• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منشیات فروشوں کیلئے واضح پیغام تھا، ’’دھندا چھوڑ دو یا علاقہ‘‘ (پندرہویں قسط)

پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی
پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی

مَیں لاہور ائیرپورٹ پر اُترا تو ایک پولیس ڈرائیور میرے نام کی تختی لیے کھڑا تھا۔ مَیں اُس کے ساتھ جاکرایک پرانی کرولا کارمیں بیٹھ گیا اور وہ مجھے باغِ جناح کے بالمقابل شاہ راہِ تجارت پر واقع پولیس کلب لےگیا، جہاں مجھےایک کمرا الاٹ کیا گیا تھا اور وہی اکلوتا کمرا اگلے دو سال تک میری یعنی ’’لاہور سٹی کوتوال‘‘ کی سرکاری رہائش گاہ رہا۔ مَیں نے ایس پی سٹی کے طور پر چارج سنبھالتے ہی عوامی رابطہ مہم شروع کردی اور ہر تھانے کی سطح پر کُھلی کچہریاں لگانی شروع کیں۔

راول پنڈی کی طرح، لاہورمیں بھی منشیات فروشی کےخلاف سخت آپریشن کر کے اِس ناسورکی بیخ کنی کی کوشش کی۔ کئی بدنام اور بااثرمنشیات فروش گرفتار ہوئے۔ ہمارا اُن کے لیے واضح پیغام تھا کہ ’’دھندا چھوڑ دو یا علاقہ۔‘‘ سو، بہت سے منشیات فروش شہر چھوڑ کرچلے گئے۔ ایک روز جب مَیں اپنے دفتر میں سائلین سے ملاقات کررہا تھا، تو پنجاب کے وزیرِ تعلیم بیرسٹر عثمان ابراہیم صاحب کا (جو میرے قریبی دوست عابد سعید کے ماموں ہیں) فون آیا، کہنے لگے۔’’مَیں آپ سے ملنے آپ کےدفتر آرہا ہوں، بہت ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ اورچند منٹ بعد وہ تشریف لے آئے۔  

بیٹھتے ہی تشویش ناک لہجے میں بولےـ ’’آپ جانتے ہیں کہ ہمارا امتحانی نظام تباہ ہوچُکا ہے، امتحانات سے متعلقہ ہر بورڈ اور ہر دفتر میں گوڈے گوڈے کرپشن ہے، امتحانوں میں نقل اور بُوٹی اِس قدر عام ہوچُکی ہے کہ باقاعدہ ریٹ مقرّر ہیں۔ لاہور میں بدمعاش اورغنڈے مسلّح جَتھّوں کے ساتھ آتے ہیں اور امتحانی عملے کو یرغمال بناکر اپنے سامنے طلبہ کو نقل کرواتے ہیں، اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ 

لگتا ہے، اُن کے سامنے ہرشخص بےبس ہے۔‘‘ مَیں نے لقمہ دیا کہ ’’اِسی کانتیجہ ہے کہ اب باہر کے ممالک ہماری ڈگریز تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ کہنےلگے۔ ’’بالکل درست کہا آپ نے۔اور اِسی لیے میاں شہباز شریف نے مجھے ٹاسک دیا ہے کہ مَیں امتحانی نظام پرعوام اور طلبہ کا اعتماد بحال کراؤں، مگر اِس کے لیے مجھے آپ کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے کہ بُوٹی مافیا کو تو بہرحال پولیس ہی ختم کر سکتی ہے۔‘‘

جواباً میں نے کہا۔ ’’ایسے امتحانات سے نہ صرف ہمارے لاکھوں طلباءوطالبات کا مستقبل تاریک ہورہا ہے بلکہ مُلک کی ساکھ اور امیج بھی بُری طرح مجروح ہواہے، آپ فکر نہ کریں، ہم اِسےایک قومی مشن کے طور پرانجام دیں گے۔‘‘ ایک گھنٹے کی میٹنگ کےبعد بیرسٹر صاحب چلے گئے اور مَیں نے امتحانات میں زبردستی نقل کروانے والے بدمعاشوں اور بُوٹی مافیا کی سرکوبی کےلیےحکمتِ عملی تیار کرنا شروع کردی۔

ہم نے امتحانی سینٹرز کی فہرستیں منگوالیں اور وہاں بیرونی عناصر(مسلّح غنڈوں) کی مداخلت روکنے اور بُوٹی مافیا کی سرکوبی کےلیے پولیس ٹیمز ترتیب دے کے ایک سخت اور موثّر آپریشن کی ہدایات جاری کردیں۔ چند روز بعد امتحانات شروع ہوئے، تو بُوٹی مافیا کے مختلف سرغنہ بھی متحّرک ہوگئے کہ اُن لوگوں کے لیے امتحانات اُسی طرح آمدن کا ذریعہ تھے، جیسے کاشت کاروں کے لیے پکی ہوئی فصلیں ہوتی ہیں۔ 

ایک مشہور اسٹوڈنٹ لیڈر نے (جو بعد میں قتل ہوگیا) کسی سے پلاٹ خریدا، بیعانہ ادا کر دیا، مگر زیادہ رقم ابھی باقی تھی، پلاٹ کے مالک نے بقایا رقم کا تقاضا کیا، تو اُس نے جواب دیا۔ ’’بس اِنٹر کے امتحان شروع ہونے والے ہیں، بقیہ ادائی امتحانات شروع ہوتے ہی کردوں گا۔‘‘ بُوٹی مافیا نے بڑے بدمعاشوں کی طرح امتحانی سینٹرز بانٹے ہوئے تھےاور ہر ایک سرغنہ اپنے علاقے کو اپنی راج دھانی سمجھتا اور اُسی میں کارروائی کرتا۔ دوسرے کی راج دھانی میں کسی کارروائی یامداخلت سےگریز ہی کرتا۔ 

بہرحال، بُوٹی مافیا کے کارندے کلاشن کوفوں، پستولوں سے مسلّح ہوکر اپنی اپنی "jurisdiction'' میں پہنچ گئے۔ لیکن جوں ہی اُنہوں نے کارروائی شروع کی، پولیس کمانڈوز نے بڑا swift اور effective آپریشن کرکے اُنہیں اسلحے سمیت دھرلیا، اور پھر سب کے سامنے سڑک پر لٹا کر خُوب مرمّت کی۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ اُن کی بدمعاشی کا ہوّا ختم کیاجائے اور امتحانی عملےکا ڈر، خوف دُورہو، تووہ نڈر ہو کےاپنے فرائض سرانجام دے سکے۔ 

نوجوان پولیس افسروں نے بُوٹی مافیا کی بدمعاشی ختم کرنے اور دوسروں کی عبرت کے لیے اُن کے ساتھ اپنے اپنے نظریات و تجربات کے مطابق سلوک کیا۔ کچھ نے اُنہیں مرغا بنوا کر امتحانی عملے اور طلبہ سے معافیاں منگوائیں اور آئندہ اس گھناؤنے کاروبار سے توبہ کروائی اور کچھ نے نائی بلاکر اِن بدمعاشوں کی ٹنڈیں کروادیں، جس پر اخبارات نے اِسے’’ ٹنڈ آپریشن‘‘کا نام دےدیا۔ بہرحال، ایک ہفتے میں بُوٹی مافیا کی کمر ٹوٹ گئی اور امتحانی سینٹرز میں بیرونی مداخلت بند ہوگئی۔

امتحانات شروع ہونے کے دس بارہ روز بعد، اتوار کی چُھٹی کے دن جب مَیں نے صُبح اُٹھ کر اخبار پرنظر ڈالی تو ’’جنگ‘‘ کے صفحۂ اوّل پرایک تصویر دیکھتے ہی میرا خُون کھول اُٹھا۔ تصویر کا کیپشن تھا۔ ’’تھانہ لوئرمال کے حوالات میں امتحانات میں نقل کروانے والے امتحانی عملے کو پولیس نےمُرغا بنایا ہوا ہے۔‘‘ مَیں نے فوری طور پر تھانہ لوئرمال فون کرکے معلوم کیا تو پتا چلا کہ تصویر لیکچرار صاحبان کی ہے، جو امتحانی ہال کے اندر تعیّنات تھے۔ مَیں نے بڑی واضح ہدایات دے رکھی تھیں کہ پولیس کو امتحانی ہال کے اندر جانے کی ہرگز اجازت نہیں۔ 

مَیں فوری طور پر اپنے دفتر لوئر مال پہنچا اور اسٹاف کو ہدایات دیں کہ لیکچرار صاحبان کو فوری طور پرحوالات سے نکالیں اور میرے دفتر لےکرآئیں۔ وہ آئے، تو مَیں نے اُنہیں بڑی عزت سے بٹھایا، چائے پلائی۔ اُن کی توہین پر معذرت کی اور اُن سے پوچھا کہ ’’آپ کو کس نے گرفتار کیا ہے، کیوں کہ پولیس کو تو واضح ہدایات تھیں کہ وہ امتحانی کمروں کےاندر نہیں جائے گی، صرف بیرونی مداخلت روکے گی، جب کہ آپ تو کمروں کے اندر ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، آپ کے ساتھ یہ زیادتی کس نے کی؟‘‘

لاہور کے بیش ترجلوس ناصر باغ سے شروع ہوکر مسجدِ شہداء یا اسمبلی ہال پر ختم ہوتے
لاہور کے بیش ترجلوس ناصر باغ سے شروع ہوکر مسجدِ شہداء یا اسمبلی ہال پر ختم ہوتے

اُنہوں نے بتایا کہ ’’ہمیں مجسٹریٹ نے امتحانی ہال سے گرفتار کیا اور اُس کے ساتھ پولیس بھی تھی۔‘‘ مَیں نے متعلقہ پولیس اہل کاروں سے پوچھا، تو اُنہوں نے بتایا کہ ہمیں مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر ساتھ لے گئے تھے۔ بہرحال، مَیں نے لوئر مال تھانے کا اسٹاف فوری معطّل کرکے لیکچرار صاحبان کو ضمانت پہ رہا کروایا اور اُن کے گھروں کو بھجوادیا۔ دوسری طرف ایسی توہین آمیز تصویر دیکھ کر اساتذہ کی پوری کمیونٹی مشتعل ہوگئی اوراُنہوں نے امتحانات اور کلاسز کا بائیکاٹ کردیا۔

لاہورکےبااختیارحلقےاورکئی سینئر بیوروکریٹس مجھ سے ناخوش تھے۔آئی جی پنجاب، چوہدری منظور احمد کے بقول ’’لاہور کے کچھ افسر ایس پی سٹی کو اپنے’’اشغالِ شبینہ‘‘ کے لیے خطرہ تصوّر کرتے ہیں۔‘‘ ایسے افسران میں اُس وقت کے کمشنر لاہور پیش پیش تھے۔ دراصل کمشنر کےعلاوہ پولیس اور ڈی ایم جی کے کچھ سینئر افسر طاؤس و رباب اور رقص وشباب کے رسیا تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر رقاصائیں اور اداکارائیں خُود ہمارے بنگلوں پرآکر ہمارا دل نہ لبھائیں تو ہماری افسری کس کام کی۔ 

لہٰذا انہوں نے اس ’’کلچرل مِشن‘‘ کی تکمیل کے لیے کچھ ’’خدمت گزار‘‘ ڈھونڈ لیے، جو اِن افسروں کے اپنے یا اُن کے دوستوں کے بنگلوں پر مُجروں کی محفلیں منعقد کرواتے تھے۔ مگر دِلوں میں ایک اَن جانا سا خوف بھی رہتا تھا، اِس لیے ہر وقت میرا لاہور سے تبادلہ کروانے کی کوششوں میں لگے رہتے۔ لیکچرار صاحبان کی گرفتاری اور تصویر پرٹیچرز کی ہڑتال نے اُنہیں سنہری موقع فراہم کردیا۔ لیکن وہ اُس وقت سخت مایوس ہوئے، جب ٹیچرز نے اپنے اجتماعات میں اِس سارے واقعے کا ذمّے دار اے سی سٹی کو قرار دیا اور اُسے معطّل کرنے کا مطالبہ کیا، پولیس پر کوئی ذمّے داری نہ ڈالی۔ 

میرے ’’مہربانوں‘‘ نے جب یہ موقع بھی ہاتھ سے جاتے دیکھا توکمشنر نے اے سی سٹی کو اپنے پاس بُلا کر گائیڈ کیا کہ تم اخبارات میں ایس پی سٹی (راقم) کے خلاف بیان شائع کرواؤ کہ یہ سب کچھ اُس نے کروایا ہے۔ اُس نے کچھ لیت و لعل سے کام لیا، کیوں کہ اُس کے، میرے ساتھ اچھے مراسم تھے اور وہ میرے خلاف اِس طرح کا بیان (جس کی سروسز میں کوئی روایت بھی نہیں تھی) نہیں دینا چاہتا تھا، مگر کمشنر نے اُس پر دباؤ ڈال کرمیرے خلاف بیان جاری کروادیا، جب کہ محکمۂ تعلیم کے افسران سے دباؤ ڈلوا کر اساتذہ کے ایک آدھ عہدےدار سے بھی پولیس کے خلاف بیان بازی کروائی اورپھر اُن بیانات کے اخباری تراشے لےکر وزیرِاعلیٰ غلام حیدر وائیں سے ملے اور اُن سے کہا کہ ایس پی سٹی کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ اِس طرح حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے اور حکومت کی بھی نیک نامی ہوگی۔ وائیں صاحب ایک شریف، لیکن کم زور آدمی تھے۔ 

انہوں نے آئی جی صاحب کو (اُس وقت چوہدری منظوراحمد آئی جی پنجاب تھے۔ جو بڑے بااصول اور دبنگ افسر تھے) بُلایا اور کہا کہ سینئر افسروں کا خیال ہے کہ اساتذہ کی ہڑتال کا ذمّےدار ایس پی سٹی ہے، لہٰذا اُسے ٹرانسفر کردیا جائے۔ آئی جی صاحب سارے حقائق جان چُکے تھے، تو انہوں نے کہا۔ ’’چیف منسٹر صاحب! مَیں ایس پی سٹی کو اچھی طرح جانتا ہوں، اگر اُس نے ٹیچرز کو گرفتار کیا ہوتا، تو وہ کبھی انکار نہ کرتا اور مجھ سے ہرگزحقائق نہ چُھپاتا۔ جب اُس نے یہ کام کیاہی نہیں، تو اُسے سزا کیوں دی جائے۔ مَیں جانتا ہوں کہ آپ کے یہ ’’سینئر افسر‘‘ اُس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ رات کو ریڈ کرکے اُنہیں رنگے ہاتھوں گرفتار نہ کر لے۔‘‘ مگر ’’مہربانوں‘‘ نے بیک زبان کہا کہ ’’سر! ایس پی سٹی کو تبدیل کیے بغیر بحران حل نہیں ہوگا۔‘‘

پولیس کلب کا ایک کمرا، دو سال تک’’لاہور سٹی کوتوال‘‘ کی رہائش گاہ رہا۔
پولیس کلب کا ایک کمرا، دو سال تک’’لاہور سٹی کوتوال‘‘ کی رہائش گاہ رہا۔

چیف منسٹر نے بھی آئی جی صاحب پر زور دیا، جس پراُنہوں نے مشروط طور پر فیصلہ قبول کرلیا، مگر یہ بتادیا کہ’’ٹھیک ہے، آپ چاہتے ہیں تو مَیں اُسے ہٹادیتا ہوں، مگر اس سارے واقعے کی جوڈیشل انکوائری ہوگی اور انکوائری مکمل ہونے تک میں کسی اور افسر کو اُس کی جگہ تعیّنات نہیں کروں گا اور اگر انکوائری میں اُسے ذمّے دار قرار نہ دیا گیا، تو وہ دوبارہ ایس پی سٹی لگے گا۔‘‘وائیں صاحب کو اتفاق کرنا پڑا۔ اُسی شام مجھے اوراے سی سٹی کو ٹرانسفرکردیا گیا اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے حکومت کی درخواست پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، لاہور نواب اوصاف علی خان کو(جو ایک دیانت دار اور بااصول جج تھے) انکوائری افسر مقرّر کردیا۔

اخبارات نےبُوٹی مافیا کےخلاف پولیس آپریشن کو’’ٹِنڈآپریشن‘‘ اور جوڈیشل انکوائری کو ’’مرغا اسکینڈل انکوائری‘‘ کا نام دیا اورخُوب مزے لے لےکر اِس کی رپورٹنگ کی۔ مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ چوں کہ جوڈیشل انکوائری میں ایک جج صاحب کے سامنے مجھے اپنا موقّف پیش کرنا ہے، لہٰذا بہتر ہوگا کہ مَیں اپنا موقف اپنے وکیل کے ذریعے پیش کروں۔ 

اب مجھے مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کسے وکیل کریں؟ اور وکیل بھی ایسا،جو قابل بھی ہو اور فیس بھی نہ لے، کیوں کہ میرے مالی وسائل تو کسی اچھے وکیل کی فیس ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ کسی دوست نے رفیق باجوہ صاحب کا (جو پی این اے کی تحریک میں بڑے مشہور ہوئے تھے اور بڑے اچھے مقرر تھے) نام لیا۔ مَیں جاکر اُن سے ملا تو وہ تیار ہوگئے۔ مقررہ تاریخ پر جب عدالت میں اُن کی باری آئی، تو انہوں نے یہی سمجھاکہ وہ شاید موچی دروازے میں کسی جلسۂ عام سے خطاب کر رہے ہیں۔ 

موصوف نے دلائل کی بجائے ایک سیاسی تقریر کر ڈالی، جس کا کیس یا میرے موقف سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔ اِس پر مجھے خُود مداخلت کرکےجج صاحب سے کہنا پڑا کہ باجوہ صاحب کی تقریر اُن کا اپنا موقف تو ہوسکتا ہے، میرا نہیں اور اب مَیں بغیر وکیل کے، اپنا کیس خُود لڑوں گا۔ مجھے یاد ہےکہ مَیں نے اے سی سٹی پرخُود جرح کی، جسے وہاں موجود سینئر وکلاء نےبہت سراہا۔ جوڈیشل انکوائری مہینہ بھر چلتی رہی، جس کے بعد سیشن جج صاحب نے(جو بعد میں ہائی کورٹ کے جج بھی بنے) رپورٹ دے دی، جس میں اصل حقائق کے مطابق مجھے بری الذّمہ قراردیا گیا۔ مَیں جوڈیشل انکوائری میں بَری ہوا، تو آئی جی صاحب کےکہنے پر مجھے دوبارہ ایس پی سٹی تعیّنات کردیا گیا۔

لاہور کے جلوس عموماً ناصر باغ سے شروع ہوتے اور مسجدِ شہداء یا اسمبلی ہال کے سامنے فیصل چوک پر آکر اختتام پذیر ہوتے تھے۔ ایک بار کسی ایشو پر خواتین نے جلوس نکالا، پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا، اس لیے پولیس نے جلوس کو چیئرنگ کراس (فیصل چوک) جانے سے روکا۔ ایک دو خواتین کی کچھ لیڈی پولیس افسران سے پہلے پنجہ آزمائی اور پھر ہتھ جوڑی ہوگئی، جس کے نتیجے میں ایک خاتون گرگئی جسے موقعے پر موجود ایس پی کینٹ عبداللہ خالد نے سہارا دے کر اُٹھانے کی کوشش کی۔ 

کسی فوٹوگرافر نے وہ سین کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا،جس میں گری ہوئی خاتون پر ایس پی کینٹ جُھکا ہوا تھا۔ دوسرے روز تصویر کے نیچے کیپشن لکھا تھا۔ ’’ایس پی کینٹ ایک خاتون کو زمین پر لِٹا کرمار رہا ہے۔‘‘اِس پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ خواتین نے عبداللہ خالد کی معطلی کا مطالبہ کردیا اور پریس نے خواتین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ایس پی کینٹ کی میڈیا کوریج کا بائیکاٹ کردیا۔ 

اس پر آئی جی صاحب نے ہدایات جاری کیں کہ مال روڈ پر آنے والے جلوسوں کے ساتھ صرف ایس پی سٹی رہےگا اور وہی اُن سے ڈیل کیا کرےگا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد عراق نے کویت پر حملہ کردیا حکومتِ پاکستان نے صدام حسین کی جارحیت کے خلاف پالیسی بیان دیا، جب کہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے صدام کے حق میں بیان دے دیا۔ نہ جانے کیوں، ہمارے جذباتی عوام کی ہم دردیاں صدّام کےساتھ ہوگئیں۔ 

ہر روز صدام حسین کی ہزاروں کی تعداد میں ایسی تصاویر بکنے لگیں، جس میں وہ کہیں تلوار پکڑ کر گھوڑے پر سوار ہے اور کہیں تسبیح پکڑ کر جائے نماز پر عبادت میں مصروف ہے، حالاں کہ وہ ایک سیکولر اور بےدین شخص تھا۔ حُکم رانوں کے میڈیا مینیجرز ایسی تصویریں عوام کے جذبات سے کھیلنے اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے شائع کرواتے رہتے ہیں(مگر صدّام حسین جس شان سے مقتل میں گیا، اُس کے لیے بہرحال ہم دردری اور احترام پیدا ہوگیا) خیر، صدّام کےحق میں ہرروز جلوس نکلنا شروع ہوگئے۔

مَیں ناصر باغ سے جلوس کے ساتھ فیصل چوک تک جاتا، اُسے ختم کروا کے واپس پہنچتا تو ایک دو اور جلوس چلنے کے لیے تیار ہوتے۔ دوسرا ابھی راستے ہی میں ہوتا کہ تیسرا بھی اُس سے آملتا۔ مطلب اُس مہینے جلوسوں کا بڑا سیزن لگا، بارہ سے پندرہ جلوس یومیہ کی اوسط رہی۔ 

اللہ کا شُکر ہےکہ دسمبر کا مہینہ تھا، سردیوں میں بڑی خوش گوار دھوپ ہوتی تھی، اِس لیے زیادہ محسوس نہیں ہوا بلکہ ڈیوٹی بھی چلتی رہی اور کئی میل روزانہ کی واک بھی ہوتی رہی۔ یوں ہمارے سادہ لوح عوام کی صدّام حسین سے محبّت نے میرا وزن گھٹا کے اسمارٹ ہونے میں بڑی مدد کی۔ (جاری ہے)