صحافت اور آزادئ اظہار اور ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کرنے اور ان کی زبان بندی کے لئے سخت ترین قوانین لاگو کرنے کا سلسلہ تو تاریخ کے بدترین آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن ہر دور میں ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔نتیجتاً اب حالت یہ ہے کہ میڈیا ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہے جو صحافت کو مستقبل کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے کیونکہ حکومتیں آزادئ اظہار پر یقین رکھنے والوں کی زبان بندی کے لئے ہر لائن کراس کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتی ہے۔موجودہ حکومت جو 2016 میں پیکا بل متعارف کرانے کا ’’اعزاز‘‘ رکھتی ہے، یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پیکا بل’’آزادئ اظہار رائے اور آزادئ صحافت‘‘پر قدغن نہیں لگائے گا بلکہ اس کا مقصد اس بے لگام سوشل میڈیا کو لگام ڈالنا ہے جو لوگوں کی عزت اچھالنا اپنے لئے باعث عزت سمجھتا ہے۔اگر حکومت کا مؤقف درست ہے تو اس قدر جلد بازی میں قانون سازی کا مطلب اور قصد کیا ہے۔کیوں قانون سازی کے لئے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؟ کیوں صحافت اور آزادئ اظہار پر قدغن لگانے کا قانون نافذ کرنے میں جلد بازی سے کام لیا گیا؟ کیا اس پراسرار جلد بازی سے ان کی نیت میں فتور کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ کیوں’’صحافت اور عملی صحافت‘‘کی واضح تشریح نہیں کی جا سکتی؟کیا حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ملازمت سے نکالا جانے والا صحافی نہیں رہتا جیسے عمران حکومت نے نصرت جاوید اور طلعت حسین جیسے جید صحافیوں کو ملازمت سے نکلوا کر انہیں’’غیر صحافی‘‘ قرار دے دیا تھا جو وقت کے حکمرانوں کی چالاکی نہیں جہالت تھی کیونکہ صحافی کبھی ملازمتوں کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ مرنے کے بعد بھی صحافی ہی رہتا ہے۔مسلم لیگ(ن) حکومت نے’’کالا قانون‘‘ اگست2016میں قومی اسمبلی سے پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ بل 2016کے نام سے متعارف کرایا جسے کسی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر جلد بازی میں لاگو کردیا جیسے کوئی ’’ڈنڈا‘‘ ان کے تعاقب میں تھا۔جس کی شدید مخالفت تحریک انصاف کی جانب سے کی گئی اور انہوں نے اس قانون کو’’ڈریکونین لا‘‘ قرار دیا۔لیکن جب عمران خان اقتدار میں آئے تو ان کی اولین ترجیحات میں میڈیا کا گلہ کاٹنا شامل تھا جو انہوں نے انتہائی رازداری کے ساتھ صحافت پر شب خون مارا اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کہیں زیادہ زہریلا کالا قانون لاگو کردیا جس سے متعلق اداروں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس قانون کو غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے صدارتی آر ڈیننس کے ذریعے منظور کئے جانے والے بل کو مسترد کر دیا۔عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس قانون کو متعارف کرانے والی مسلم لیگ (ن) اقتدارمیں آئی تو اس نے اپنا ’’ادھورا مشن‘‘ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلے سے کہیں زیادہ سخت ترامیم کے ساتھ کسی اتحادی پارٹی یاا سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے کر نافذ کردیا جس پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی-ایف-یو-جے) سمیت تمام میڈیا تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن (HRCP) نے قومی اسمبلی میں ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) بل 2025 ‘‘کی منظوری پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ریاست کی ڈیجیٹل اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ میں ناقص کارکردگی کے پیش نظر، اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو یہ سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں اور مخالفین کو نشانہ بنانے کا ایک اور ذریعہ بن سکتا ہے، کیونکہ یہ ریاستی اداروں پر تنقید کو مؤثر طریقے سے سزا دینے کا باعث بنے گا۔بل کی دفعہ 26-اے میں’’جعلی یا جھوٹی خبروں‘‘ پر زور دینا تشویشناک ہے۔ بل کے متن میں’’جعلی خبروں‘‘ کی واضح تعریف فراہم نہیں کی گئی اور اس کی بجائے مبہم نتائج جیسے عوامی ’’خوف، گھبراہٹ یا بدامنی‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ تین سال تک قید کی سزا غیر ضروری اور سخت ہے۔ڈیجیٹل مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے چار نئی اتھارٹیز کا قیام، جو کہ کثیر سطحی کنٹرول نافذ کرے گا، اظہارِ رائے اور رائے کی آزادی پر منفی اثر ڈالے گا۔اس کے علاوہ، مجوزہ’’سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل‘‘ کے فیصلوں کو براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے اور اس ٹریبونل میں حکومتی تقرری کے اراکین کی شمولیت بھی باعثِ تشویش ہے، کیونکہ اس سے عدالتی نگرانی کم اور ایگزیکٹو کنٹرول بڑھنے کے امکانات ہیں۔صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پی-ایف-یو-جے کے صدر افضل بٹ اور سیکرٹری جنرل ارشد انصاری نے اس ڈرکونین قانون پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مزاحمت کا اعلان کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔