• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا کی حمد و ثنا کے بعد واضح ہو کہ طالبان اور ان کے حامی ایسے مخالف ہیں جو ادھار کے روادار نہیں۔ اپریل کے آخری دس روز ذرائع ابلاغ اور فوج کی غیر ضروری اور نقصان دہ کشمکش میں گزرے ۔ جاننے والوں نے اس کھینچا تانی کو سیاسی قیادت اور ہیئت مقتدرہ کے باہم تنائو کی توسیع جانا اور اسی تناظر میں اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ بالآخر 30اپریل کو صورت حال میں بہتری کے آثار نمودار ہوئے۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے یوم شہدا کی تقریب میں دو ٹوک اعلان کیا کہ فوج جمہوریت اور آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتی ہے۔ نیز فوج ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے لئے کسی ابہام کا شکار نہیں۔ جنرل راحیل کے بیان کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پشاور میں قبائل امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے طالبان رابطہ کمیٹی کے ارکان نے گویا ریاست پاکستان کو اپنے ردعمل سے آگاہ کیا۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ آئین کی اسلامی شقوں پر عمل درآمد کروایا جائے تو وہ طالبان سے آئین تسلیم کروانے کا یقین دلاتے ہیں۔ اصل مذاکرات اس وقت تک شروع نہیں ہوسکتے جب تک فوج اور طالبان ایک میز پر نہیں بیٹھ جاتے۔ انہوں نے رجب کے مقدس مہینے کے احترام میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ۔ مولاناسمیع الحق نے شکوہ کیا کہ غاروں میں بیٹھے طالبان سے ان کا رابطہ ہوجاتا ہے مگر اسلام آباد والوں سے رابطہ نہیں ہوتا۔ امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق نے کہا کہ آئین شکنی کرنے والے قبائلی علاقوں میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بعد ازاں طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بھی فرمایا کہ حکومت خود مختار نہیں۔ حکومت طالبان کے خلاف سکیورٹی اداروں کی کارروائیاں بند کروانے میں ناکام رہی ہے۔ طالبان مذاکرات کو سیاسی اور جنگی ہتھیار کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔ طالبان کے حامیوں کے یہ ارشادات گہرے مفہوم کے حامل ہیں اور غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔
طالبان کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے اسامہ بن لادن کے اس ویڈیو پیغام پر غور کیجئے جو اکتوبر 2004ء میں الجزیرہ سے نشر ہوا تھا۔ اسامہ بن لادن نے اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ کو ممکنہ حد تک طول دیتے ہوئے دشمن کو اتنا نقصان پہنچایا جائے کہ وہ بالآخر عسکری، معاشی اور اعصابی طور پر زچ ہو جائے۔ طالبان نے پاکستان میں یہی طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر طالبان کی کارکردگی قابل رشک ہے۔ انہوں نے رائے عامہ، سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو بری طرح سوچ اور حکمت عملی کے ابہام میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان میں ایک آئینی حکومت قائم ہے اور فوج حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے ۔ حکومت کو بار بار بے اختیار قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست میں آئینی بالادستی کا تصور کمزور کیا جائے۔ سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں سے حکومت کا بے اختیار ہونا نہیں بلکہ طاقتور ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر کارروائیاں روکنا اختیار کا نشان ہے تو طالبان بھی دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ وہ تو اپنی باہمی لڑائی روکنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ پاکستانی حکومت کو یہ سہولت حاصل نہیں کہ وہ اپنی کسی کارروائی کا ملبہ احرار الہند یا اسی طرح کے کسی گمنام گر وہ پر ڈال سکے۔ چو نکہ جنرل راحیل نے آئین کی بالادستی کا اعلان کیا ہے اس لئےمولاناابراہیم آئین کو اسلامی بنانے کی شرط عائد کرتے ہیں۔ اس شرط کے کیف و کم سے قطع نظر پروفیسر صاحب سے ایک سوال کرنا چاہئے کہ جناب آپ اور آپ کے ہم صفیر ہمیں بتاتے رہے کہ نام نہاد مجاہدین نے اس لئے ہتھیار اٹھائے ہیں کہ افغانستان پر غیر ملکی افواج نے قبضہ کر لیا ہے۔ پھر کئی برس آپ نے یہ دھن چھیڑے رکھی کہ دہشت گردی ڈرون حملوں کا ردعمل ہے تو صاحب اب امریکہ سمیت غیر ملکی افواج افغانستان سے انخلا کر رہی ہیں۔ وہاں کے انتخابات سے ظاہر ہوا ہے کہ افغان عوام کی بڑی تعداد اپنے ملک میں امن اور جمہوریت کی حامی ہے اور پاکستان میں ڈرون حملے چار مہینے سے بند ہیں۔ اب فرمائیے کہ طالبان کے مطالبات کی فہرست میں آئین پاکستان کہاں سے آیا۔ گویا پاکستان کے جمہوریت پسند یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پرسیاست کرنے والے طالبان کی آڑ میں پاکستان پر من مانا اختیار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔شائی لاک اپنے لئے گوشت کا پارچہ مانگتا ہے اور اسے خون بہانے سے بھی گریز نہیں۔ مقدس مہینوں کے احترام کی اچھی کہی، میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر رمضان میں حملہ کیا گیا، طورخم کی چوکی پر افطار میں مشغول فوجی جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ برسوں سے عاشورہ خوف و ہراس کی فضا میں منایا جاتا ہے۔
تقدیس کا یہ سبق پاکستان ہی کو مفلوج کرنے میں بروئے کار کیوں آتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں کسی ترمیم کا طریقہ کار خود آئین کے اندر موجود ہے اور آئین کی روح کو برقرار رکھنے کے لئے غیر جانب دار عدلیہ بھی موجود ہے۔ آئین پاکستان کے حسن و قبح سے قطع نظر طالبان کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین پر رائے زنی کریں۔ پاکستان نہ ہوا غریب کی جورو ہو گیا۔ ایک آئینی مسودہ حزب التحریر کی طرف سے آتا ہے اور ایک رسالہ محترم ایمن الظواہری ’چراغ اور ستارہ صبح‘ کے نام سے رقم فرماتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہماری صفوں میں وہ نابغے موجود ہیں جو اخباری کالموں میں طالبان کو طریقے سجھاتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کو کیسے بے دست و پا کیا جائے۔ ایک کالم نگار (جو سرکاری اہلکار بھی ہیں) نے گزشتہ برس ستمبر میں طالبان کو آئینی دعوئوں کا نمونہ پیش کیا۔ رواں سال فروری میں مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا تو ایک محترم اخبار نویس نے آئین کے ممکنہ شرعی خدوخال بیان کیے۔ ہر دو کی تان فحاشی، سود ، مخلوط تعلیم اور نصاب تعلیم پر ٹوٹی۔ خیر گزری کہ لونڈی غلام کا رواج پھر سے شروع کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ساٹھ برس پہلے پاکستان کے علماء کراچی میں اسلامی دستور مرتب کرنے بیٹھے تھے۔ 22 نکات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ ساٹھ برس میں پیشوائیت یہ بھی نہیں سمجھ سکی کہ آئین تو ریاست چلانے کا ضابطہ ہے ۔ اس میں شہریوں کے حقوق، مختلف اداروں کے اختیارات ، احتساب اور انتقال اقتدار کے قاعدے طے کیے جاتے ہیں۔ہمارےپیشوائوں کو پارلیمنٹ کی حالیہ قراردادوں میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نکتہ تو یاد ہے باقی متن کو نظر انداز کرنے میں مصلحت سمجھی جاتی ہے۔اسی طرح قرارداد مقاصد کے بھی مفید مطلب حصوں پر زور دیا جاتا ہے۔ قرارداد مقاصد کے آخری نکتے میں پاکستانی ریاست کا نصب العین بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے ’’پاکستان کے عوام خوش حال ہو سکیں اور اقوام عالم کے درمیان اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کر سکیں اور بین الاقوامی امن اور اِنسانیت کی ترقی و خوش حالی میں پورا حصہ ڈال سکیں‘‘۔ پاکستان کے آئین نے تو شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور ان کی آزادیوں کے احترام کی ضمانت بھی دی ہے۔ پاکستان میں بہت سے شہری شہریت،علم اور قانون جیسے بنیادی تصورات پر طالبان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ لوگ علم کو جامد احکامات کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ایک متحرک اور وسعت پذیر عمل کی طرح دیکھتے ہیں کیونکہ علوم اور فنون کی حدود متعین کرنے سے انسانی ارتقا کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک شہریت شہری اور ریاست کا براہ راست تعلق ہے جس میں کسی خود ساختہ پیشوا کا وسیلہ درکار نہیں۔ طالبان کے نزدیک قانون تعزیرات کے مجموعے کا نام جس کا مقصد شہریوں کو طے شدہ سزائوں کی کھونٹی پر لٹکانا ہے۔ قانون کا حقیقی مقصد جرم کو ختم کرنا ہے۔ شہریوں کی ذاتی زندگی کو کسی خاص معاشرتی نمونے میں ڈھالنا قانون کا مقصد نہیں۔ پاکستانی شہریوں کی اکثریت نے انتخابات میں ہمیشہ ان جماعتوں کو منتخب کیا جو پاکستان کے آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں۔ پاکستانیوں کی اس عظیم اکثریت کو اس بات کی سزا نہیں دی جا سکتی کہ انہوں نے طالبان کی طرح ہتھیار اٹھانے کی بجائے ریاست پر بھروسہ کیا ہے کہ وہ ان کی حفاظت کا فرض پور ا کرے۔ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نہایت انکسار سے فرماتے ہیں کہ طالبان نے ملک و قوم کو جنگ بندی کا تحفہ دیا ہے۔ دراصل طالبان نے ہمیں پچاس ہزار شہریوں اور فوجی جوانوں کے خون ناحق کا تحفہ دیا ہے۔ یہ تو طالبان کی وضع داری ہے کہ پاکستانی فوج کی طرف سے اس تحفے کا جواب ملتا ہے تو چوبیس گھنٹے میں بلبلا اٹھتے ہیں۔ ان کے حامیوں کی صفوں میں ایسا بھونچال آتا ہے جس سے ہمارے لئے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ کس کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ امیر مینائی یاد آ گئے ۔’درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا۔
تازہ ترین