کرنے کی ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات اگرچہ اس کیلئے فی الحال پوری طرح سازگار نہیں ہیں مگر توقع ہے کہ سیاسی استحکام آنے سے اس سمت میں فائدہ بخش پیشرفت ہو گی۔ اس کیلئے سیاسی پارٹیوں کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ مل جل کر میثاق معیشت کیلئے کام کرنا ہوگا اور اقتدار کی رسہ کشی کو قومی و ملکی مفادات کے تابع کرنا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی پس منظر میں مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام ہی کسی قوم کی بقا کی موثر ضمانت بن سکتا ہے۔

تازہ ترین