• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مخمل ہو کہ اطلس ہو کہ کمخواب ہو، کیا ہو ....

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: عینی

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو (ڈی ایچ اے، لاہور)

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

کوارڈی نیشن: نعمان الحق (نوح ٹیلنٹ)

لے آؤٹ: نوید رشید

’’کپڑوں کے ناموں کی داستان‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سیّد حامد حسین کے ایک مضمون میں ’’شنیل‘‘ اور ’’مخمل‘‘ سے متعلق رقم ہے کہ ’’روئیں دار یا ریشمی کپڑے شنیل ’’Chenille‘‘ کا نام فرانسیسی زبان سے لیا گیا ہے، جہاں Chenille سے مراد کملا کیڑا (Cater pillar) ہوتا ہے۔ 

چوں کہ کملے کیڑے کے جسم پر بھی بڑے روئیں ہوتے ہیں اور یہ کپڑا اُسی سے مشابہت رکھتا ہے، تو اِس کا نام شنیل پڑگیا۔ اور انگریزی لفظ Cater pillar بھی قدیم فرانسیسی زبان کے ایک لفظ ہی سے نکلا ہے، جس کے معنی بڑے بالوں والی بلّی کے ہیں۔ 

اِسی طرح ’’مخمل‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’خمل‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ’’کپڑے کے روئیں‘‘ کے ہیں۔ یعنی مخمل، ایک روئیں دارکپڑے کو کہتے ہیں، جو اُردو زبان میں ململ کے وزن پر ’’مخمل‘‘ہوگیا۔ 


پھر انگریزی لفظ Valvet، لاطینی زبان کے لفظ Villus تک پہنچتا ہے، جس کے معنی جانور کے لٹکنے والے روئیں کے ہیں اور چوں کہ مخمل کپڑے پر بھی گھنا رواں ہوتا ہے، تو اِسی واسطے اِس کپڑے کا یہ نام چُنا گیا ہے۔‘‘ ہماری آج کی بزم چوں کہ خواتین کے لیے موسمِ سرما کے سب سے حسین تحفے شنیل، مخمل کے ملبوسات ہی سے مرصّع ہے، تو سوچا کہ آج آپ کو اِن حسین و دل نشین پہناووں کے فیبرک کی وجۂ تسمیہ ہی سے متعلق کچھ آگہی فراہم کردی جائے۔

ویلویٹ فیبرک کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ سردی کی شدّت و زیادتی کے توڑ یا مقابلے کے لیے تو بطور ایک موثر ہتھیار زیبِ تن کیا ہی جاتا ہے، لیکن مشینی یا ہینڈ ایمبرائڈری کی جدّت و ندرت کے ساتھ کسی عالی شان سے عالی شان تقریب کو چار چاند لگانے کی بھی خُوب صلاحیت رکھتا ہے۔ اور کچھ نہیں، تو کسی پلین پہناوے کے ساتھ شنیل کی کام دار شال کی آمیزش ہی کرلی جائے، تو پوری شخصیت ہی کا تاثر انتہائی دل کش و شاہانہ سا ہوجاتا ہے۔ 

اس فیبرک کی خُوبی و کمال ہی یہ ہے کہ یہ تن و مَن ہی کو نہیں، قلب و ذہن اور آنکھوں کو بھی خُوب طراوت دیتا ہے۔ خصوصاً اس کے گہرے اُجلے رنگ مثلاً باٹل گرین، نیوی بلیو، کلیجی مائل عنّابی، جامنی، آتشی، میجینٹا اور جیٹ بلیک کلرز۔ 

جو سرما کے خاص الخاص رنگ ہیں، تو مخملیں پہناووں کی تیاری کےلیے بڑے ڈریس ڈیزائنرز کی اوّلین ترجیح بھی۔ بلکہ صرف ملبوسات ہی کی حد تک نہیں، نہ صرف خواتین کی کئی ایکسیسریز پرس، ہینڈ بیگز، جوتے، کوٹس، اسکارفس، کیچرز، چوڑیاں، جیولری آئٹمز، جیولری باکسز، بلکہ ہوم ڈیکور کی کئی اشیاء حتیٰ کہ اب تو کھانے پینے کے لوازمات میں بھی ویلویٹ ٹچ عام ہے، جیسا کہ رنگا رنگ ویلویٹ کیکس (ریڈ، بلیو ویلویٹ کیک وغیرہ) تو ہر ایک ہی کے مَن پسند ہے۔ 

دراصل شنیل کا احساس، تاثر ہی کچھ ایسا دبیز و گف سا ہے کہ جہاں بھی استعمال ہوگا، ماں کی نرم و گرم آغوش ہی سا سُکون و آرام، سُکھ شانتی دے گا۔ 

جیسے کہ ہماری آج کی بزم۔ جو رائل بلیو، باٹل گرین اور آتشی رنگوں کے انتہائی حسین و دل کش پہناووں سے مرصّع ہے اور ہر ایک لباس پر نفیس و دل آویز کڑھت کی کچھ ایسی جلوہ گری ہے کہ نگاہ ٹھہرتے ٹھہرتے پھسلتی، تو پھسلتے پھسلتے ٹھہر سی جاتی ہے۔

کراچی سے تو سردی بس ’’ٹاٹا، بائے بائے‘‘ کہنے ہی کو ہے، لیکن مُلک کے دوسرے شہروں میں تاحال قدم رنجہ فرمائے ہوئے ہے، تو ہم اہلیانِ کراچی یوں ہی محض ’’شوبازی‘‘ کے لیے، جب کہ دیگر پاکستانی ضرورتاً اِن رنگ و انداز سے ضرور مستفید ہوسکتے ہیں کہ ہر ایک انداز ہی اپنی جگہ قیامت ہے۔ 

یقیناً ایسی ہی قاتل اداؤں کے سبب کچھ ایسے اشعار تخلیق ہوئے ہوں گے کہ ؎ نرم ریشم سی ملائم، کسی مخمل کی طرح..... سرد راتوں میں تِری یاد ہے کمبل کی طرح..... مَیں زمانے سے اُلجھ سکتا ہوں، اُس کی خاطر..... جو سجاتا ہے مجھے، آنکھ میں کاجل کی طرح۔

 ؎ مِری پلک پہ ہے احساس جیسے مخمل سا..... تمہارا خواب اِسے چُھو کے چل دیا ہوگیا۔ ؎ کہاں گئے معجزوں کے منکر، اب آئیں شہباز آکے دیکھیں..... ہمارے کھدّر نصیب ہاتھوں میں ہے، کلائی شنیل جیسی۔ ؎ نازکی ختم ہے اُن پر، تو یہ فرماتے ہیں..... فرشِ مخمل پہ میرے پاؤں چِھلے جاتے ہیں۔ اور ؎ تم آؤ مِرے گھر تو بتاؤ کہ سرِفرش..... مخمل ہو کہ اطلس ہو کہ کمخواب ہو، کیا ہو؟