• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کی جانب سے 140فی صد اضافے کی منظوری ، غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے کروڑوں پاکستانیوں کیلئے انتہائی حیران کن ہے، ان کیلئے یہ فیصلہ کرنا محال ہوگیا ہے کہ ملک پر کھربوں کے قرضوں کے کمر توڑ بوجھ میں مسلسل اضافے کے پیش نظر ذمے داران حکومت کی جانب سے سرکاری اخراجات میں کٹوتی اور کفایت شعاری اختیار کیے جانے کے بلندبانگ دعووں کو کیا نام دیں؟ ذرائع کے مطابق اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی نے جسے وفاقی بجٹ میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا اختیار دیا گیا تھا، اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات وفاقی سیکرٹری کے مساوی کرنے کی متفقہ منظوری دیدی ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 140فیصد اضافے کی سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردی ہیں جن میں ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ و مراعات 5لاکھ 19ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ اس وقت رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 2 لاکھ 18 ہزار روپے ہے۔ سیاسی قیادتوں اورجماعتوں کی عوام سے ہمدردی کے دعووں کی حقیقت اس امرسے بخوبی واضح ہے کہ عوام کے پیٹ کاٹ کر وصول کیے جانیوالے ٹیکسوں کی رقم سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت تمام جماعتیں ہم آواز ہیں ۔ پی ٹی آئی کے 67اراکین نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا تحریری مطالبہ کیا تھا۔پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ نے تنخواہ 10 لاکھ روپے ماہانہ تک بڑھوانے کے خواہش مند تھے لیکن اسپیکر نے اسے مسترد کر دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم کی منظوری کے بعد تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ دونوں ایوانوں کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں بھیجا جائے گا۔ اس تجویز کی حتمی منظوری کے بعداراکین پارلیمنٹ کو سہولتیں بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی حاصل ہوں گی۔واضح رہے کہ 16 دسمبر کو پنجاب اسمبلی میں عوامی نمائندوں کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل 2024 ءمنظور کیے جانے کے بعد ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار کے بجائے 4 لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9لاکھ 60 ہزار کی جاچکی ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے حکمراں طبقوں کی مراعات دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں سے بھی زیادہ ہیں جبکہ معیشت کے میدان میں ترقی یافتہ مغربی ممالک تو کجا ،ہم اپنے خطے کے بیشتر ملکوں سے بھی پیچھے ہیں ۔اس بنا پر حقیقی معاشی خوشحالی کی منزل تک پہنچنے سے پہلے حکمراں طبقوں کی تنخواہوںمیں اضافہ عوام پر ظلم ہے۔اسکے بجائے مفت بجلی گیس وغیرہ جیسی مراعات واپس لی جانی چاہئیں جس کی ضرورت کا اظہار خود حکومتی شخصیات بھی کرتی رہی ہیں۔ وزیر اعظم عوام کے واقعی ہمدرد اور خیرخواہ ہیں تو انہیں یہ سفارشات منظور نہیں کرنی چاہئیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع کے قرضوں کے جال میں جکڑی قومی معیشت کو اسکے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کی ضرورت ہے ۔ تاہم ہمارے حکمراں طبقے قربانیوں کا مطالبہ صرف عوام سے کرتے ہیں اور اپنے اللوں تللوں میں کمی کے بجائے اضافے کیلئے کوشاں رہتے ہیں حالانکہ حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کو ایثار و قربانی کے معاملے میں عام لوگوں کیلئے لائق تقلید مثال بننا چاہیے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقتدر طبقوں کو آخر کسی درجے میں تو اس سنت نبویؐ پر عمل کرکے دکھانا چاہئے کہ وقت پڑا تو رہبر کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے فاقہ کشی کی شدت میں دوسروں سے بڑھ کر مبتلا ہونے کی وجہ سے عام مسلمانوں کے ایک کے مقابلے میں دو پتھر پیٹ پر باندھے جبکہ خلیفہ اول ابوبکر صدیق ؓ نے سربراہ مملکت کی حیثیت سے مسلمانوں کے بیت المال سے محض اتنا گزارہ الاؤنس لینا گوارا کیا جو ایک عام مزدور کی اجرت تھی۔

تازہ ترین