’’مسلم معاشروں میں خواتین کی تعلیم ، چیلنج اور مواقع ‘‘ جیسے وقت کے نہایت اہم موضوع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد پاکستان کیلئے بلاشبہ ایک بڑا اعزاز ہے جس میں 47 مسلم اور دوست ممالک کے وزیروں، سفیروں، ماہرین تعلیم اور اسکالروں سمیت 150 سے زائد ممتاز شخصیات شریک ہیں۔کانفرنس سے کلیدی خطاب میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجا طور پر صراحت کی کہ مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم بڑا چیلنج ہے جس کیلئے مسلم ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ خواتین قومی و عالمی معیشت میں موثر کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی سے معاشرہ مضبوط اور ترقی یافتہ ہوگا، اس بنا پر مخیر حضرات اور کاروباری ادارے لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے میں حکومت کی معاونت کریں۔ وزیر اعظم نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ آئندہ دہائی میں لاکھوں لڑکیاں جاب مارکیٹ میں داخل ہوں گی جس میں سماجی ترقی اور معاشی خوشحالی کے بے پناہ امکانات ہیں، خواتین میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خاندانوں اور قوم کو غربت سے نکال سکتی ہیں بلکہ عالمی معیشت میں کردار ادا کر نے کے ساتھ ساتھ مشترکہ چیلنجوں کیلئے اختراعی حل تلاش کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیمی تفاوت کو دور کرنے کی طرف ایک بڑا قدم دانش اسکولوں کا قیام ہے جبکہ فلیگ شپ یوتھ پروگرام کے ذریعے حکومت معیاری تعلیم فراہم کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے پرعزم ہے جس میں مصنوعی ذہانت، ڈیٹا اینالیٹکس اور سائبر سیکورٹی کی فراہمی اور اعلیٰ کامیابی حاصل کرنیوالوں کو لیپ ٹاپ اور اسکالرشپ کی فراہمی سمیت پیشہ ورانہ تربیت شامل ہے۔وزیر اعظم کا یہ اظہار خیال اس حقیقت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے کہ اسلام وہ دین ہے غار حرا میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پرفرماں روائے کائنات کی جانب سے پہلی وحی کی شکل میں جس کا آغاز ہی ’’اقراء‘‘ یعنی ’’پڑھو‘‘ کے حکم سے ہوا تھا اور جس میں کہاگیا ہے کہ’’تمہارا رب نہایت مہربان ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘‘۔اسی حکم کی تعمیل میں نبی کریم ؐنے حصولِ علم کو ہر مسلمان مرد و عورت کیلئے فرض اور حکمت و دانائی کی ہر بات کو مومن کی گمشدہ میراث قرار دیا ہے اس وضاحت کے ساتھ کہ وہ جہاں بھی ملے مسلمان کو اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسلام کے دور عروج میں اس حکم پر بھرپور عمل ہوتا رہا جس کے نتیجے میں مسلمان علم کے ہر شعبے میں دنیا کی امامت و قیادت کے منصب پر فائز رہے اور مسلمان خواتین بھی علم وعمل دونوں میں مردوں کی ہم سری کرتی رہیں۔ تاہم اسلامی معاشرے زوال کا شکار ہوئے اور علم کی دنیا پر تہذیب جدید کے پرچم برداروں کی حکومت قائم ہوئی تو مسلم دنیا علمی انحطاط میں مبتلا ہوتی چلی گئی خصوصاً خواتین کی تعلیم بہت متاثر ہوئی حالانکہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری کی انجام دہی کیلئے خواتین کا تعلیمیافتہ ہونا لازمی ہے۔رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے اپنے خطاب میں بالکل درست کہا کہ لڑکیوں کو بلاخوف تعلیم کے مساوی مواقع دستیاب ہونے چاہئیں جبکہ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حسین ابراہیم طہٰ نے ملکی مشکلات اورگھریلو مجبوریوں کی وجہ سے خواتین کی تعلیم سے محرومی کو باعث تشویش قرار دے کر صورت حال کی حقیقی عکاسی کی۔اس تناظر میںیہ امر بہت خوش آئند ہے کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز 57 مسلم ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم اور رابطہ عالم اسلامی کے درمیان لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اسٹرٹیجک شراکت داری کے مفاہمت ناموں پر دستخطوں سے ہوا۔ امید ہے کہ اب ان کے مطابق ضروری اقدامات بھی ہر ممکن تیزرفتاری سے عمل میں لائے جائیں گے۔