• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات اتنی دور نکل جاتی ہے کہ اسے سمیٹتے، روکتے، واپس مرکز پر لانے میں دشواری ہو جاتی ہے۔ تھنک ٹینکس یا پالیسی ساز آسمانوں سے براہ راست اتر کر اور جادو کی چھڑی سے راتوں رات مسائل حل کر دیتے ہیں نہ مسائل کے سبھی تالوں کی چابی ان کے پاس ہوتی ہے۔ عالم فاضل بھی بعض اوقات مسائل بڑھا جاتے ہیں پھر بالا خانوں میں جنم اور اشرافیہ کی گود میں پرورش پانے والے اکثر ان عوامی مسائل سمجھ ہی نہیں پاتے جو بھوک اور ننگ کا سبب ہوتے ہیں، ان مسائل کا حل سیاسی و سماجی قیادت کے پاس ہوتا ہے بشرطیکہ وہ حرص کے حصار اور ذاتی فوائد کی رسیا نہ ہو۔ ایک نظر ادھر کہ بیورو کریسی بھی اپنی حدود سے نکل کر عوام اور عوامی نمائندوں کو بےوقوف باور کرانے میں ماہر ہے۔ لیکن یہاں اس نکتہ کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ بیورو کریسی ہو یا مقتدرہ انہیں اسٹیرنگ خود سیاسی نمائندے دیتے ہیں، محبت میں نہیں کسی اورکے بغض میں۔ تازہ سیاسی و خارجی صورت حال ہی کا اندازہ کرلیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات میں پھر تعطل آگیا ہے، اگر یہ تعطل نہ ہوتا تو نہ کسی کے ماتھے پر فارم 47 کی کالک ہوتی اور نہ کسی کا بانی القادر ٹرسٹ میں پس دیوار زنداں ہوتا۔ جب سیاست کو خود سر جوڑنا نہیں آئے گا تو بیورو کریسی، مقتدر اور امریکہ پر الزام کا فیشن عمران خان کی بھی ’’سائفرانہ ادا‘‘ ہو گی یا ایسا انکشاف کہ 'امریکی صدر اور کسی پاکستانی چیف جسٹس کی’’واش روم میں ملاقات کہ نواز شریف کی جان بخشی ہو ‘‘کسی دانشور کی جاہلانہ ادا! گویا پاک سیاست میں آج امریکی صدر اس قدر موضوع بحث ہے جیسے خان رہائی اور قید کا اختیار اسی کے پاس ہو۔ سب عدالتیں اور سیاستیں امریکی صدر کی مرہونِ منت پس لاعلمی میں پی ٹی آئی سے اندھی محبت کرنے والے ٹرمپ کی فضیلتیں بیان کرتے نہیں تھکتے۔ اور پی ٹی آئی سے اندھی نفرت والے لاعلاج مرض کا شکار ہیں۔ اندھی محبت اور اندھی نفرت کبھی جمہوریت پسند نہیں ہو سکتی! اندھےپن سے کوئی دیوتا لگتا ہے اور کوئی حکمران گھرانہ!۔ یہ ہے جمہوریت؟ بہرحال، بیورو کریسی سے جُڑی کچھ غلط فہمیوں اور سیاستدانوں سے جڑی خوش فہمیوں پر سوچے بغیر ڈیموکریسی، ڈپلومیسی، ٹیکنو کریسی اور دور اندیشی کی پرتوں کی پرکھ ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر: وزیر نااہل ہو تو وہ سیکرٹری کا طواف کرنے پر مجبور ہوگا۔ یہاں بیورو کریسی کا کیا قصور؟ سسٹم میں کمشنر ایک خواہ مخواہ ڈاکخانہ ہو تو ڈپٹی کمشنر وزیرِ اعلیٰ سے ڈائریکٹ کیسے ہو؟ چھوٹے صوبوں کے چند اضلاع اور پنجاب کے 41اضلاع کے ڈی سیز اور ضلعی پولیس آفیسر زسے وزیر اعلیٰ کا ڈائریکٹ ہونا کابینہ سے ڈائریکٹ ہونے سے زیادہ ضروری ہے، اور یہ کوئی جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں۔ پھر یہ چیف سیکرٹری کا بھی جھنجٹ کیا؟ وزرائے اعلیٰ کا سیکرٹریوں سے ڈائریکٹ ہونا محال کیوں؟پرنسپل سیکرٹری بھی پولیٹکل سیکرٹری ٹائپ ہونا چاہئے۔ یہاں پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری ہی کی سرد جنگ کا خاتمہ نہیں ہوتا یوں انتظامی مہارتیں انتقامی مہارتیں بنی رہتی ہیں۔ سو غلط فہمیوں سے بچنے کیلئے سیاسی قیادت بیوروکریسی میں اصلاحات کیوں نہیں لاتی؟ حال ہی میں سندھ میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی میں نئی قانون سازی سامنے آئی، جس میں وی سی کیلئے پی ایچ ڈی کی شرط ختم کی گئی، وزیرِ اعلیٰ سندھ کا موقف ہے کہ ہم نے پی ایچ ڈی کیلئے برابر موقع رکھا ہے تاہم ماسٹر ڈگری ہولڈرز جو فنانس اور ایڈمنسٹریشن کی قابلیت کے حامل ہیں ان کیلئے بھی دریچہ کھولا اور مقابلے کا میدان وسیع کیا ہے۔ اس ضمن میں محض اتنی عرض ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ ’’زاویہ زرداری‘‘ کے صفحہ 402تا 404تک ’’تیرا شہر میرے نگر کی تعبیر ہو جیسے‘‘ اور صفحہ 366’’ لیڈرشپ سے بیورو کریسی تک‘‘ کے کچھ مندرجات دیکھ لیں تو بہت کچھ ملے گا۔ ہاں، مراد علی شاہ نےچیئرمین ایچ ای سی سے شکوہ کیا ہے کہ وہ آکر بات کر لیتے کہ پی ایچ ڈی شق ختم کر کے کیا ’’ظلم‘‘ کیا ہے تو مکالمہ ہو جاتا، لیٹر لکھا تھا تو پہلے میڈیا کو دینا نامناسب تھا۔ اس پر ہم اپنا تبصرہ محفوظ رکھتے ہیں لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ کے پی کے میں تو وزیرِ اعلیٰ نے اپنے آپ ہی کو چانسلر بنا کر گورنر کا پتہ کاٹ دیا تو کیا جناب چیئرمین نے انہیں کوئی خط لکھا؟ قصہ کوتاہ سندھ میں ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے ’’لو جی اب بیوروکریٹس ہی وائس چانسلر لگیں گے؟‘‘ حالانکہ ایسا قانون میں بہرحال کہیں نہیں لکھا گیا، ویسے بھی ہمیں اپنے کلچر، ضرورت اور چیلنجز کیلئے قانون سازی کرنے کا حق حاصل ہے مگر بہتری کیلئے۔ کیا کوئی ماضی کا چانسلر وائس چانسلر نہیں لگ سکتا؟ کوئی پروچانسلر وی سی نہیں لگنا چاہئے؟ یہ تذکرہ نہیں کریں گے کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی سے ہٹ کر کچھ لوگوں نے جامعات کا قبلہ درست کر دکھایا جس کے بگاڑ کا سبب پی ایچ ڈیز خود تھے یا ان کی ذیلی تنظیمیں۔ پچھلے دنوں پنجاب میں 25سے زائد وائس چانسلرز میں پاکستان سے پی ایچ ڈی کرنے والے کتنے تھے؟ کیا ان کو بیورو کریسی نے پی ایچ ڈی کرائی تھی یا پاک پی ایچ ڈی کو فارن پی ایچ ڈی سے کم تر بیورو کریسی نے کیا؟ ہر پل بیورو کریسی سے استفادہ کے بجائے خامیوں ہی کی تلاش کیوں؟ سنا ہے کیلیفورنیا یونیورسٹی کا صدر اریزونا کا سابق گورنر ہے مگر نان پی ایچ ڈی۔ یونیورسٹیوں کے اندر سے پی ایچ ڈی ہی پی ایچ ڈی کو ہتھکڑیاں لگوانے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں اور بات بیورو کریسی اور عدالتوں تک جاتی ہے، یہ بھی بیورو کریسی کا قصور کیا؟ سیاسی و سماجی ، بیورو کریسی اور پی ایچ ڈی اپنا اپنا کام نہیں کرینگے تو مسائل بڑھیں گے، سندھ کو ہنوز ہائیر ایجوکیشن لیڈر شپ چناؤ میں نیشنلائزیشن کی بہرکیف ضرورت ہے اور ایچ ای سی کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ورنہ بات بہت دور نکل جائے گی!

تازہ ترین