جمعرات کے روز پنجاب اسمبلی میں مضر صحت فوڈ آئٹمز کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا گیا، وہ پورے ملک کے حوالے سے اہم اور قابل توجہ ہے۔ صوبائی اسمبلی میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے بموجب مضر صحت، جعلی اور ملاوٹ شدہ خوراک کی تیاری و فروخت میں ملوث افراد کے خلاف ایک سال میں صرف 8مقدمات درج ہوئے جس پر ارکان کی حیرت قابل فہم ہے جبکہ اسپیکر ملک محمد احمد خان کو یہ کہنا پڑا کہ پنجاب میں جعلی دودھ اور ملاوٹ شدہ اشیا کے خلاف ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ ملاوٹ، جعل سازی، یکساں ناموں، یکساں نظر آنے والے پیکٹوں، ایک جیسی بوتلوں میں فروخت ہونے والی اشیا کی بازاروں میں بھرمار پورے ملک کا مسئلہ ہیں ان سے صحت عامہ متاثر ہوتی ہے جس کا اثر لوگوں کی کارکردگی اور ملکی معیشت پر بھی پڑتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسمانی کمزوری، ذہنی تنائو اور اعصابی نادرستی سماجی زندگی پر اثرانداز نہ ہو، لوگوں کے طرز گفتگو سے لیکر ان کے مزاجی رویوں پر نہ پڑے۔ آج کی دنیا میں ہر ملک کی ترقی اس کی معیشت کی رفتار سے ناپی جاتی ہے اور جس معاشرے میں صحت عامہ کی کیفیت غذا، دوا، ماحولیات کی ناقص اجزا سے آلودہ ہو وہاں کی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی رویے بھی صحت مندانہ نتائج دینے سے قاصر رہتے ہیں اور کئی دیگر حوالوں سے انحطاطی کیفیات کے خدشات موجود رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں دیگر شعبوں کی طرح مارکیٹنگ کا نظام اصلاح اور کڑی نگرانی کا متقاضی ہے۔ ملاوٹ، جعل سازی اور دیگر نقائص سے پاک اشیا کی فروخت ممکنہ حد تک یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ مانیٹرنگ کا نظام موثر طور پر کام کرتا نظر آئے۔ اشیا کے سیمپل جمع کرنے، تجزیاتی رپورٹیں حاصل کرنے اور جعل سازی کرنے والوں کی گرفت کا نظام سختی سے نافذ ہو۔ اس باب میں سب سے اہم چیز رشوت خوری کی روک تھام ہے۔ کیا ہم یہ کام کر سکتے ہیں؟