تحریر: نرجس ملک
ماڈل : صبا خان
ملبوسات: رضا شاہ نور
زیورات : ہادیہ کندن
آرائش: نو رضا
عکّاسی : عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
رنگارنگ، حسین و دل نشین پہناووں سے سجی اِک بزم ہو اور موضوعِ سُخن ’’عورت‘‘ نہ ہو، بھلا کیسے ممکن ہے۔ تو چلیں، ذرا نسلِ نو کے ایک پسندیدہ شاعر آفتاب شاہ کی کتاب ’’کوئی نہیں‘‘ سے’’عورت‘‘ ہی کے عنوان سے اخذ شدہ ایک نظم ملاحظہ فرمائیں ؎ ’’حدّت، خُنکی، شدّت، خُوشبو، چاند ستارہ عورت ہے…جوش، جوانی، رقص، ترنّم، رُوپ سہانا عورت ہے… نکہت، بادل، موسم، فطرت، جھیل، گلاب، نشیلی دھوپ…تتلی، پھول، سنہری چڑیا، ہرن سوانا عورت ہے…بیتِ مومن، نظمِ ساحر، نغمۂ اختر، سوزِ میر…غزل، قصیدہ، مطلع، مقطع، شعر دو گانا عورت ہے…بحرِ آتش، معنیِ غالب، حُسنِ ولی اوررنگِ ذوق… حرف،حکایت، لفظ، کرشمہ، نثر ٹھکانا عورت ہے…شاہدِ عصمت، پردہ نشینی، مونسِ ہجراں، عجزِ ولی…عفّت، حُرمت، نُور، شرافت، شرم بچانا عورت ہے…حورِ گلستاں، حورِ تبسم، حورِ زمانہ، حورِ جہاں…حورِ مجسّم، حورِ خیالاں، حور بُتانا عورت ہے…رنگِ غازہ، رنگِ حنائی، شغلِ سرمہ، بوئے حنا… کنگھی، کنگن، چوڑی، گجرا سجنا سجانا عورت ہے… ادا خطائی، وفاعطائی، نازقیامت، شوخیِ جاں…
عشوہ، نخرہ، چنچل شکوہ، مکر بہانا عورت ہے… رازِ الفت، سازِ راحت ، سوزِ چاہت، نالۂ دل…عشق، محبت، پیار، فسانہ نظر لڑانا عورت ہے…باغِ بہاراں، بادِ بہاراں، صُبحِ بہاراں، چشمِ بہار…بادل، بارش، ابر مہینہ، راگ پُرانا عورت ہے…معنی خیزی، حیرت شکنی، سحر بیانی، رازِ غم… بلنا، کڑھنا، رعب، جلاپا، جلنا جلانا عورت ہے…ناصحِ عالم، واعظِ دوراں، فتح یقینی، رازِدوست…ہمّت، طاقت، جرات، غیرت، عزم توانا عورت ہے…رازِ ہستی، رازِ فطرت، رازِ مسرت، رازِ حیات… قہقہ، چیخ، خوشی کا نعرہ، ہنسنا ہنسانا عورت ہے…دخترِ عالی، رُوپ سہاگن، رازِ جنّت، باپ کی پگ…امّاں، بہن، بیوی، بیٹی سب نکھرا گھرانا عورت ہے۔‘‘ خُود ہی کہیے، کیا اِس سب کے بعد عورت ذات سے متعلق کچھ بھی کہنا سُننا بنتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اَن گنت، لامتناہی خواص و خصوصیات کی اُمید، توقع، خواہش اور ایک بے چاری کم زور سی عورت… خاصا بھاری بھرکم مطالبہ ہے، مگر عمومی طور پر خواتین سُرخ رُو ہی ٹھہرتی ہیں کہ قدرت نے اُن کا خمیر ہی تنوّع، بُوقلونی سے گوندھا ہے، رنگارنگی اُن کی فطرت و سرشت کا ناگزیر حصّہ ہے۔ یہ اِک عورت ہی کا خاصّہ ہے کہ وہ بیک وقت متعدّد محاذوں پر سرگرم رہ سکتی ہے۔ اُس کے چھوٹے سے دماغ میں ہمہ وقت کیا کھچڑی پکتی رہتی ہے، وہ جانے یا رَب جانے۔
کوئی دوسرا تو اُس تک رسائی کا تصوّر و گمان بھی نہیں کرسکتا۔ وہ بانو آپا نے کہا تھا ناں کہ ’’مرد کی ذات ایک سمندر کے مشابے ہے، جس میں پرانے پانی بھی رستے بستے ہیں اور نئے دریا بھی آ آکر گلے ملتے ہیں۔
سمندر سے پرانی وفا اور نیا پیار علیٰحدہ نہیں کیے جاسکتے، وہ اِن دونوں کے لیے کٹ مرے گا۔ لیکن عورت… اُس جھیل کی مانند ہے، جس کا ہر چشمہ اُس کے اندر ہی سے پھوٹتا ہے۔‘‘ جب کہ اشفاق صاحب نے ایک جگہ لکھا کہ ’’آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل، دانش کی بات کرلیں، کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں، اگر اُس کی مرضی نہیں، تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔
اُس کے ذہن میں اپنی ہی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے، جسے اُس نے اپنی مرضی سے سجا سنوار رکھا ہوتا ہے اور وہ اُسے روشن رکھنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ عقل و دانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان ہی نہیں رکھتی۔ اُس نے جوفیصلہ کرلیا ہوتاہے، بس وہی اُس مسئلے کاواحد اورحتمی حل ہوتا ہے۔‘‘اِسی طرح عورت کی فطرت و سرشت، مزاج و عادات کے ضمن میں کچھ اور بھی معروف اقوال ہیں۔
مثلاً: ’’محبّت میں مرد مشرک ہے، توعورت موحد کہ عورت عُمر بھر اپنے دل میں ایک ہی خدا کو سجائے پوجتی رہتی ہے، جب کہ مرد چھوٹی چھوٹی بے شمار مورتیوں کی پوجا کرتا ہے۔‘‘، ’’عورتوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی بات راز نہیں رکھ سکتیں، لیکن اگر واقعتاً ایسا ہوتا، تو آج دنیا میں کوئی ایک مَرد سر اُٹھا کے نہ جی رہا ہوتا۔‘‘، ’’عورت سب کچھ ہوسکتی ہے، مگر بدصورت نہیں۔‘‘، ’’عورت کی کھوپڑی دراصل حجلۂ عروسی ہے، جس میں ہمہ وقت ڈھولکی بجتی رہتی ہے۔‘‘، ’’عورت درد بھی ہائی ہیلز کی طرح پہنتی ہے۔
اُسے اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُس کے پائوں کتنی تکلیف اُٹھا رہے ہیں، اُس کے لیے تو بس یہ خوشی ہی کافی ہے کہ وہ سینڈلز پہن کے خُوب صُورت نظر آرہی ہے۔‘‘، ’’عورت آدھی روٹی کھا کر گزارہ کرلیتی ہے، مگر مرد اُسے پورا ہی چاہیے ہوتا ہے۔‘‘، ’’عورت موم ہے یا پتھر، اِس کا فیصلہ وہ خُود کرتی ہے۔
وہ چاہے تو محبوب کے اِک اِک اشارے کی سمت مُڑتی رہے اور اگر پتھر ہونے کا فیصلہ کرلے، تو کوئی شخص بھکاری بن کر بھی اُس کی ایک نگاہِ التفات نہیں پاسکتا۔‘‘، ’’عورت کی خاموشی، دراصل اُس کی بلند ترین چیخ ہوتی ہے۔‘‘، ’’عورت محبّت کے بغیر ادھوری ہے، لیکن عزت کے بغیر تو عورت ہی نہیں رہتی۔‘‘، ’’مرد اگر ہاتھ چُھڑا کے جانا چاہے، تو روک لو۔ لیکن اگرعورت ہاتھ چُھڑوانے کی کوشش کرے، تو کبھی مت روکنا، کیوں کہ وہ ہاتھ چُھڑانے سے پہلے ہی جاچکی ہوتی ہے۔‘‘، ’’عورت زندگی میں ایک ایسی نظر ضرور چاہتی ہے، جو دیکھتے ہی جان لے کہ آنکھیں جگ راتے سے لال ہیں یا دُکھ، تکلیف سے۔‘‘، ’’عورت اگر ہنسنا بسنا چاہے تو سرکنڈوں کی جھونپڑی میں بھی خوش باش رہتی ہے، نہ بسنا چاہے، تو محلات کو بھی لات ماردیتی ہے۔‘‘ اور… ’’مرد کا خُوب صُورت رویّہ، عورت کو کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔‘‘
توبھئی، ہم تو دل و جان سے چاہتے ہیں کہ عورتیں ’’سدا بہار‘‘ ہی رہیں۔ قلب و نظر کا حُسن ہی جواں، دو آتشہ نہ ہو، جسم و جاں کی زیب و زینت بھی اپنی مثال آپ ہو۔ اِسی واسطے ’’اسٹائل بزم‘‘ پرنوکمپرومائز۔
اب آج ہی کی محفل دیکھ لیں۔ ٹی پنک رنگ میں کام دانی کے حسین کام کے ساتھ موتی، ستارہ ورک کی دل نشین ہم آمیزی کیا غضب ڈھا رہی ہے۔
سیاہ و سفید کے دل کش امتزاج میں نیٹ کے دوپٹے کے ساتھ خوش نُما ایمبرائڈری کا جلوہ ہے، تو گہرے سُرمئی رنگ پہناوے پر ہم آمیز کڑھت، بہت ہی موزوں معلوم ہورہی ہے۔
لائٹ بے بی پنک رنگ میں شیفون کا دل آویز پہناوا ہے، تو لائٹ ٹرکوائز سے رنگ میں بھی لیس ورک سے مزیّن ایک نہایت حسین سا انداز ہے اور موسم و موقعے سے عین ہم آہنگ سیاہ رنگ کے ویلویٹ کے بیش قیمت ہینڈ ورک سے مزیّن پہناوے کی تو کیا ہی بات ہے۔
اب ایسے میں، کون نہ بے اختیار کہہ اُٹھے گا ؎ حدّت، خُنکی، شدّت، خوشبو، چاند ستارہ عورت ہے۔