وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت سندھ کابینہ کے ساڑھے چار گھنٹے طویل اجلاس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے، جن میں 195 اساتذہ کی بھرتی، مزید 700 اساتذہ کی اسامیوں کی تخلیق، تعلیمی بورڈ کے قوانین میں ترامیم، کراچی میں 100 الیکٹرک بسیں کرائے پر خریداری ماڈل کے تحت چلانے کی بھی منظوری دے دی گئی۔
صوبائی کابینہ کو بتایا گیا کہ تعلیمی معیار میں اضافے کےلیے 2023 میں تدریسی لائسنس پالیسی کی منظوری دی گئی تھی، جس کے تحت مارچ 2024 میں آئی بی اے سکھر کے ذریعے ٹیسٹ لیا گیا جس میں نئے اور پہلے سے موجود اساتذہ نے شرکت کی۔ ٹیسٹ میں شرکت کرنے والے 4 ہزار امیدواروں میں سے صرف 646 امیدواروں جس میں 195 نئے امیدوار اور 451 پرانے اساتذہ نے امتحان پاس کیا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ ای ایس ٹی (بی پی ایس 16) کی 700 نئی اسامیاں خاص طور ٹیچنگ لائسنس رکھنے والے پرانے اور نئے اساتذہ کےلیے مختص کی گئی تھیں لیکن محکمہ مالیات نے 700 منظور شدہ اسامیوں میں سے صرف 352 اسامیوں کا بجٹ کی کتاب میں ذکر کیا ہے باقی 348 اسامیوں کا ذکر باقی ہے۔
سخت ٹیچنگ لائسنس ٹیسٹ پاس کرنے والے 195 نئے ٹیچنگ لائسنس یافتگان کے بارے میں سندھ حکومت نے تحریری ٹیسٹ کےلیے مدت کا استثنیٰ دیتے ہوئے انہیں سندھ پبلک سروس کمیشن کو انٹرویو کےلیے بھیج دیا۔ سندھ کابینہ نے انہیں ای ایس ٹی (بی پی ایس 16) میں بھرتی کرنے کی منظوری دے دی۔
سندھ بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بل 2024 اور سندھ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آرڈیننس 1972 کے تحت بورڈ کے قوانین میں ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم کے تحت بورڈ میں سول سوسائٹی کے ممبران، ہیڈ ماسٹر/پرنسپل اور دیگر نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔
ترمیم کے مطابق حکومت کو بورڈ کے کسی بھی ممبر کو ہٹانے کا اختیار ہوگا۔ بورڈ کسی بھی فرد کو فائدہ، الاؤنس یا سہولت فراہم نہیں کرے گا۔ چئیرمین تین سال کے لیے تعینات ہوگا اور مدت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ تقرری کا اہل ہوگا۔ چئیرمین کو کنٹرولنگ اتھارٹی کے ذریعے براہ راست تقرری یا گریڈ 19/20 کے افسران میں سے منتخب کیا جائے گا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ نیشنل انرجی اینڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے کل 8 ہزار الیکٹرک بسیں چلانے کا ہدف مقرر کرنے کی تجویز دی ہے جو مرحلہ وار چلائی جائیں گی۔
پہلے مرحلے میں پہلے سال 500 بسیں (50 بسیں مکمل تیار ہیں) اگلے سال دوسرے مرحلے میں 1,500 بسیں چلائی جائیں گی جبکہ تیسرے مرحلے میں آئندہ چار سالوں کے دوران 4000 سے 6000 بسیں چلائی جائیں گی ۔ تیسرے مرحلے کی تکمیل کے ساتھ چارجنگ انفرااسٹرکچر، بس اسٹیشنز کی تعمیر اور ایک گیگاواٹ کے سولر پلانٹ کی تنصیب بھی شامل ہے۔
حکومت 30 مئی 2024 کو این ای ٹی سی کے پروپوزل کے تحت کرایہ پر خریداری ماڈل کے تحت 50 الیکٹرک بسوں (12 میٹرز) کے پائلٹ پروجیکٹ کی منظوری دے چکی ہے۔ کرایہ پر خریداری ماڈل کے تحت این ای ٹی سی 50 الیکٹرک بسیں خرید کر حوالے کی ہیں جو 220 روپے فی کلومیٹر کی سہولت کے ساتھ سالانہ 75 ہزار کلومیٹر کے کرائے کے تحت دستیاب ہیں۔ اس ماڈل کے تحت ڈیمانڈ رسک کا ذمہ دار آپریٹر ہوگا۔ یہ بسیں اس وقت کراچی کے چار اہم روٹس پر رواں دواں ہیں۔ منصوبے کی تکنیکی، مالیاتی اور قانونی پہلوؤں کی نگرانی کےلیے آزاد ماہرین کا تقرر کیا گیا ہے۔
کابینہ نے ایس ایم ٹی اے اور این ای ٹی سی کے درمیان جی ٹو جی بنیادوں پر کرایہ پر خریداری منصوبے کےلیے 100 بسوں کی فراہمی، تعمیر، آپریشن اور مینٹیننس کے معاہدے کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے آخری سہ ماہی (اپریل تا جون 2025) کےلیے 412.50 ملین روپے کی منظوری دے دی جبکہ آئندہ آٹھ سال تک 100 الیکٹرک بسوں کی ماہانہ ادائیگی کےلیے 1.65 ارب روپے سالانہ مختص کرنے کی بھی منظوری دے دی۔
سندھ کابینہ نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ سیلاب سے تحفظ کے چوتھے قومی منصوبہ کے لیے پچاس پچاس فیصد کے تناسب سے مالی تعاون فراہم کرے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ وفاقی وزارت آبی وسائل نے سندھ حکومت سے کہا ہے کہ وہ وفاقی منصوبوں پر وفاقی معاونت کم کرنے کے مسئلے پر اپنی رائے دے۔ وفاق کی تجویز ہے کہ وہ صرف 77.533 ارب روپے فراہم کرے جو کل تخمینہ 824.533 ارب روپے کا 9.4 فیصد بنتا ہے جبکہ باقی 746.967 ارب روپے صوبائی حکومتوں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو ادا کرنا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے 1978 سے 2008 کے درمیان سیلاب سے تحفظ کے تین قومی منصوبوں پر عملدرآمد کیا ہے۔ سیلاب سے تحفظ کا چوتھا قومی منصوبہ 2017 میں ترتیب دیا گیا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد سندھ نے انفرااسٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے جس کی وجہ سے 2023 میں ایکنک کے منظور کردہ ایف پی ایس پی 3 کےلیے 50.57 ارب روپے کی مالی معاونت بھی چیلنج بن گئی ہے۔ سیلاب سے تحفظ کے چوتھے قومی منصوبے کے پہلے مرحلے کے اخراجات بھی آدھے آدھے برداشت کرنے چاہئیں، اس کے علاوہ، مرحلہ دوم (630 ارب روپے) کی مالی معاونت کو دیگر صوبوں کے ساتھ متناسب بنایا جا سکتا ہے۔ سندھ کابینہ چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس فیصلے کو مزید کارروائی کےلیے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کرے۔
سندھ خواجہ سرا تعلیمی پالیسی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایسی پالیسی ہونی چاہیے جو ہر قسم کے امتیاز سے پاک ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں خواجہ سرا برادری کی تعلیم تک رسائی بہت محدود ہے۔
کابینہ نے کراچی شہر کے لیے کے 4 منصوبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے کےلیے ضروری سامان کی خریداری اور تعمیر کےلیے واپڈا کو 2021 سے ٹیکس چھوٹ کی منظوری دے دی تاہم ذیلی ٹھیکیداروں کو ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔
دھابیجی اسپیشل اکنامک زون چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے صنعتی تعاون کے مرحلے کا ایک ترجیحی منصوبہ ہے، جس کا مقصد صوبہ سندھ میں صنعتی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے تحت چلایا جا رہا ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ چین کی سرکاری کمپنی پاور چائنا انٹرنیشنل نے دھابیجی اسپیشل اکنامک زون کی تشہیر اور چینی سرمایہ کاری لانے کےلیے مفاہمت کی یادداشت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پالیسی بورڈ کی سفارش پر کابینہ نے این ای ڈی سائنس و ٹیکنالوجی پارک کی عمارت کی حد اونچائی کے باعث تقریباً تین ایکڑ مزید زمین دینے کی منظوری دے دی ۔
سندھ کابینہ نے وزارت ریلوے اور حکومت سندھ کے درمیان 75 ارب روپے کے لیے پچاس پچاس فیصد شراکت داری کی بنیاد پر مشترکہ منصوبے کی منظوری دی تاکہ اسلام کوٹ (تھر کوئلہ) سے چھور، 105 کلومیٹر تک اور بن قاسم سے پورٹ قاسم، 9 کلومیٹر تک ریل کی پٹری بچھائی جائے۔
سندھ کابینہ نے لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کی درخواست پر حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایچ اے ڈی) کے ملازمین کی پینشن، تنخواہیں، سروس فوائد اور دیگر متعلقہ امور کے واجبات کی ادائیگی کے لیے 500 ملین روپے گرانٹ کی منظوری دے دی۔
کابینہ نے زاہد عابد میمن، ڈائریکٹر (انتظامی اور مالیات) کو سندھ رینیو ایبل انرجی کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر کرنے کی منظوری دی۔