پاکستان میں موسم سرما میں خشک سالی سے غذائی پیداوار میں 40 فیصد کمی کی اطلاعات تشویشناک ہونے کے علاوہ آنیوالے دنوں کیلئے مزید خطرات کے الارم کی بھی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک اعتبار سے زراعت اور معیشت کے ماہرین کے لئے یہ گھڑی ایسی آزمائش لے کر آئی ہے جس میں انہیں اپنی غذائی پیداوار کی نئی کیفیت سے نبرد آزماہونے کی مختصر مدتی اورطویل مدتی حکمت عملیاں بروئے کار لانی ہیں۔ غذائی اشیا پیدا کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بار خطے میں ستمبر سے جنوری تک بارشوں میں 42فیصد کمی سے خشک سالی کی صورت حال پیدا ہوئی جو غذائی اجناس کی فصلوں کو تباہ کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے مطابق زراعت کا شعبہ پاکستان کی جی ڈی پی میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالتا ہے جبکہ قومی لیبر کا 37فیصد حصہ اس شعبے سے وابستہ ہے۔ ایک طرف 24کروڑ سے زائد آبادی کی غذائی ضروریات کی فراہمی کا مسئلہ ہے ، دوسری طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے روزگار کا چیلنج ہے، تیسری طرف ماحولیاتی تبدیلی کا وہ جن ہے جو کہیں بارشوں کی کمی، کہیں زیادتی، کبھی گلیشیروں کے پگھلائو کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق خشک سالی سے پریشان چھوٹے کسان کھیتی باڑی چھوڑ کر ملازمت سمیت دوسرے روزگار اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ صورت حال کی سنگینی متقاضی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کرنہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے جن پر قابو پانے کی کاوشوں میں تیزی لائیں بلکہ زراعت کے ان جدید طریقوں سے فائدہ اٹھائیں جنہیں بروئے کار لاکر متعدد ممالک پانی کی کمیابی کے باوجود زائد اور معیاری پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بات یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی صورت میں پانی کو محفوظ بنانے کی تدابیر کی جائیں اور پانی کی ایک ایک بوند احتیاط سے استعمال کی جائے۔