• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب نے ڈیووس میںمنعقد ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے موقع پرایک انٹرویو میں پاکستان کی موجودہ اور تیزی سے بہتر ہوتی ہوئی معاشی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے حکومتی عزم ظاہر کیا ہے کہ 2028تک پائیدار اور برآمدات پر مبنی 6فیصد شرح نمو حاصل کرلی جائے گی۔رواں مالی سال کے دوران13ہزار ارب روپے کے ٹیکس جمع ہوں گے،جو گزشتہ برس سے 40فیصد زیادہ ہیں۔پاکستان نے ایک ارب ڈالرز کے قرضے کیلئے مشرق وسطیٰ کے دو بنکوں سےقلیل مدتی 6تا7فیصد کی شرح سود پر مبنی شرائط سے اتفاق کیا ہے۔ آئی ایم ایف توسیعی فنڈ سہولت معاہدے کا پہلا باقاعدہ جائزہ فروری کے آخر تک متوقع ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس جائزے کیلئے حالات سازگار ہیں۔وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان متعلقہ ایجنسیوں کے ساتھ سنگل بی ریٹنگ کی جانب بڑھنے پر تبادلہ خیال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس میں بہتری آئے گی۔اس حوالے سے ہماری جانب سے کئے گئے اقدامات رواں مالی سال ختم ہونے سے پہلے مکمل ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 7ارب ڈالر قرض معاہدے کے پہلے جائزے پر بات چیت ہوگی اور پاکستان نے اس حوالے سے پیشگی انتظامات کرلئے ہیں۔وزیر خزانہ کے خیالات کی روشنی میںیہ بات نتہائی اہم ہے کہ فروری2024میں اقتدار سنبھالتے وقت وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں معاشی اصلاحات لانے کا عزم ظاہر کیا تھا،جس پر اگلے ہی مہینے عمل درآمد شروع کردیا گیا۔اس ضمن میں حکومت کو جو بڑے چیلنج درپیش تھے،ان میں ٹیکسوں کے نظام میں بہتری اور آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت کا معاہدہ سرفہرست تھا۔اس سے قبل سال 2022میں معیشت کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ لاحق تھا اور سری لنکا کے حالات دیکھتے ہوئے یہ باتیں سننے میں آرہی تھیں کہ پاکستان کے اس نہج کو پہنچنے میں دیر نہیں۔پی ڈی ایم حکومت نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی کوشش کی تو اسے خط لکھ کر سیاسی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔آئی ایم ایف نے بظاہر اس خط کو اہمیت نہیں دی لیکن انتہائی کڑی شرائط عائد کیں۔بعد ازاں مالی سال 2024-25کیلئے بنائے گئے بجٹ میں انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کی صورت میں تنخواہ دار طبقے پرایک نیا بوجھ ڈال دیا گیا۔ نقصان میں جانے والےسرکاری اداروں اور محکموں کے معاشی اصلاحات پیکیج کے توسط سے نجکاری ،رائٹ سائزنگ،زرعی انکم ٹیکس اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کے اقدامات اٹھائے گئے۔صنعت وتجارت کا پہیہ تیز کرنے کیلئے شرح سود میں بتدریج کمی کرتے ہوئے اسے 22سے13فیصد کی شرح پر لایا گیا۔11ماہ کے اس عرصے میں حکومت کواپنی کوششوں کے ثمرات ملتے دکھائی دینے لگے ہیں ۔اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر جو2022-23میں گر کر 4ارب سے نیچے آگئےتھے ،اب 16ارب ڈالر کی سطح پر ہیں۔ترسیلات زر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ،حکومت نے ایف بی آر کو رواں مالی سال میں 12ہزار970ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دے رکھا ہے ،جس میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ بھی شامل ہے۔مارچ 2024کے مقابلے میں جنوری2025میں مہنگائی کی شرح میں 4.1فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے،تاہم اس میں روزمرہ اشیائے ضروریہ کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے ۔چکن،مٹن،بیف اور سبزی کی قیمتیں تاحال آسمان کو چھو رہی ہیں۔حکومت کی معاشی اصلاحات بلا شبہ مطلوبہ ثمرات کے ساتھ صحیح سمت میں بڑھ رہی ہیںتاہم عام اور غریب آدمی اپنی مالی حالت کو مشکلات سے نکالنے کی فکر میں ہے،جسے پورا کرنا حکومت کیلئےبہرحال ضروری ہے۔

تازہ ترین