• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میٹنگ میں تاخیر سے پہنچنے پر شہباز شریف کی گُھوریوں کا سامنا کرنا پڑا (سولہویں قسط)

پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی
پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی

کہنے کو تو اُس وقت پنجاب کے وزیرِاعلیٰ غلام حیدر وائیں تھے، مگر تمام معاملات پر وہ میاں شہباز شریف ہی سےمشاورت کرتے اور افسروں کی پوسٹنگز، ٹرانسفرز کے فیصلے تو شہبازشریف صاحب ہی کی منظوری سے ہوتے تھے، وائیں صاحب تو صرف انگوٹھا لگاتے تھے۔ لاہور میں جرائم کی روک تھام اور امن و امان کی نگرانی بھی براہِ راست شہباز شریف ہی کے کنٹرول میں تھی۔ 

اس ضمن میں ایک بااختیار کرائم کنٹرول کمیٹی قائم کی گئی تھی، جس کے سربراہ شہبازشریف تھے اور میاں اظہر، ارشد لودھی، میاں محمود الرشید (جو اُس وقت جماعتِ اسلامی کے ایم پی اے تھے اور اب پی ٹی آئی میں ہیں) اُس کے ممبرز تھے، اُس کی ہر روز صُبح سات بجے الحمرا آرٹس کائونسل کے کانفرنس روم میں میٹنگ ہوتی تھی، جس میں لاہورکےکمشنر، ڈی آئی جی، ایس ایس پی، ڈی سی، ایس پی سٹی اور ایس پی کینٹ کے لیے شریک ہونا لازم تھا۔ 

شہباز شریف روزانہ سفید رنگ کی ایک سوزوکی کلٹس میں آتے تھے، وہ کسی قسم کی سیکیوریٹی،پروٹوکول یا کرّوفر کے شوقین نہیں تھے۔ اُن کا لباس، گاڑی،رہن سہن سب سادہ تھا، مگر تھے وہ بڑے محنتی اور Hard Task Master۔ اپنے ٹارگٹ کے حصول کےلیے بڑے جوش وجنون سے پیچھے لگ جاتے تھے۔ وہ صُبح بہت جلد اُٹھنے کے عادی ہونے کی وجہ سےعین سات بجےمیٹنگ روم میں پہنچ جاتے، مگر ہم پولیس افسروں کے لیے، جنہوں نے رات دو تین بجے تک پیٹرولنگ بھی کرنی ہو،صبح تیار ہو کر اتنی جلدی پہنچنا بڑا مشکل تھا۔ 

اس لیے مَیں اکثر میٹنگ میں کچھ تاخیر سے پہنچتا توشہبازشریف کی ’’گُھوریوں‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن مَیں نظر انداز کرکے یوں اپنی سانسیں درست کرنےلگتا، جیسے گھر سے دوڑتا ہوا آیا ہوں۔ شہباز شریف مجھےلیٹ پہنچنے پر تنبیہ کر رہے ہوتے کہ ایس ایس پی اسرار (جومجھ سے بھی پانچ منٹ لیٹ پہنچتے) بھی ہانپتے کانپتے کمرے میں داخل ہوتے۔ کم و بیش روزانہ کا یہی معمول تھا۔ مَیں پولیس کلب سے نکلتے ہی ڈرائیور سے کہتا۔ ’’گاڑی بھگاؤ، آج ہر صُورت شہبازشریف سے پہلے پہنچنا ہے۔‘‘ اور الحمرا اُترتے ہی نظر دوڑاتا کہ شاید سفید رنگ کی کلٹس ابھی نہ پہنچی ہو، مگر یہ حسرت کبھی پوری نہ ہوسکی۔ ہمیشہ سفید کلٹس پہلے ہی پہنچی ہوئی ہوتی، جسے دیکھتے ہی میں کانفرنس روم کی طرف دُڑکی لگادیتا اور ہانپتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا۔ میاں اظہر بڑے شریف النفّس آدمی تھے، بات کرتے ہوئےذرا ہِلتے تھے، اُن کاجسم Stable نہیں رہتا تھا۔ 

اُنہیں غالباً میری صاف گوئی اور جارحانہ پولیسنگ کا انداز پسند آگیا تھا، تو وہ مجھے سپورٹ کرنے لگے۔ لودھی صاحب بلاوجہ کے فلاسفر تھے، کوئی خاص موثرگفتگو نہیں کرسکتے تھے۔ ایک باروہ اپنے ضلع ساہی وال کے ایس ایس پی (اب ڈی پی او) کو کوئی کام نہ کرنے پر تبدیل کروانا چاہتے تھے، تو انہوں نے اِس طرح کی کہانی گھڑی کہ ’’جناب میاں صاحب! ہمارے ضلعی صدر، ورکرز کا کوئی مسئلہ لےکر ایس ایس پی ساہی وال کے دفتر گئے، توایس ایس پی آگے سے جامنوں (جامن) کھارہا تھا، اب دیکھیں جی، یہ کوئی بات ہےکہ پولیس والے جامنوں کھاتے رہیں اورہمارے ورکرز ذلیل ہوتےرہیں۔ دوسری بار پھرگئے، تو بھی جامنوں کھا رہا تھا۔‘‘ اِس پر اسرار صاحب نے کہا۔ ’’جامنوں وی لُون لایاں بغیر کھاریا سی۔

ایہہ واقعی جُرم بندا اے (جامن بھی نمک لگائے بغیر کھارہا تھا، یہ تو واقعی جُرم بنتا ہے) اُس پرشرکاء ہنس پڑے۔ شہباز شریف یہ پسند نہیں کرتے تھےکہ باقاعدہ میٹنگ میں کوئی افسر غیر سنجیدہ بات کرے، لہٰذا انہوں نے افسران کو سیریس رہنے کی تنبیہہ کی۔ ایک روز لاہور میں دو تین سنگین وارداتیں ہوگئیں، صبح میٹنگ میں آتے ہی اُن کی اخبارات کے تراشوں پر نظر پڑی، تو اُن کا پارہ آسمان چُھونے لگا۔

الحمرا آرٹس کاؤنسل کے میٹنگ روم میں، ہر روز صُبح سات بجے شہباز شریف کی سربراہی میں ایک میٹنگ ہوتی
الحمرا آرٹس کاؤنسل کے میٹنگ روم میں، ہر روز صُبح سات بجے شہباز شریف کی سربراہی میں ایک میٹنگ ہوتی

اُنہوں نے پولیس افسران پر چڑھائی کردی اور خاصے غصّے کا اظہار کیا۔ میٹنگ کے بعد ایس ایس پی نے پولیس لائنز میں تمام پولیس افسروں کی میٹنگ بلائی، جس میں اُنہوں نے افسروں کو کیس ٹریس کرنے کے خصوصی احکامات دیئے۔ اِس کے بعد انہوں نے ایس پی سی آئی اے کو اپنے دفتر بلا کر کچھ ’’خصوصی ہدایات ‘‘بھی دیں۔

دوسرے روز ایس پی سی آئی اے، چوہدری اصغر بھی(جو رینکس سے پروموٹ ہوا تھا) اسرار احمد کے ساتھ آیا۔ میٹنگ شروع ہوتےہی اسرار صاحب نے کہا۔ ’’سر! آپ کی خصوصی ہدایات پرہم نے پولیس کی چھے سات ٹیمز بنادی ہیں، جو مجرموں کے پیچھے لگ گئی ہیں، ان شاءاللہ سارے مجرم پکڑے جائیں گے۔ 

فی الحال، ایس پی سی آئی اے چوہدری اصغر کو کافی کام یابی حاصل ہوئی ہے اور انہوں نے کئی بڑے خطرناک گینگ پکڑ لیے ہیں۔ اِس پر شہباز شریف بڑے خوش ہوئے اور چوہدری اصغر کو شاباشی دیتے ہوئے کہا۔ ’’چوہدری صاحب! بتائیں، کون کون سے گینگ پکڑے ہیں اور اُنہوں نے لاہور کی کون کون سی وارداتوں کا اقرار کیا ہے؟‘‘چوہدری اصغر پنجابی میں شروع ہوگئے۔ 

’’جُناب! اَساں پنڈ دادن خان دے دو گینگ، اِک ڈیرے توں پَھڑے نیں۔‘‘(ہم نے پنڈ دادن خان کے دو گینگ، ایک ڈیرے سے پکڑے ہیں۔)’’اچھا، تو وہ کیا کیا مانے ہیں؟‘‘ ’’جناب! او پنج وارداتاں چکوال دیاں، تے اَٹھ وارداتاں جہلم دیاں مَن گئے نیں۔ (وہ پانچ وارداتیں چکوال اور آٹھ جہلم کی مان گئے ہیں۔) اِس توں علاوہ جناب! اساں چارگینگ سوہاوے توں پَھڑے نیں۔‘‘ ’’اور…وہ کہاں کہاں کی وارداتیں مانے ہیں؟‘‘ شہبازشریف نے پوچھا۔ ’’جناب! او باراں پنڈی دیاں، تے اَٹھ وارداتاں گوجرخان دیاں مَن گئے نیں۔‘‘(جناب وہ بارہ وارداتیں پنڈی کی اورآٹھ گوجر خان کی مان گئے ہیں)۔ 

اس پرشہباز شریف غصّے میں آگئے اور کہنے لگے۔ ’’چوہدری! تم جہلم اور گوجر خان سے آگے بھی آئو۔ ہم توقّع کر رہے تھے کہ لاہور کی وارداتیں ٹریس ہوئی ہوں گی، تم سوہاوے اور جہلم ہی میں گھوم رہے ہو۔ گوجرخان کی کہانیاں سُناتے پِھر رہے ہو۔‘‘ چوہدری اصغر اپنے احمقانہ انداز سے شرکاء کو متاثر تو کیا کرتے، اُلٹا مذاق بن گئے۔ 

اُن کی ناکام اینٹری کے کچھ روز بعد ایس ایس پی اسرار نے الحمرا سے باہر نکل کر مجھے علیحٰدہ لے جا کرکہا۔ ’’آج رات ریڈ لائٹ ایریا پر ریڈ کردیں، وہاں سے بھی کافی اشتہاری مجرم ملنے کا امکان ہے۔‘‘ اسرارصاحب چوں کہ خُود موسیقی اورفنونِ لطیفہ کے بڑے دل دادہ تھے، اِس لیے اُن سے یہ اُمید نہ تھی کہ وہ ریڈ لائٹ ایریا پر ریڈ کی ہدایات دیں گے۔ 

مَیں نے کہا۔ ’’سر! پہلے ہم سنگین جرائم ٹریس کرلیں، پھر اُس کو بھی دیکھ لیں گے۔‘‘ مگروہ ریڈ پر مصر رہے۔ چنانچہ ایک رات پورے سٹی ڈویژن کی فورس کے ساتھ پورے ایریا کو Cordon off کیا گیا اور اے ایس پی اور ڈی ایس پی رینک کے افسروں نے تمام کوٹھوں،کمروں کی تلاشی لی اور وہاں موجود لڑکیوں اور گاہکوں کو گرفتار کرکے لے آئے اور اُنہیں تھانہ لوئر مال میں بند کر دیاگیا۔ 

مَیں اپنے دفتر میں بیٹھ کر اِس سارے آپریشن کی نگرانی کررہا تھا، گرفتاریاں ہوتے ہی پولیس ہیڈ کوارٹرز، سٹی ڈویژن (لوئر مال) کے باہر سیکڑوں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، یہ گاڑیاں پکڑی جانے والی عورتوں کے سفارشیوں اور ملاقاتیوں کی تھیں۔ فلم اسٹار گوری (پنجابی فلموں کی مشہور ہیروئن انجمن کی بہن) بھی پکڑی جانے والی خواتین میں شامل تھی اوراُس کے سفارشیوں میں کچھ سینئر افسران، سیاست دان اورصحافی بھی شامل تھے۔ کئی صحافیوں نے اُن کا انٹرویو لینے کی درخواست کی، مگر اجازت نہ دی گئی۔

’’ریڈ لائٹ ایریا آپریشن‘‘ کی مکمل نگرانی مَیں نے اپنے دفتر سے بیٹھ کرکی
’’ریڈ لائٹ ایریا آپریشن‘‘ کی مکمل نگرانی مَیں نے اپنے دفتر سے بیٹھ کرکی

بہت سے سفارشی مجھ سے ملنا چاہتے تھے، مگر مَیں صرف دو افراد سے ملنے پر رضامند ہوا۔ ایک پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر، جو (جو چند روز پہلے موچی دروازے کے اسٹیج سے گرے تھے اور چل نہیں سکتے تھے) بیساکھیوں کے سہارے ان نگینوں کی سفارش کے لیے آپہنچے تھے اور دوسرے میاں صلاح الدّین (صلی) کے بیٹے یوسف صلاح الدّین، جنہوں نے کئی بار مجھے مختلف ٹائپ شدہ کاغذات دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ دیکھیں ہائی کورٹ کےآرڈرز ہیں،جن کے تحت پولیس اِن پر ریڈ نہیں کرسکتی۔‘‘ مَیں اُن کا ہر ہرکاغذ پڑھ کر اُنہیں بتاتا رہا کہ ’’دیکھیں، مَیں خود وکالت کرتا رہا ہوں، یہ ہائی کور ٹ کا حُکم نہیں۔ 

یہ اِن عورتوں کے وکیل کا موقف ہے۔‘‘ وہ مختلف کاغذ لاکرمجھے دکھاتے رہے، مگر ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ نہ دکھاسکے، جس کی بناء پر وہ اِس پولیس ایکشن کو غیر قانونی قرار دے سکتے۔ہم نےکسی کی سفارش نہ مانی اورگوری سمیت تمام گرفتار شدگان کو رات تھانہ لوئر مال کےحوالات میں گزارنا پڑی۔دوسرےروز الحمرا میں کرائمز کنٹرول کمیٹی کی میٹنگ ختم ہوئی اور میاں شہباز شریف دوسرے شرکاء کے ساتھ باہر نکلے، تو سامنے چالیس پچاس عورتیں، ایک لمبے بالوں والے طویل قامت شخص کی قیادت میں موجود تھیں۔ ایس پی کینٹ نے بتایا کہ ’’یہ اُس بازار‘‘ کے مکینوں کا لیڈر مُودا ہے۔‘‘ 

اُس نے آگے بڑھ کر شہباز شریف کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’میاں صاحب! بڑی زیادتی ہوئی اے۔ ساڈی معصوم بچیاں نوں پولیس نے پَھڑ کے بند کردتا اے۔ تُسی اُنھاں دی رہائی دا حُکم دیو۔‘‘ (بڑی زیادتی ہوئی ہے۔پولیس نےہماری معصوم بچیوں کو پکڑ کربند کردیا ہے۔ آپ ان کی رہائی کا حُکم دیں) اُنہوں نےکہا۔ ’’ایس پی سٹی دیکھ لیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے اور مُودا شور مچاتا رہ گیا کہ ’’جناب! اُنہاں ای تے ڈکیا اے۔‘‘ (جناب اُنہوں نے ہی تو بند کیا ہے) اس پر ایس پی کینٹ نے کہا۔ ’’کنجراں دا کیس ایس پی نئیں تے ہور سپریم کورٹ دا جج سُنے دا؟‘‘ (کنجروں کے مقدمے کی انکوائری ایس پی نہیں، تو کیا سپریم کورٹ کا جج کرے گا؟) شہباز شریف سے تو اُنہیں کوئی ریلیف نہ ملا، مگر اُن کے مال دار، بااثر سفارشیوں نے رات تک حکومت کو رام کر لیا، لہٰذا اگلے روز مجسٹریٹس نے اُنہیں ضمانت پر رِہا کردیا۔ 

کچہری میں بہت سے صحافیوں نے فلم ایکٹریس گوری سے پوچھا کہ ’’پولیس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی تو کی ہوگی؟‘‘ مگر اُس نے پولیس کےرویے کی تعریف کرکے سب کو مایوس کردیا۔ پولیس کو جس سیاسی سپورٹ کی ضرورت تھی، وہ تو نہ مل سکی، مگر گرفتار شدہ مَردوں میں سے کچھ مطلوب ملزمان ضرور مل گئے۔

ڈی ایس پی سٹی، پرانے اندرون لاہور کا (جس میں بھاٹی، لوہاری، ٹبّی، موچی دروازہ اور نو لکھا وغیرہ کے تھانے آتے تھے) انچارج ہوتا تھا۔ تھانہ ٹبّی کی حدود میں دو بڑے اہم مقامات آتے تھے، مُلک کی سب سے بڑی بادشاہی مسجد اور سب سے بڑا ریڈ لائٹ ایریا۔ یعنی مسجد اور مےخانہ دونوں اُس کی حدود میں تھے۔ میاں نوازشریف 1990ء میں وزیرِاعظم بنے، تو کچھ عرصے بعد عیدالفطر تھی۔ 

اُنہوں نے عید کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کرنا تھی۔ عید سے دو روز قبل مجھے نئے آئی جی چوہدری سردار محمّد صاحب کا فون آیا، فرمانے لگے۔ ’’پرائم منسٹر صاحب نے عید کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کرنی ہے۔ آپ مولانا عبدالقادر آزاد (بادشاہی مسجد کے امام) سے ملیں اور اُنھیں کہیں کہ اپنی تقریر میں پولیس سے متعلق بھی کلمۂ خیر کہہ دیں تاکہ وزیرِاعظم کے ذہن میں پولیس کا اچھا تاثر پیدا ہو۔‘ذ فون بند ہوا، تو مَیں نے ڈی ایس پی سٹی کو فون کیا کہ ’’پتا کرو، مولانا عبدالقادر آزاد کہاں ہیں۔ مَیں اُن سے ملنے اُن کے گھر جانا چاہتا ہوں۔‘‘ 

ڈی ایس پی نے جواباً کہا۔ ’’نہیں سر! آپ اُن کے گھر کیوں جائیں گے، مَیں مولوی صاحب کو آپ کے پاس لے آتا ہوں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’نہیں بھئی، یہ مناسب بات نہیں۔ مَیں ہی ملنے جاؤں گا۔‘‘کہنے لگا۔ ’’ٹھیک ہےسر! پھر آپ تھانہ ٹبّی تشریف لے آئیں، مولانا صاحب کو اِدھر ہی بُلا لیتے ہیں۔ 

وہ اکثر تھانے آتے رہتے ہیں۔‘‘ مَیں تھانہ ٹبّی پہنچا تو ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے مولانا عبدالقادر آزاد کے ساتھ مجھے ریسیو کیا۔ مَیں نے مولانا کو آئی جی کی خواہش سے آگاہ کیا، تو فرمانےلگے۔’’آپ فکر نہ کریں، تعمیل ہوگی۔‘‘ ساتھ ہی ڈی ایس پی نے لقمہ دیا۔ ’’سر! ہم بھی مولانا سے بڑا تعاون کرتے ہیں اور وہ ہم سے تعاون کرتے ہیں۔‘‘ 

عید کے روز ہم نے وزیرِاعظم نوازشریف کو بادشاہی مسجد کے مین گیٹ کی بجائے پچھلے گیٹ پر ریسیو کیا اور چھوٹی سیڑھیوں کے ذریعے مسجد کے بڑے ہال میں لے گئے، جہاں اُن کے لیے امام صاحب کے بالکل پیچھے پہلی صف میں جگہ مخصوص تھی۔ وزیرِاعظم بیٹھ گئے، تو مولانا صاحب نے تقریر شروع کی۔ 

وزیرِاعظم کو خوش آمدید کہنے اور اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کی مبارک باد دینے کے بعد حضرت مولانا صاحب کی نظر مجھ پر پڑی اور پھر قبلہ آزاد صاحب نے خُطبے کا رخ پولیس کی جانب موڑدیا۔ جب کلمۂ خیر ضرورت سے زیادہ طویل ہوگیا، تو مجھے شدید Embarrasment ہونے لگی اور مَیں نے سر نیچے کرلیا۔ 

نماز کے بعد پرائم منسٹر صاحب رخصت ہونے لگے، تو مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے۔ ’’لگدا اے مولانا صاحب نوں اج دی تقریر تساں ای لِخ کے دتّی سی۔‘‘ (لگتا ہے، مولانا صاحب کو آج کی تقریر آپ ہی نے لکھ کردی تھی) سب ہنس پڑے اور وزیرِاعظم گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ مولانا صاحب پہلے ہی پولیس کی گُڈبک میں تھے، خطبۂ عید کے بعد تو وہ گُڈ کی بجائے’’بَیسٹ بُک‘‘میں شامل ہو گئے۔

اب تو انٹرنیٹ، موبائل فونز نے ہماری اخلاقی اقدارکاجنازہ نکال دیا، معاشرہ اخلاقی پستی کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جا رہا ہے، مگر آج سے تین چار دہائیاں قبل تک صرف اپر کلاس (Elite Class) ہی کا ایک حصّہ ایسا تھا، جسے سماجی و اخلاقی قدروں کا کچھ پاس نہ تھا۔ ایک شام ایک معتبر صحافی دوست نے بتایا کہ فلاں جگہ ایک شخص ہے،جو ویسے تو پڑھا لکھا ہے، مگر کالجز، یونی ورسیٹیز کی لڑکیوں کو ورغلا کے نشے پر اُکساتا اور پھر اُن کی غیر اخلاقی، فحش ویڈیوز بناتا ہے، جن سے اُنہیں بلیک میل کرتا ہے۔ 

مَیں نے اپنے ایک پڑھے لکھے ایس ایچ او انسپکٹر طاہر عالم (جو بعد میں آئی جی اسلام آباد کے عہدے سے ریٹائر ہوئے)کو بُلا کر یہ ٹاسک دیا۔ جنہوں نے ملزم ظفر اور ملزمہ ہالہ فاروقی کو گرفتار کیا اوراُن کی فحش ویڈیوز بھی برآمد کرلیں۔ اُن کے خلاف کیس درج ہوگیا۔ 

مَیں خصوصی طور پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، لاہور سے ملا، جوایک قابل اور دیانت دار شخص تھے اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اِس کیس کی سماعت خُود کریں، کیوں کہ اسلامی تاریخ میں شاید یہ اس نوعیت کا پہلا کیس ہو، جس میں ہمارا یعنی پراسیکیوشن کا موقف ہے کہ اگرچہ یہ جرم ثابت کرنے کے لیے اسلامی شریعت کے مقرر کردہ چار گواہ تو نہیں مل سکے، مگر ٹیکنالوجی (ویڈیو کیمرے) کی مدد سے اِن کا جرم اِسی طرح ثابت ہوتاہے، جیسے عینی گواہوں نےدیکھا ہے، لہٰذا اس پر اجتہاد ہونا چاہیے اور مجرموں پر حد لاگو ہونی چاہیے۔ سیشن جج صاحب نے میری درخواست مان لی اور ٹرائل شروع کردیا۔ (جاری ہے)