برطانوی سائنسدان سر آئزک نیوٹن (1642ء تا 1727ء) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے قدرت کا یہ پوشیدہ راز پا لیا کہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں اب اسے نیوٹن کا تیسرا قانون کہا جاتا ہے جس کے مطابق ہر عمل کا اس کے برابر اور مخالف ردّعمل ہوتا ہے۔ نیوٹن کا یہ سنہری قانون سیاست پر لاگو کر کے دیکھیں تو یہاں بھی ہر عمل کا اس کے ہی برابر سیاسی ردّعمل ہوتا ہے جس طرح لالی وڈ کی پنجابی دنیا میں جس دن سلطان راہی تاریک راہوں میں مارا گیا اسی روز مصطفیٰ قریشی زندہ ہوتے ہوئے بھی مرگئے تھے جب ایکشن ہی نہ رہا ری ایکشن کیسا؟ جب ہیرو ہی دنیا سے اٹھ گیا تو ولن اکیلا کیا کرے گا؟۔ پاکستانی سیاست میں بھی عمران خان اور شہباز حکومت کا وہی تعلق ہے جو سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا تھا آج اگر عمران کی سیاسی قوت اور مقبولیت ختم ہوتی ہے یا بہت کم ہو جاتی ہے تو شہباز حکومت کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہے گی۔ شہباز حکومت اسی وقت تک مضبوط ہے جب تک عمران خان اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت پر قائم و دائم ہے اس مثال کو مزید سمجھنے کے لئے یہ تاریخی واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے جس دن نون لیگ نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قیوم کے ذریعے بینظیر بھٹو کو نااہل کیا تھا اور سزائیں سنائی تھیں اسی دن تقدیر نے نواز شریف کے اقتدار پر بھی سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بات نواز شریف کو اس وقت ان کے منہ پر بھی بتا دی گئی تھی کہ بینظیر بھٹو کی سیاست کا خاتمہ آپکی سیاست کو بھی زوال پذیر کر دے گا کیونکہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ اہل اقتدار سمجھتے ہیں کہ ہم مخالف کو کمزور کر لیں گے تو ہم مزید طاقتور ہو جائیں گے لیکن عملی طور پرہوتا یہ ہےکہ آپ کی مضبوطی اور آپ کی اہمیت کی اصل وجہ آپ کا سیاسی مخالف ہوتا ہے آپ خود نہیں ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے سیاستدان اپنے مخالف کو بھی مضبوط رکھتے ہیں بلکہ اسکا انتخاب بھی خود ہی کرتے ہیں اور بظاہر مخالفت کرتے ہوئے اندر سے اسے مضبوط بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس ساری طویل کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شہباز حکومت کے طوطے کی جان عمران خان میں ہے عملی طور پر شہباز حکومت عمران خان کو کمزورکرنا چاہتی ہے اور عمران خان اور انکی جماعت شہباز حکومت کو سر ے سے ہی گرانا چاہتی ہے۔ نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کو نہ سمجھنے والے یہ دونوں بہت بھولے ہیں اگر شہباز شریف کی کمزور حکومت گری تو عمران کے لئے مشکلات اور بڑھ جائیں گی اور اگر نون نے عمران کو کونے میں لگا دیا تو نون کی اپنی سیاسی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔
یہ دونوں بھولے سمجھ نہیں رہے کہ انکی بقا ایک دوسرے کی مضبوطی میں مضمر ہے۔ اب اگر تو انہوں نے لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کرنا ہے تو پھر رسم و سہراب اور سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی طرح ایک کی موت دوسرے کو خودبخود انجام تک پہنچا دے گی۔ قومی اتحاد نے فوج کے ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نکالا جب بھٹو کو پھانسی ہو گئی تو جنرل ضیاء الحق نے قومی اتحاد کے وزیروں کی چھٹی کروا دی تھی کیونکہ جنرل ضیاء نے قومی اتحاد کے کندھے کو استعمال کر کے بھٹو کو انجام تک پہنچایا اور جب بھٹو کو ختم کر لیا تو اس نے قومی اتحاد کی موت کا خود ہی انتظام کر دیا۔ بعض اوقات رقیب کی حفاظت بھی عاشق کی ذمہ داری بن جاتی ہے دشمن کی جان اور عزت کا تحفظ نہ کیا جائے تو خود آپ کی جان اور عزت کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
اگر نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت درست ہے اور اگر اوپر دی گئی تاریخی اور سیاسی مثالیں درست ہیں اور اگر آج کی سیاست کے دو بڑے فریق نونی اور انصافی واقعی بھولے ہیں اور یہ نہیں سمجھ رہے کہ انکی جان اور سیاست ایک دوسرے کے اندر ہے تو پھر انجام دونوں کی کمزوری اور خاتمے میں ہوگا اگر یہ بھولے تھوڑے سیانے ہو جائیں اور مذاکرات کو ناکام کرنے کی بجائے ہر صورت انہیں کامیابی کی طرف لے جائیں تو وہ ایک دوسرے کی سیاسی زندگی کے ضامن بن سکتے ہیں اور اگر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے اور بالآخر ایک فریق ہار گیا تو بھی دوسرا فریق نہیں جیتے گا اصل میں وہ ایک تیسرے فریق کو مضبوط کر رہا ہوگا۔
مرحوم و مغفور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ جمہوریت میں کوئی رکاوٹ یا خرابی آجائے تو اسکا علاج مزید جمہوریت ہے اگر اسی اصول کو مدنظر رکھا جائے تو مذاکرات ناکام ہونے کا علاج مزید مذاکرات میں ہے اگر جنگوں کا اختتام مذاکرات سے ہو سکتا ہے تو سیاسی اختلاف کاکیوں نہیں؟
مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ نون اور انصاف دونوں کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے نہ ان میں مصالحت کا رنگ نظر آرہا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے لچک ہے ۔اس ادنیٰ طالبعلم کی رائے میں ان دونوں فریقوں کی سیاسی زندگی کا انحصار مذاکرات کی کامیابی میں ہے۔ قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا ۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں صلح نہ ہوئی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے نتیجہ کیا نکلا؟ تیسرے فریق نے مارشل لا لگا دیا۔ ہم ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ شدید سیاسی محاذ آرائی کے باوجود یہاں مارشل لا نہیں لگا وگرنہ اہل سیاست جس طرح لڑ رہے ہیں جس طرح عدلیہ اور فوج کی لڑائی کروانا چاہتے ہیں یا جس طرح شہروں کا محاصرہ کیا جاتا ہے اورنونی، عمرانیوں کوہلکی سی رعایت ملنے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں ،یہ صرف مخالف کے دشمن نہیں یہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑیاں مار رہے ہیں ،دونوں فریقوں کی سیاست اور زندگی بچانے کا واحد راستہ مذاکرات کی کامیابی ہے کمزور معاہدہ بھی ہوجائے تو یہ دونوں کے بچائو کا راستہ بنائے گا۔ صلح حدیبیہ کو مسلمانوں کے لئے کمزور معاہدہ تصور کیا گیا لیکن اسی معاہدے نے فتح مکہ کی راہ ہموار کی۔ تحریک انصاف کو کمزور معاہدہ یا ہلکا پھلکا ریلیف بھی ملے تو لے لینا چاہئے آج کی مصلحت کل کی فتح بن سکتی ہے اور آج کی پیشکش کو مسترد کرنا مستقبل کی خود کشی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے!!