اس نے جمہوریت اور آزادی کی لڑائی میں کئی راتیں قبر میں گزاریں۔ وہ قبر میں رات گزارنے کے بعد صبح ہوتے ہی سڑکوں پر نکل جاتا اور صحافیوں کے ساتھ مل کر۔ ’’ہم لے کے رہیں آزادی‘‘۔ کے نعرے لگاتا۔ کہیں پولیس کی لاٹھیاں کھاتا ،کہیں آنسو گیس کا سامنا کرتا اور پھر شام کو ایک گورکن کی مددسے قبر میں چھپ جاتا۔ یہ کسی فلم کی کہانی ہے اور نہ ہی کوئی افسانہ ہے بلکہ یہ پاکستانی سیاست کے ایک جیتے جاگتے کردار سینیٹر مسرور احسن کی کہانی ہے۔ گزشتہ ہفتے جب آزادی اظہار کوقبر میں اتارنے کیلئے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء سینیٹ میں پیش کیا گیا تو میری نظریں مسرور احسن کو تلاش کر رہی تھیں۔ نجانے مجھے یہ خوش فہمی کیوں تھی کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹرز میں سے کوئی بولے نہ بولے لیکن مسرور احسن آزادی اظہار کو قبر میں اتارنے کیلئے گورکن کا کردار ادا نہیں کرے گا۔ اس خوش فہمی کی وجہ مسرور احسن کا وہ کردار ہے جو انہوں نے دسمبر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف صحافیوں کی تحریک میں ادا کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو جیل میں تھے۔ ان کی پارٹی کے کئی سینئر رہنمائوں نے فوجی حکومت کے ساتھ خاموش مفاہمت کر رکھی تھی۔ اس خاموش مفاہمت کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کیلئے کوئی بڑی تحریک نہ چل سکی لیکن پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے صحافیوں کو نوکریوں سے نکالے جانے اور سنسر شپ کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔ مسرور احسن پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکن تھے۔ انہوں نے آزادی صحافت کیلئے اس تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا۔ اس تحریک میں صحافیوں کی طرف سےپاکستان کے مختلف شہروں میں گرفتاریاں دی جاتی تھیں۔ پولیس صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرنےکیلئے راتوں کو ان کے گھروں میں چھاپے مارتی تھی تاکہ صبح کو وہ سڑکوں پر گرفتاریاں پیش کرنے نہ آسکیں۔ ایک دن مسرور احسن چھپتے چھپاتے کراچی کے فیڈرل بی ایریا میں اپنے دوست محمد نیئر کے پاس پہنچے تو وہاں پہلے سے کئی صحافی چھپے ہوئے تھے جنہوں نے اگلی صبح گرفتاری پیش کرنی تھی۔ وہاں جگہ نہیں تھی لہٰذا وہ مزدور رہنما خدا بخش لاسی کے ہمراہ شیر شاہ ولیج کے قدیمی قبرستان پہنچے جہاں ان کی ملاقات ایک خدا ترس گورکن سے ہوئی۔قبرستان میں بھی پہلے سے چھ صحافی موجود تھے جنہیں خالی کھدی ہوئی قبروں میں چھپایا گیا تھا۔ گورکن نے ایک خالی قبر مسرور احسن کو بھی دے دی۔ قبر میں مچھر مار کوائل جلا کر مسرور احسن کوبستر، چادر اور پانی بھی دیدیا گیا۔ قبرستان میں مسرور احسن نے کچھ راتیں گزاریںاور ایک دن انہوںنے بھی گرفتاری دیدی۔ مسرور احسن اس سینیٹ کے رکن ہیں جہاں پیکا ایکٹ 2025ء کو بغیر کسی بحث مباحثے کے منظور کرلیا گیا۔ ایک مسرور احسن سے کیا شکوہ کریں اس سینیٹ میں ایسے کئی چہرے ہیں جو کسی زمانے میں جدوجہد اور مزاحمت کی علامت تھے لیکن آج ان کی خاموشی دراصل ان کے اپنے وجود سے انکار بن چکی ہے۔ ماضی کا کوئی فوجی ڈکٹیٹر ان کے عزم کو نہ توڑ سکا لیکن اپنی سیاسی قیادت کی مفاد پرستی کے باعث جمہوریت کے یہ مجاہد آج اپنے پرانے دوستوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں رہے۔ ان ارکان پارلیمنٹ سے اچھا تو وہ گورکن تھا جس نے 1977ء میں مسرور احسن کو چھپنے کیلئےایک خالی قبر فراہم کی تھی۔ افسوس کہ آج کی پارلیمنٹ ایسے قوانین منظور کر رہی ہے جن کا اصل مقصد آئین میں دیئے گئے حقوق اورشخصی آزادیوں کو قبر میں اتارنا ہے۔
کاش یہ ارکان پارلیمنٹ 26ویں آئینی ترمیم اور پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کو منظور کرنے سے پہلے ان قوانین کے مسودوں پر ایک نظر ڈال لیتے۔ 26 ویں ترمیم کو وکلا کی اکثریت نے قبول نہیں کیا اور پیکا ترمیمی ایکٹ کو صحافیوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مسترد کردیا ہے۔ شہباز شریف کی حکومت کا موقف ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کا مقصدصرف فیک نیوز کو ختم کرنا ہے حالانکہ فیک نیوز کے انسداد کے لئے کئی قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ پیکا ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ وفاقی حکومت ایک سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنائے گی۔ اس اتھارٹی کے تحت خصوصی عدالتیں بنائی جائیں گی جن کے ججوں کا تقرر عدلیہ نہیںبلکہ وفاقی حکومت خود کرے گی۔ وفاقی حکومت خود ہی شکایت کنندہ بن سکے گی،خود ہی مقدمہ دائر کرے گی، خود ہی جج ہوگی اور سزا پر عملدرآمد بھی خود کرے گی۔ پیکا ایکٹ کو غور سے پڑھیں تو یہ آئین کے آرٹیکل 175کی ذیلی شق 3 کی کھلی خلاف ورزی ہے جو انتظامیہ کو عدلیہ کے اختیارات استعمال کرنے یا سلب کرنے سے روکتی ہے۔ سپریم کورٹ اپنے کئی فیصلوں میں یہ قرار دے چکی ہے کہ ایگزیکٹو افسران عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتے نہ ہی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ حکومت بلوچستان بنام عزیز اللہ میمن (پی ایل ڈی 1993)شرف فریدی بنام وفاق پاکستان (پی ایل ڈی 1994) سمیت سپریم کورٹ کے کئی فیصلے وفاقی حکومت کو براہ راست ججوں کی تقرری سے روکتے ہیں لیکن جن صاحبان اختیار نے پیکا ایکٹ 2025 ء کا درافٹ تیار کیا وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کو اہم نہیں سمجھتے بلکہ سپریم کورٹ سے اپنے من پسند فیصلوں کے اعلان کو ہی ملکی مفاد سمجھتے ہیں۔ سپریم کورٹ محرم علی بنام وفاق پاکستان (پی ایل ڈی 1998ء) میں قرار دےچکی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار دیگر عدالتوں کے ججوں کی تقرری سے مختلف نہیں ہونا چاہیے اور ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا اختیار ہونا چاہیے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت بننے والی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں نہیں بلکہ صرف سپریم کورٹ میں اپیل ہو سکے گی جو آئین کی بھی خلاف ورزی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ کے اختیارات پر ضرب لگائی اورپیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء نے بھی سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کو ہوا میں اڑا دیا۔ یہ قوانین صرف آئین پاکستان نہیں بلکہ یورنیورسل ڈکلیئریشن آف ہیومن رائٹس سمیت کئی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ جس دن پیکا ترمیمی ایکٹ کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا اس شام پاکستان کے دورے پرآئے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے انسانی حقوق اولوف سکوگ سے ہماری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بھی پیکا ترمیمی ایکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ وہ بھی حیران تھے کہ پارلیمنٹ نے یہ قانون بغیر بحث کے منظور کیسے کرلیا؟انہوں نے حکومت کی کئی اہم شخصیات کیساتھ ملاقاتیں کیںلیکن وہ فوجی عدالتوں اور پیکا ترمیمی ایکٹ پر حکومت کی طرف سے پیش کئے گئے دلائل سے مطمئن نہ ہوئے۔ پاکستان کے وکلا اور صحافی ان سیاہ قوانین کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مزاحمت کامیاب ہوگی یا ناکام لیکن مزاحمت تو کرنی ہوگی۔ یہ صرف وکلا اور صحافیوں کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی لڑائی ہے جنہیں انکے آئینی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کو بھی فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں جمہوریت اور آئین کا گورکن بننا ہے یا جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی لڑائی لڑنی ہے۔