پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے جمعرات کے روزعمران خان سے ہونے والی ملاقات کی روشنی میں یہ کہتے ہوئے حکومت اور اپنی جماعت کے درمیان مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہےکہ بانی پی ٹی آئی نے عدالتی کمیشن کے قیام میں تاخیر کے باعث ایسا کرنے کی ہدایت کی ہے۔صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر گوہرنے کہا کہ ہم نے حکومت کو سات دن کا وقت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر جوڈیشل کمیشن کا اعلان اس دوران نہیں ہوتا تو مذاکرات کے مزید ادوار نہیں ہوں گے۔ہماری خواہش تھی کہ مذاکرات ہوںاور معاملات آگے چلیں لیکن شاید اختلافات کی ٹھنڈک اتنی زیادہ ہے کہ برف پگھل نہیں رہی۔پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں عمران خان اور سرکردہ رہنمائوں سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی اور فروری 2024ءکے انتخابات کی تحقیقات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کرنا شامل ہے۔پی ٹی آئی کااعتراض ہے کہ پیر کے روز حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا جواب سات روز میں دے دیا جائے گا ،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کواس پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔مذاکراتی کمیٹی کے حکومتی ترجمان سینیٹرعرفان صدیقی کے بقول حکومت نے سات دن میں اپوزیشن کےچارٹر آف ڈیمانڈ کاجواب دینے کا جو وعدہ کیا تھا ،یہ وقت منگل کو مکمل ہوگا۔عرفان صدیقی کے بقول،ہم جواب دینے کیلئے 28جنوری کی تاریخ اسپیکر قومی اسمبلی کو دے چکے ہیں ،اس ڈیڈ لائن سے پہلے کام مکمل کرلیا جائے گا۔سیاسی تجزیہ کار درپیش صورتحال کو عوام کا نقصان قرار دے رہے ہیں ،جن کے مسائل کی طرف نہ حکومت توجہ دے پارہی ہےنہ اپوزیشن کو اس سے سروکار دکھائی دے رہا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق عوام کے بعد اگر کسی کو ان مذاکرات کی ناکامی کا نقصان ہوگا تو وہ تحریک انصاف ہوگی ،کہ ان کے مقدمات چلتے رہیں گے،ضمانتیں نہیں ہوں گی اور مشکلات بڑھتی رہیں گی۔بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذاکرات کے خاتمے کی واحد وجہ بانی پی ٹی آئی ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی سیاسی قوتوں سے مذاکرات کے حامی نہیں رہےبلکہ پس پردہ قوتوں یا اسٹیبلشمنٹ سے ایسا چاہتے تھے،تاہم یہ بات اپوزیشن کو یاد رکھنی چاہئے کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات چیت چاہتی ہے وہاں پہنچنے کیلئے بھی اسے حکومت کی چھتری تلے آنا ہوگا۔یہ بات سب پرعیاں ہے کہ پاکستان کی 77سالہ تاریخ کا بڑا حصہ سیاسی بحرانوں میں گزرا ،جو اس دوران بار بارمارشل لا لگائے جانے کا موجب بھی بنا۔اگر 2008ءکے بعد کی بات کی جائے ،جس کے سمیت اب تک چار عام انتخابات ہوچکے ہیں اورہر پارلیمان نے اپنی مدت بھی پوری کی ۔اس میں بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ 2008ءاور2013ءکے انتخابات کے تحت بننے والی حکومتوں اور اپوزیشنوں کے درمیان ایوان کے اندر سیاسی درجہ حرارت کنٹرول میں رہا،تاہم 2018ءکے بعد انتقامی سیاست کو نہ صرف پہلے سے زیادہ ہوا ملی بلکہ قومی اسمبلی کے فلور پر گالم گلوچ ،دست وگریباں ہونے اور شور شرابے کی فضانے ایک نئے کلچر کو جنم دیا ۔ایک اندازے کے مطابق ملک کی تاریخ میں یہ پانچویں نوعمر یا نوجوان نسل ہے ،جس نے حالیہ برسوں میں ہوش سنبھالا اور شاید اس کے نزدیک سیاست کی تعریف وہی ہے جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اگر اس کلچر کو روکا نہ گیا تو مستقبل میں مقدس پارلیمان کی تقدیر وہی ہوگی جوآج سب کے سامنے ہے۔مناسب ہوگا کہ حکومت اور سیاسی جماعتیںباہمی مذاکرات میں اپنے ذاتی مفادات پر ملک وقوم کے بہتر مستقبل کو ترجیح دینے کی غرض کو نصب العین بنائیں۔