• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے برس 11مئی کو ہمارے ہاں عام انتخابات ہورہے تھے تو ٹی وی چینلز پر شکایات کا ایک طومار بندھا تھا۔ کہیں سے خبر آرہی تھی کہ عملہ نہیں پہنچا، کوئی چیخ رہا تھا کہ بیلٹ پیپر نہیں ملے، کہیں جعلی ووٹوں کا رونا رویا جارہا تھا۔ غرض کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ روایتی طور پر ہم ہر معاملہ میں مقابلہ بھارت سے کرتے ہیں۔ وہ لفٹ کرائیں یا نہ کرائیں، ہم انہیں مدمقابل ضرور سمجھتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ جیسے تیسے ہر معاملہ میں ان سے بہتر کارکردگی کا دعویٰ کریں کیونکہ دعوئوں پر کچھ خرچ نہیں اٹھتا اور نہ ہی کوئی خاص مشقت درکار ہوتی ہے مگر حقائق حقائق ہوتے ہیں، انہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ وہ مشک کی مانند خود بولتے ہیں اور ڈھنڈورچی کے محتاج نہیں ہوتے۔ جن دنوں ہمارے ہاں 2013ء کے عام انتخابات کے حوالہ سے 35 پنکچروں کی بات نہ کھلی تھی، راقم کی بدقسمتی کہ ایک سیمینار کے سلسلے میں ہندوستان میں تھا اور اپنے وزیراعظم اور ایک صوبہ کے نگران وزیر اعلٰی کے حوالے سے پھیلی اس بے سروپا داستان کی وضاحت کرتے کرتے عاجز آگیا تھا اور میرے پاس ایک مقامی مندوب کے اس معصومانہ استفسار کا کوئی جواب نہ تھا کہ کیا آپ کے ہاں الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام نہیں ہے؟ ذرا کھوج کی تو پتہ چلا کہ بھارت کو تو ان صندوقچیوں، مہروں، مقناطیسی سیاہیوں اور گز گز لمبی انتخابی فہرستوں سے نجات حاصل کئے مدت ہوچکی۔ 1999ء کے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین جزوی طور پر استعمال ہوئی تھی جبکہ 2004ء کے بعد سے اب تک تینوں انتخابات مکمل طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مدد سے کرائے گئے ہیں۔ جن کے استعمال سے ووٹ ڈالنے سے لیکر نتائج کے مرتب کرنے تک انتخاب کے پورے عمل میں بے حد آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
مندوبین کی دلچسپی کے پیش نظر منتظمین نے الیکشن کمیشن کی مقامی اہلکارہ مسز چاولہ کی اعانت سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین، جسے عرف عام میں EVM کہتے ہیں، کے طریق کار کے حوالے سے ڈیمانسٹریشن کا اہتمام کروا دیا۔ فی الحقیقت یہ ایک میڈیا بریفنگ تھی۔ جس میں ہم لوگوں کو بھی اکاموڈیٹ کردیا گیا تھا۔ کسیر رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، درمیانی عمر کی ہنستی مسکراتی کشیدہ قامت مسز چاولہ کا کمال یہ تھا کہ اس خالص تیکنیکی قسم کی بریفنگ تو انتہائی دلچسپ بنا دیا۔ طے یہ پایا کہ پہلے موصولہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے متعلق بتائیں گی اور پھر سوال و جواب کا سیشن ہوگا مگر اتنا صبر کس کو تھا۔ بیچ بیچ میں بھی سوالات آتے رہے جنہیں بی بی نے نہایت خوش اسلوبی سے نمٹایا۔ بتایا گیا کہ یہ مشین دو حصوں پر مشتمل ہے۔ کنٹرول یونٹ اور بیلٹنگ یونٹ، کنٹرول یونٹ پریذائیڈنگ آفیسر کے پاس ہوتا ہے جبکہ بیلٹنگ یونٹ ذرا فاصلے پر پردہ والی جگہ میں رکھا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ پرچی پر مہر لگانے کیلئے پردہ والی جگہ بنی ہوتی ہے۔ دونوں یونٹوں کو تار سے یہ جوڑ دیا جاتا ہے۔ جونہی ووٹر آتا ہے۔ پریذئیڈنگ افسر اپنے یونٹ پر لگا بیلٹ بٹن دیا دیتا ہے جس سے بیلٹنگ یونٹ کا تالہ کھل جاتا ہے اور سب امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان اسکرین پر ابھر آتے ہیں۔ ووٹر اپنی پسند کے امیدوار کے سامنے کے بٹن کو دباتا ہے اور ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے۔ ذہن میں سوال ابھرا کہ کمپیوٹر صحیح ہے تو انسان کا بنایا ہوا چیٹنگ کے امکانات تو ہونگے؟ انکشاف ہوا کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ مشین کی ساخت اس قسم کی ہے کہ اس کی پروگرامنگ میں اسے بنانے والا بھی رد و بدل نہیں کرسکتا۔ بتایا گیا کہ چونکہ بجلی کی آمد و رفت لگی رہتی ہے اور ہر جگہ بجلی ہے بھی نہیں۔ سو مشین کو چلانے کیلئے چھ وولٹ کی اک لائن بیٹری استعمال ہوتی ہے جس کی فیکٹری بنگلور میں ہے۔ مشین کی استعداد کے بارے میں بتایا گیا کہ اس میں 3840 ووٹ کاسٹ ہوسکتے ہیں جبکہ ایک پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کی تعداد بالعموم 1400 سے زائد نہیں ہوتی۔ اسی دوران ایک مندوب کے ذہن میں کلبلاتا سوال لبوں پر آگیا کہ اگر ووٹ والے بٹن کو ایک سے زیادہ مرتبہ دبا دیں تو زیادہ ووٹ نہیں پڑ جائیں گے؟ او، نو، سر! آپ اسے سو مرتبہ بھی دبائیں گے تو بھی ایک ووٹ ہی ریکارڈ ہوگا کیونکہ ایک بار دبانے کے بعد یہ خودبخود لاک ہوجاتی ہے اور مشین کو پیار سے تھپتھپاتے ہوئے مسز چاولہ نے اضافہ کیا کہ اس نے تو ہمارے سارے مسئلے حل کردئیے ہیں۔ ایک بندہ، ایک ووٹ۔ نو کوئی رولا نہ کوئی جھوٹ۔ مزید بتایا کہ یہ مشینیں 1990ء میں 5500 روپے فی عدد کے حساب سے خریدی گئی تھیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے سبب ایک بڑی رقم قیمت کے طور پر ادا کرنا پڑی تھی مگر اس ایک دفعہ کے خرچہ نے بار بار کے خرچوں سے بچا لیا۔ دس ہزار ٹن کی تو کاغذ کی مد میں بچت ہوتی ہے کیونکہ اب لمبے لمبے بیلٹ پیپر چھاپنا نہیں پڑتے۔ بار برداری،ا سٹوریج اور پولنگ اسٹاف پر ہونے والے اخراجات بھی بہت کم ہوگئے ہیں اور یہ ہے بھی بڑی ہینڈی اور اسمارٹ قسم کی چیز دیکھنے میں بالکل بریف کیس لگتا ہے۔ ووٹ خراب ہونے کا تو ٹنٹنا ہی ختم ہوگیا۔ پہلے مہر ذرا ادھر سے ادھر ہوجاتی تو ووٹ کسی کا بھی نہیں رہتا تھا۔ پرانے سسٹم میں آخری منٹوں میں جعلی ووٹوں سے صندوقچیاں بھر دی جاتی تھیں۔ مشین نے وہ راستہ بھی بند کردیا۔ کیونکہ اس میں ایک منٹ میں پانچ سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہو ہی نہیں سکتے۔ ایک مشین خراب ہوجائے تو اس کی جگہ دوسری رکھی جاسکتی ہے اور پہلی میں ریکارڈ ہوئے ووٹ بھی محفوظ رہتے ہیں۔ اسٹور کئے ہوئے نتائج کو دس برس بلکہ اس سے زائد عرصہ کیلئے بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ایک مندوب کا سوال تھا کہ پولنگ شروع ہونے سے پہلے بھی تو مشین میں ووٹ ریکارڈ کئے جاسکتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اس خدشہ کے ازالہ کی غرض سے پریذائیڈنگ افسر پولنگ شروع ہونے سے پہلے مشین کا رزلٹ بٹن دبا کر پولنگ ایجنٹوں کی تسلی کروا دیتا ہے کہ سلیٹ بالکل صاف ہے ’’جیسے پرانے نظام میں صندوقچی کھول کر دکھائی جاتی تھی کہ اس میں پہلے سے کوئی ووٹ موجود نہیں۔ ووٹ ڈالنے کا نظام بھی بے حد شفاف ہے۔ جونہی ووٹر پسندیدہ امیدوار کے نام اور انتخابی نشان کے سامنے لگا۔ نیلے رنگ کا بٹن دباتا ہے تو نشان کے بائیں طرف نہ صرف کہ نیلے رنگ کا بلب جھلملانا شروع کردیتا ہے۔ بیپ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے جو ایک طرح کا آڈیو، وڈیو ثبوت ہے کہ آپ کا ووٹ کاسٹ ہوچکا۔ کسی ایک انتخابی بوتھ پر آخری ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے تو پریذائیڈنگ افسر ’’کلوز‘‘ کا بٹن دبا دیتا ہے جس کے بعد مشین مزید ووٹ قبول نہیں کرتی پھر بیلٹنگ اور کنٹرول یونٹ کو الگ الگ کرکے موقعہ پر موجود پولنگ ایجنٹوں کو کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی کل تعداد کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا جاتا ہے۔ ایک سوال نتائج کے حوالے سے بھی ہوا کہ پانچ، چھ، ہفتوں کا انتظار امیدواروں کو گراں نہیں گزرتا؟ اور کہا اپنی وقت سے پہلے نتیجہ جاننے کی تحریک نہیں ہوتی؟ بتایا گیا ہے کہ بیلٹنگ یونٹ ریٹرننگ افسر کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے کے پرانے نظام میں پرچیوں کے تھیلے جایا کرتے تھے۔ بیلٹنگ یونٹ کا رزلٹ بٹن سیل شدہ ہوتا ہے جسے مقررہ تاریخ پر پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی کھولا جاتا ہے۔ اس بات کا بھی اہتمام ہے کہ EVM کا ڈیٹا الیکشن کمیشن یا کسی اور ادارہ کے سسٹم کے ساتھ نہ جوڑا جائے تاکہ خواہ مخواہ کی ڈپلیکیشن نہ ہو اور کسی بھی طرف سے غیر ضروری مداخلت کا امکان نہ رہے۔
ہمارے ہاں انتخابات پچھلے برس ہوئے تھے اور ہمیشہ کی طرح دھاندلی کے الزامات کا ایک طوفان اٹھا تھا، جس کی بازگشت، ہنوز فضائوں میں موجود ہے۔ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق اور ناقص مقناطیسی سیاہی کے حوالے سے بہت لے دے ہوئی تھی۔ تحریک انصاف نے تو پورے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دیا تھا اور ہمارے الیکشن کمیشن اور نادرا کے پاس اٹھائے گئے سوالوں کا شافی و کافی جواب نہیں تھا۔ سنا ہے کہ نادرا نے بھی EVM بنالی ہے جو آئندہ عام انتخابات کو فول پروف بنا دے گی۔ اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔ پندرہ برس بعد سہی ہم کم از کم انتخابات کے عمل میں ہی بھارت کی ہمسری کرسکیں۔
تازہ ترین