• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالا پُل، کراچی کی ایک مشہور اور قدیم بالائی گُزر گاہ ہے۔ اس پُل کا افتتاح 5جنوری 1875ء کو کیا گیا اور 5جنوری 1975ء کو ایک سو سال مکمل ہونے پر اسے آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا کہ اس کی میعاد ایک سو سال مقرّر کی گئی تھی۔ مختلف ادوار میں اس بالائی گُزر گاہ کے مختلف نام رکھے گئے، جن میں ’’ایاز سمّوں پُل‘‘، ’’چاند بی بی پُل‘‘، ’’عثمان غنی پُل‘‘ اور ’’ڈیفینس بِرج‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ 

تاہم، آج بھی یہ پُل اور اس سے ملحقہ آبادیاں ’’کالا پُل‘‘ ہی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان بستیوں میں ریلوے کالونی اور جمہوریہ کالونی سمیت دیگر آبادیاں شامل ہیں۔ بعض روایات کے مطابق اس پُل کو یہ نام اندرونِ مُلک سے آنے والے مسافروں نے دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب مُلک کے دوسرے شہروں سے آنے والی ریل گاڑیاں اس پُل کے نیچے سے گزرتیں، تو مسافر سمجھ جاتے کہ اب وہ کراچی پہنچ چُکے ہیں۔ 

پُل کا یہ نام اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ اس کا اصل نام بُھول گئے، جو یقیناً انگریزوں نے رکھا ہوگا۔ اسی طرح کالا پُل کے ساتھ ہی مسیحی باشندوں کا قبرستان واقع ہے، جسے انگریزوں کی رنگت کی وجہ سے ’’گورا قبرستان‘‘ کہا جاتا تھا اور آج بھی یہ قبرستان اسی نام سے مشہور ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ’’کالے‘‘ کے ساتھ ’’گورے‘‘ کا جوڑ قیامِ پاکستان سے قبل کا ہے۔

گرچہ ٹریفک کی آمدورفت کے لیے ’’کالا پُل‘‘ کا استعمال ترک کرنے سے قبل اس کے متوازی ایک نیا پُل تعمیر کیا گیا، لیکن اس قدیم گُزرگاہ کے متروک ہونے سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہو گیا کہ کم آمدنی والے افراد ملازمت پر جانے کے لیے اس پُل سے گزرتے تھے۔ 5جنوری 1975ء کو ’’کالا پُل‘‘ کو گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے بند کرتے وقت ایک ٹریک پیدل چلنے والے افراد اور سائیکل سواروں کے لیے مختص کیا گیا، جسے مقامی افراد نے رُکاوٹیں توڑ کر کُشادہ کر لیا۔ کچھ عرصے بعد اس متروکہ گُزرگاہ پر چھوٹی گاڑیاں چلنے لگیں، تو حکومت نے پُل ہی مسمار کر دیا اور اس جگہ تجاوزات قائم ہو گئیں۔

دوسری جانب اس قدیم گزرگاہ کے خاتمے سے پی این ایچ شفا اسپتال سے جناح اسپتال اور جناح اسپتال سے شفا اسپتال مریضوں کی منتقلی کا عمل بھی متاثر ہوا کہ ایمرجینسی میں مریضوں کی ایک سے دوسرے اسپتال منتقلی کے لیے گاڑی کو طویل چکر لگانا پڑتا تھا۔ 

بعد ازاں، دونوں اسپتالوں کا درمیانی فاصلہ کم کرنے کے لیے پُل کو دوبارہ عارضی طور پر تعمیر کیا گیا اور یہاں بڑی گاڑیوں کی آمدروفت پر پابندی عائد کی گئی۔ تاہم، کچھ ہی عرصے بعد پُل پر ہیوی ٹریفک چلنے لگی۔ رواں برس 5جنوری کو کالا پُل کے ڈیڑھ سو برس مکمل ہو گئے، لیکن اس قدیم اور تاریخی گزرگاہ کی 150ویں سال گرہ نہیں منائی گئی۔