مال مفت دل بے رحم کے مصداق وزارت توانائی کا پبلک اور کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین کو سالانہ اربوں روپے کی مفت بجلی دیئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق دو لاکھ ملازمین کو 44 کروڑ 15لاکھ یونٹ سالانہ مفت بجلی دی گئی۔ حاضر سروس ملازمین 30 کروڑ 82 لاکھ اور ریٹائرڈ ملازمین 13 کروڑ 32لاکھ مفت یونٹس سے مستفید نکلے۔ ڈیسکوز کے ایک لاکھ 49 ہزار، جینکو کے 12ہزار ،واپڈا کے 12ہزار 700 پی آئی ٹی سی کے 159اور این ٹی ڈی سی کے 20 ہزار حاضر سروس اور 16 ہزار ریٹائرڈ ملازمین کو مفت بجلی فراہم ہوئی۔ 2023 کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ سب سے زیادہ بجلی سرکاری سطح پر استعمال ہوتی ہے۔ اکثر دفاتر میں ایئر کنڈیشنر ضرورت سے زیادہ حتیٰ کہ بعض مقامات پر بڑے بڑے یونٹ بیکار بھی چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اس وقت خاصی مہنگی بجلی پیدا کر رہا ہے اور اس کا سارا بوجھ صارفین پر ڈال دیا گیا ہے جس کا کم آمدنی اور بد ترین مہنگائی سے دو چار آدمی متحمل نہیں ہو سکتا۔ بجلی چوری ایک سنگین اور دیرینہ مسئلہ ہے جس پر آج تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ پہلے یہ چوری لاکھوں میں تھی اب اربوں تک پہنچ چکی ہے۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں نے ملکی معیشت کو بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صارفین پر بلوں میں بار بار اضافے کا مقصد لائن لاسز کی شکل میں ان قرضوں کی ادائیگی ہے جو اصولی طور پر مفت یا چوری شدہ بجلی استعمال کرنے والوں سے وصول کرنی چاہئے۔ پاکستان اپنا معاشی نظام برقرار رکھنے کیلئے بیرونی قرضے لینے پر مجبور ہے۔ ہمارے مالی وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہیں ۔ یہ صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہنے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ یہ بھی تحقیق طلب پہلو ہے کہ ہم جن بحرانوں کا شکار ہیں وہ کس حد تک حقیقی ہیں اور کتنی منصوبہ سازوں کی نا اہلی اور ناقص حکمت عملی کا شاخسانہ؟۔